1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تفسير ابن كثير

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏30 جنوری 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سورة الفاتحة


    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴿1﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم واﻻ ہے۔ (1)

    تفسیر آیت/آیات، 1 ،

    بسم اللہ سورہ نمل کی ایک آیت یا؟ ٭٭

    صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کی کتاب کو اسی یعنی ( «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ») سے شروع کیا۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سورۃ نمل کی ایک آیت ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے؟ یا ہر سورت کی آیت کا جزو ہے؟ یا صرف سورۃ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے؟ اور خود آیت نہیں ہے؟ علماء سلف اور خلف کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موود ہے۔

    سنن ابوداؤد میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» نازل نہیں ہوتی تھی ۔ (سنن ابوداود:788،قال الشيخ الألباني:صحیح) یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے (مستدرک حاکم:231/1) ایک مرسل حدیث میں یہ روایت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔

    چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللَّـهِ» کو سورۃ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا (ابن خزیمہ:493:ضعیف) لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔ (دارقطنی:312/1:ضعیف)
    سیدنا علی، سیدنا ابن عباس، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم، عطا، طاؤس، سعید بن جبیر، مکحول اور زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورۃ برات کے۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

    البتہ امام مالک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں۔ کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔

    امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ سورۃ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں۔

    داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول میں «بِسْمِ اللَّـهِ» ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں۔

    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے اور ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے ابوحسن کرخی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے۔

    یہ تو تھی بحث «بِسْمِ اللَّـهِ» کے سورۃ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی۔ ( صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم )

    بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے؟ ٭٭

    اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیئے یا پست آواز سے؟ جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے۔ ان میں اختلاف ہے۔

    امام شافعی رحمہ اللہ کا تو مذہب ہے کہ سورۃ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیئے۔

    صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و مؤخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بیہقی رحمہ اللہ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا اور سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے بھی غریب سند سے امام خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے۔

    تابعین میں سے سعید بن جبیر، عکرمہ، ابوقلابہ، زہری، علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطاء، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابووائل ابن سیرین، محمد بن منکدر، علی بن عبداللہ بن عباس ان کے صاحبزادے محمد نافع ابن عمر کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابوشعثا، مکحول، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبداللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔
    ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورۃ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیئے۔ علاوہ ازیں سنن نسائی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرأت میں اونچی آواز سے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں ۔ (سنن نسائی:906،تخریج دارالدعوہ:صحیح) اس حدیث کو دارقطنی، خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۔

    ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع کیا کرتے تھے ۔ (سنن ترمذي:245،قال الشيخ الألباني:ضعيف الإسناد) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔

    مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے ۔ (مستدرک حاکم:208/1:ضعیف جدا) امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
     
    زیغم اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز قرات ٭٭

    صحیح بخاری میں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر سنائی «بِسْمِ اللَّـهِ» پر مد کیا «الرَّحْمَـٰنِ» پر مد کیا «الرَّحِيمِ» پر مد کیا ۔ (صحیح بخاری:5046)

    مسند احمد، سنن ابوداؤد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پھر ٹھہر کر «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» پھر ٹھہر کر «لرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پھر ٹھہر کر «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» ۔ (سنن ترمذي:2927،قال الشيخ الألباني:صحيح) دارقطنی اسے صحیح بتاتے ہیں ۔

    امام شافعی، امام حاکم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور «بِسْمِ اللَّـهِ» نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چنانچہ پھر وہ جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھی ۔ (مسند شافعی:80/1:حسن)

    غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لیے کافی ہیں۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔

    دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں «بِسْمِ اللَّـهِ» کو زور سے نہ پڑھنا چاہیئے۔ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن معقل رضی اللہ عنہم، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہ ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ثوری، امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔
    امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند ۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر سے اور قرأت کو «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے ہی شروع کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم:498)

    صحیحین میں ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے ہی شروع کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:743)

    صحیح مسلم میں ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں ۔ (صحیح مسلم:399)

    سنن میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ (سنن ترمذي:244،قال الشيخ الألباني: ضعيف) یہ ہے دلیل ان ائمہ کے «بِسْمِ اللَّـهِ» آہستہ پڑھنے کی۔

    یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ( «بِسْمِ اللَّـهِ» کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زور دار ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم )
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان ٭٭

    تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «بِسْمِ اللَّـهِ» کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں“ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:21/1:موضوع باطل)

    ابن مردویہ میں بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ اور یہ روایت بھی ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے «بِسْمِ اللَّـهِ» عیسیٰ علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللَّـهِ» کیا ہے؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا: «ب» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «بہا» یعنی بلندی ہے اور «س» سے مراد اس کی «سنا» یعنی نور اور روشنی ہے اور «م» سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور «اللہ» کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور «رحمن» کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو «رحیم» کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو“ ۔ (الکامل لابن عدی:303/1:موضوع باطل)

    ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:140:موضوع باطل) لیکن سند کی رو سے یہ بے حد غریب ہے، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو۔ مرفوع حدیث نہ ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔
    ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری۔ وہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» ہے۔

    جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی۔

    ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھے، اس کے بھی انیس حروف ہیں، ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے۔

    اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی کی ہے جس میں آپ نے فرمایا:”میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ» پڑھا تھا“ ۔ (صحیح بخاری:799) اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ۔
    مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جو صحابی سوار تھے، ان کا بیان ہے کہ آپ کی اونٹنی ذرا پھسلی تو میں نے کہا شیطان کا ستیاناس ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا۔ ہاں «بِسْمِ اللَّـهِ» کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے“ ۔ (سنن ابوداود:4982،قال الشيخ الألباني:صحيح)

    نسائی نے اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ کر «بِسْمِ اللَّـهِ» کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا ۔ (النسائی فی عمل الیوم واللیہ:559:صحیح بالشواھد)

    اسی لیے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ لینا مستحب ہے۔

    خطبہ کے شروع میں بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کہنی چاہیئے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام کو «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:1894،قال الشيخ الألباني:ضعيف)
    بیت الخلاء (پاخانہ) میں جانے کے وقت «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ لے ۔ (سنن ترمذي:606،قال الشيخ الألباني: صحيح) حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے۔

    مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ، سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا“ ۔ (سنن ابن ماجہ:399،قال الشيخ الألباني:حسن)یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔
    جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا «ان شاءاللہ تعالیٰ» ۔

    امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ ایک میں ہے کہ ”جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی۔“ لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی۔ کھاتے وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھنی مستحب ہے۔

    صحیح مسلم (و بخاری) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”( جو آپ کی پرورش میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اگلے خاوند سے تھے ) کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو“ ۔ (صحیح بخاری:5376) بعض علماء اس وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کا کہنا واجب بتلاتے ہیں۔
    بیوی سے ملنے (جماع) کے وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھنی چاہیئے۔ صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے «بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا۔“ فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ (صحیح بخاری:141)

    یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کی «ب» کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ «بِسْمِ اللَّـهِ اِبْتِدَائِي» یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے۔

    قرآن میں ہے «وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ» (11-هود:41) اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر۔ جیسے کہ «أَبْدَأُ بِسْمِ اللَّـهِ» اور «ابتدات بِسْمِ اللَّـهِ» ان کی دلیل آیت «قْرَأْ بِاسْمِ» الخ ہے۔

    دراصل دونوں ہی صحیح ہیں، اس لیے کہ فعل کے لیے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے۔ کھڑا ہونا ہو، بیٹھنا ہو، کھانا ہو، پینا ہو، قرآن کا پڑھنا ہو، وضو اور نماز وغیرہ ہو، ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لیے امداد چاہنے کے لیے اور قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔
    ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا: اے محمد! کہئے «أَسْتَعِيذ بِاَللَّهِ السَّمِيع الْعَلِيم مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيم» پھر کہا کہئے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» مقصود یہ تھا کہ اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:137:ضعیف منقطع)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بے معنی بحث ٭٭

    اسم یعنی نام ہی «مُسَمَّى» یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی «مُسَمَّى» ہے۔ ابوعبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے۔ باقلانی اور ابن فورک کی رائے بھی یہی ہے۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس «مُسَمَّى» ہے اور نفس «تَّسْمِيَة» کا «غَيْر» ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اسم «مُسَمَّى» کا «غَيْر» ہے اور نفس «تَّسْمِيَة» ہے۔ ہمارے نزدیک اسم «مُسَمَّى» کا بھی «غَيْر» ہے اور «تَّسْمِيَة» ہ کا بھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ «مُسَمَّى» کا «غَيْر» ہے اور اگر اسم سے مراد ذات «مُسَمَّى» ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور «مُسَمَّى» کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں، ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے «مُسَمَّى» ہوتا ہی نہیں۔ جیسے «مَعْدُوم» کا لفظ۔ کبھی ایک «مُسَمَّى» کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مترادف کبھی اسم ایک ہوتا ہے اور «مُسَمَّى» کئی ہوتے ہیں جیسے مشترک۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور «مُسَمَّى» اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے۔ اور نام والا الگ ہے۔ اور دلیل سنئیے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے۔ «مُسَمَّى» کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے۔ اور سنئیے اگر اسم ہی کو «مُسَمَّى» مانا جائے تو چاہیئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا۔

    اور دلیل سنئیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا» کہ ”اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں، تم ان ناموں سے اسے پکارو“ ۔ (7-الأعراف:180) حدیث شریف ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں“ (صحیح مسلم:2677) تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ «مُسَمَّى» ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ «وحدہ لاشریک لہ» ہے اسی طرح «اسماء» کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا۔

    اور جگہ فرمانا: «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ» (56-الواقعة:74) وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور «مُسَمَّى» اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت کا ہے۔ اسی طرح یہ «وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا» یعنی ”اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو“ (7-الأعراف:180) یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور۔

    اب ان کے دلائل بھی سنئیے جو اسم اور «مُسَمَّى» کو ایک ہی بتاتے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ» ”جلال و اکرام والے تیرے رب کا بابرکت نام ہے“ (55-الرحمن:78) تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے۔

    اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے۔

    ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینب پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینب ہے ہو جاتی ہے۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی، نام والے پر کیسے پڑتی؟

    اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ «باسم» کے متعلق تھا۔

    اب لفظ «اللہ» کے متعلق سنئے۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لیے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے۔

    جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ * هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ * هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» (59-الحشر:22-23-24) یعنی ”وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے، جو رحم کرنے والا مہربان ہے، وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بادشاہ ہے پاک ہے، سلامتی والا ہے، امن دینے والا ہے، محافظ ہے، غلبہ والا ہے، زبردست ہے، بڑائی والا ہے، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا، مادہ کو بنانے والا، صورت بخشنے والا ہے۔ اس کے لیے بہترین پاکیزہ نام ہیں، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے“۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام «اللہ» ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام۔

    اللہ تعالٰی نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں ٭٭

    پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔ اور فرماتا ہے «ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ» الخ یعنی ”اللہ کو پکارو۔ یا رحمن کو پکارو، جس نام سے پکارو، اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں“ (17-الإسراء:110)

    بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے ۔ (صحیح بخاری:7392)

    ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے ۔ (سنن ترمذي:3507،قال الشيخ الألباني:صحيح، ضعيف بسرد الأسماء) اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے۔

    رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں ٭٭

    «اللہ» ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ، امام خطابی رحمہ اللہ، امام الحرمین امام غزالی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ «الف لام» اس میں لازم ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ «یااللہ» تو کہہ سکتے ہیں مگر «یاالرَّحْمَـٰنِ» کہتے کسی کو نہیں سنا اگر لفظ «اللہ» میں «الف لام» اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ «یا» داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم پر داخل ہونا جائز نہیں۔
    بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن عجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں «مَصْدَرِ التَّأَلُّه»، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع «أَلِه» «يَأْلَهُ»، «إِلَاهَةً» اور «تَأَلُّهًا» ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ «وَيَذَرَكَ وَإِلَاهَتَكَ» پڑھتے تھے، مراد اس سے عبادت ہے۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا۔

    مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت «وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ» (6-الأنعام:3) الخ یعنی ”وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں“۔

    اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ» (43-الزخرف:84) الخ یعنی ”وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے“۔

    سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ «إِلَاهٌ» تھا جیسے «فِعَالٍ» پھر ہمزہ کے بدلے «الف و لام» لایا گیا جیسے «النَّاسِ» کہ اس کی اصل «أُنَاسٌ» ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل «إِلَاهٌ» ہے «الف لام» حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔

    عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل «الْإِلَهُ» تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے «لام» کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت «لَـٰكِنَّا هُوَ اللَّـهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا» (18-الكهف:38) میں «لَكِنَّ أَنَا» کا «لَكِنَّا» ہوا ہے۔

    چنانچہ حسن کی قرأت میں «لَكِنَّ أَنَا» ہی ہے اور اس کا اشتقاق «وَلِهَ» سے ہے اور اس کے معنی «تَحَيَّرَ» ہیں «وَلَهُ» عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ عربی میں «رَجُلٌ وَالِهٌ» اور «امْرَأَةٌ وَلْهَى» اور «مَاءٌ مُولَهٌ» اس وقت کہتے ہیں جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔

    چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ «وَلَّاهُ» تھا۔ «واؤ» کو «ہمزہ» سے بدل دیا گیا جیسے کہ «وِشَاحٌ» اور «وَوِسَادَةٍ» میں «أَشَاحُ» اور «أَسَادَةٌ» کہتے ہیں۔

    رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ «أَلِهْتُ إِلَى فُلَانٍ» سے مشتق ہے جو کہ معنی میں «سَكَنْتُ» کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اسی کی معرفت میں ہے اس لیے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: «اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ» (13-الرعد:18) یعنی ”ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں“۔
    ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ «لَاهَ يَلُوهُ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَلِهَ الْفَصِيلُ» سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں، اس لیے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب «أَلِهَ الرَّجُلُ يَأْلُهُ» اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے، اس لیے اس کو اللہ کہتے ہیں۔

    جیسے کہ قرآن کریم میں ہے: «وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ» (23-المؤمنون:89) الخ یعنی ”وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا“۔ «وَهُوَ الْمُنْعِمُ» حقیقی «الْمُنْعِمُ» وہی ہے،

    فرماتا ہے «وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ» (16-النحل:53) الخ یعنی ”تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں“، وہی «مُطْعِمُ» ہے،

    فرمایا ہے «وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ» (6-الأنعام:14) الخ یعنی ”وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا“۔ وہی «موجد» ہے فرماتا ہے «قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ» (4-النساء:78) الخ یعنی ”ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے“۔

    رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہاء کا یہی قول ہے، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں۔
    پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے «اللَّهُ»، «الرَّحْمَنُ»، «الرَّحِيمُ»، «الْمَلِكُ»، «الْقُدُّوسُ» وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں۔ قرآن میں ایک جگہ «الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ اللہ» (14-إبراهيم:1-2) الخ جو آتا ہے وہاں یہ «عَطْفِ» بیان ہے۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے «هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا» (19-مريم:65) الخ یعنی ”کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو؟“ لیکن یہ غور طلب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔

    بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔
    غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ و حیران ہے۔ ان معانی کی بنا پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے۔ ساری مخلوق اس کی محتاج، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو «لَاهً» کہتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں «الشَّمْسُ لَاهَتْ» چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں۔ اور «الْإِلَهُ» کے معنی عبادت کرنے اور «تَأَلَّهَ» کے معنی حکم برداری اور قربانی کرنے کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لیے اسے اللہ کہتے ہیں۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے «وَيَذَرك وَإِلَاهَتك» اس کی اصل «الْإِلَه» ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کا «لام» زائد «لام» سے جو تعریف کے لیے لایا گیا ہے مل گیا اور پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ «اللہ» کی تھی۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی ٭٭

    «الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے «الرَّحْمَٰنِ» میں «الرَّحِيمِ» سے زیادہ مبالغہ ہے۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے۔

    بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ «الرَّحْمَٰنِ» سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور «الرَّحِيمِ» سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ «رحمٰن» مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں «بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا» (33-الأحزاب:43) الخ آیا ہے۔

    مبرد کہتے ہیں «رحمٰن» عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابواسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ «رحیم» عربی لفظ ہے اور «رحمٰن» عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابواسحٰق فرماتے ہیں ”اس قول کو دل نہیں مانتا“۔

    قرطبی فرماتے ہیں اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمٰن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا (سنن ترمذي:1908،قال الشيخ الألباني:صحيح) اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
    رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا۔ قرطبی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» اور «رحیم» کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے «نَدْمَانَ» اور «نَدِيمٍ» “ ابوعبید کا بھی یہی خیال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ «فَعْلَانَ فَعِيلٍ» کی طرح نہیں۔ «فَعْلَانَ» میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے «غَضْبَانُ» اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور «فَعِيلٌ» صرف فاعل اور صرف مفعول کے لیے بھی آتا ہے۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے۔ ابوعلی فارسی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ «رحیم» باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے «وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا» (33-الأحزاب:43) ”مومنون کے ساتھ رحیم ہے“۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔“ (تفسیر قرطبی:105/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں لفظ «ارق» ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ «أَرَقُّ» کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ «رفق» یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا ۔ (صحیح مسلم:2593)

    ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «رحمٰن» اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور «رحیم» وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔“ ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے ۔ (سنن ترمذي:3373،قال الشيخ الألباني:حسن)

    بعض شاعروں کا قول ہے: «اللَّهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْت سُؤَالَهُ ... وَبُنَيُّ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ» یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔
    عزرمی فرماتے ہیں کہ «رحمٰن» کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور «رحیم» کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:127/1) دیکھئیے قرآن کریم کی دو آیتوں «ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ» (25-الفرقان:59) اور «الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ» (20-طه:5) میں «اسْتَوَىٰ» کے ساتھ «رحمٰن» کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ «رحیم» فرمایا: «وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا» (33-الأحزاب:43) الخ پس معلوم ہوا کہ «رحمٰن» میں مبالغہ بہ نسبت «رحیم» کے بہت زیادہ ہے۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں «رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَاا» (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5287،موضوع) بھی آیا ہے۔

    «رحمٰن» یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے، اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ «اللہ» کو پکارو یا «رحمٰن» کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے: «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ» (43-الزخرف:45) یعنی ”ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے «رحمٰن» کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے“۔

    جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام «رحمٰن العیامہ» رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔

    بعض کہتے ہیں کہ «رحیم» میں «رحمٰن» سے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔

    اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا جس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت «رحمٰن» بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ «اللہ» کو یا «رحمٰن» کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لیے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی قدر کسی کے دل میں نہ آئی۔

    «رحیم» کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے، فرماتا ہے: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» (9-التوبة:128) اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے یاد کیا ہے۔

    جیسے آیت «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا» (76-الإنسان:2) میں انسان کو «سمیع» اور «بصیر» کہا ہے۔

    حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے «اللہ» اور «رحمٰن»، «خالق» اور «رزاق» وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت «رحمٰن» سے کی۔ اس لیے کہ «رحیم» کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔

    قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے، اس لیے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم، پھر اس سے کم، اگر کہا جائے کہ جب «رحمٰن» میں «رحیم» سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟

    تو اس کے جواب میں عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے «رحمٰن» کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لیے «رحیم» کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔
    «رحمٰن و رحیم» صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب «رحمٰن» سے واقف ہی نہ تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت «قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ» (17-الإسراء:110) نازل فرما کر ان کی تردید کی۔

    حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ۔ (صحیح بخاری:حدیث2731) بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔

    بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن یمامہ» کو جانتے ہیں کسی اور «رحمٰن» کو نہیں جانتے۔

    اسی طرح قرآن پاک میں ہے «وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَـٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَـٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا» (25-الفرقان:60) یعنی ”جب ان سے کہا جاتا ہے کہ «رحمٰن» کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ «رحمٰن» کون ہے؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں“۔

    درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر «رحمٰن» سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے۔ اس لیے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام «رحمٰن» موجود ہے جو انہی کے شاعروں کے شعر ہیں۔ سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔

    تفسیر ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «رحمٰن» «فعلان» کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔

    حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رحمٰن» کا نام دوسروں کے لیے منع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس میں کہ ہر آیت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے ۔ (سنن ابوداود:4001،قال الشيخ الألباني:صحيح) پہلے گزر چکی ہے۔

    اور ایک جماعت اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» کو آیت قرار دے کر آیت «الْحَمْدُ» کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ «میم» کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے۔

    کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب «میم» کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر «میم» کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت «الم» * «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» (3-آل عمران:1-2)

    ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» کی تفسیر ختم ہوئی
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ ۔ ۔ ۔ بہت خوب ۔ ۔ ۔ شکریہ ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة الفاتحة



    الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴿2﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی] سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے واﻻ ہے۔ (2)



    تفسیر آیت/آیات، 2 ،

    الحمد اللہ کی تفسیر ٭٭

    ساتوں قاری «الْحَمْدُ» کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اور روبہ بن عجاج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «دال» پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔

    ابن ابی عبلہ رحمہ اللہ «الْحَمْدُ» کی «دال» کو اور «اللہ» کے پہلے «لام» دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس «لام» کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے، مگر شاذ ہے۔

    حسن رحمہ اللہ اور زید بن علی رحمہ اللہ ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور «لام» کے تابع «دال» کو کرتے ہیں۔

    ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لیے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بےشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:125/1)
    «الْحَمْدُ لِلَّهِ» یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں گویا یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو «الْحَمْدُ لِلَّهِ» بعض نے کہا کہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور «الشُّكْرُ لِلَّهِ» کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:138/1) لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لیے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق رحمہ اللہ، ابن عطا صوفی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» ہے۔

    قرطبی رحمہ اللہ نے ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کو معتبر کرنے کے لیے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی «الْحَمْدُ لِلَّهِ شُكْرًا» کہے تو جائز ہے۔

    دراصل علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ «حَمْدَ» کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں۔
    ہاں اس میں اختلاف ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ عام ہے یا «شُّكْر» کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر «شُّكْر» کے معنوں میں آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر «حَمِدْتُهُ» کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہو سکتا ہے یہ لفظ خاص اور «شُّكْر» کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے «شُّكْر» کا لفظ خاص ہے۔ شہ سواری کے حصول پر «شَكَرْتُهُ» نہیں کہہ سکتے البتہ «شَكَرْتُهُ عَلَى كَرَمِهِ وَإِحْسَانِهِ إِلَيَّ» کہہ سکتے ہیں۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    ابونصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں «حمد» مقابل ہے «ذم» کے۔ لہٰذا یوں کہتے ہیں کہ «حَمِدْتُ الرَّجُلَ أَحْمَدُهُ حَمْدًا وَمَحْمَدَةً فَهُوَ حَمِيدٌ وَمَحْمُودٌ» تحمید میں «حمد» سے زیادہ مبالغہ ہے۔ «حمد» «شکر» سے عام ہے۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو «شکر» کہتے ہیں۔ عربی زبان میں «شَكَرْتُهُ» اور «شَكَرْتُ لَهُ» دونوں طرح کہتے ہیں لیکن «لام» کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ مدح کا لفظ «حمد» سے بھی زیادہ عام ہے اس لیے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے، احسان کے بعد، لازم صفتوں پر، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حمد کی تفسیر اقوال سلف سے ٭٭

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ «سُبْحَانَ اللَّهِ» اور «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» اور بعض روایتوں میں ہے کہ «اللَّهُ أَكْبَرُ» کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کا کیا مطلب؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:15/1:ضعیف)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:151) اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔ کعب احبار رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے۔

    ایک حدیث میں بھی ایسا ہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:152:ضعیف)

    اسود بن سریع ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا: اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے ۔ (مسند احمد:435/3:حسن)
    ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ذکر «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلَّهِ» ہے ۔ (سنن ترمذي:3383،قال الشيخ الألباني:حسن) امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔

    ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گی ۔ (سنن ابن ماجہ:3805،قال الشيخ الألباني:حسن)

    فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہو گا۔
    قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں جتنی «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہنے کی توفیق دینا ہے اس لیے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:876،ضعیف)

    جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا» (18-الكهف:46) الخ یعنی ”مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں“۔

    ابن ماجہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا «يَا رَبِّ، لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَعَظِيمِ سُلْطَانِكَ» تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے، فرمایا: ”تم یونہی اسے لکھ لو میں اس اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا“ ۔ (سنن ابن ماجہ:3801،قال الشيخ الألباني:ضعيف)
    قرطبی رحمہ اللہ ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» سے بھی «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں۔

    اور علماء کا خیال ہے کہ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» افضل ہے اس لیے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے، اس کے کہلوانے کے لیے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم حدیث میں ہے (صحیح بخاری:1399)

    ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ» ہے ۔ (سنن ترمذي:3585،قال الشيخ الألباني:حسن)

    سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ افضل ذکر «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلَّهِ» ہے ۔ (سنن ترمذي:3383،قال الشيخ الألباني:حسن) ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
    الحمد میں «الف» «لام» استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں ۔ (مسند احمد:346/5:ضعیف)

    «رب» کہتے ہیں «مَالِكُ» اور «مُتَصَرِّفُ» کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لیے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لیے یہ خوب جچتا ہے۔

    «رب» کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جا سکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے «رَبُّ الدَّارِ» یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عالمین سے مراد ٭٭

    «الْعَالَمِينَ» جمع ہے «عَالَمٍ» کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو «عَالَمٍ» کہتے ہیں۔ لفظ «عَالَمٍ» بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی «عَوَالِمُ» یعنی کئی «عَالَمٍ» کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک زمانے، ایک ایک وقت کو بھی «عَالَمٍ» کہا جاتا ہے۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ «علی ہذا القیاس» اس سے جنات اور انسان بھی مراد لیے گئے ہیں۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہ مروی ہے۔

    سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت «لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا» (25-الفرقان:1) بھی بیان کی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ «عَالَمِينَ» یعنی جن اور انس کے لیے ڈرانے والا ہو جائے۔

    فراء اور ابوعبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے۔ لہٰذا انسان، جنات، فرشتے، شیاطین کو عالم کہا جائے گا۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا۔ سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ، ابو محیص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے۔

    قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں مروان بن محمد عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنوامیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں۔ آسمانوں والے ایک عالم، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں۔

    ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔
    حمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہو گئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیر المؤمنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہو گی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے در پے اور سب امتیں ہلاک ہو جائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں ۔ (مجمع الزوائد:322/7:باطل موضوع) اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں۔ سعید بن میب رحمہ اللہ سے بھی یہ قول مروی ہے۔
    وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لیے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا» (26-الشعراء:23) ”آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب“۔

    «عالم» کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لیے کہ «عالم» یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے ۔ (تفسیر قرطبی:139/1)

    جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ «فَيَا عَجَبًا كَيْفَ يُعْصَى الْإِلَهُ ... أَمْ كَيْفَ يَجْحَدُهُ الْجَاحِدُ ... وَفِي كُلِّ شَيْءٍ لَهُ آيَةً ... تَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَاحِدُ» یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة الفاتحة



    الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴿3﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    بڑا مہربان نہایت رحم کرنے واﻻ۔ (3)


    تفسیر آیت/آیات، 3 ،

    بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان ٭٭

    اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «رَبِّ الْعَالَمِينَ» کے وصف کے بعد آیت «الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے۔

    جیسے فرمایا: «نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» (15-الحجر:49) الخ یعنی ”میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی درد ناک عذاب ہیں“۔

    اور فرمایا «إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ» (6-الأنعام:165) الخ یعنی ”تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے“۔ «رب» کے لفظ میں ڈراوا ہے اور «رحمن» اور «رحیم» کے لفظ میں امید ہے۔

    صحیح مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا (تو اس وقت) اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا“ ۔ (صحیح مسلم:2755)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة الفاتحة



    مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴿4﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    بدلے کے دن [یعنی قیامت] کا مالک ہے۔ (4)



    تفسیر آیت/آیات، 4 ،

    حقیقی وارث مالک کون ہے؟ ٭٭

    بعض قاریوں نے «مَلِكِ» پڑھا ہے اور باقی سب نے «مَالِكِ» اور دونوں قراتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قراتوں میں سے ہیں اور «مَالِكِ» کے «لام» کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ۔ اور «مَلِيكٌ» اور «مَلَكِي» بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قراتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی۔

    زمخشری نے «مَلِكِ» کو ترجیح دی ہے اس لیے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے۔ اور قرآن میں بھی «لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ» (40-غافر:16) اور «قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ» (6-الأنعام:73) ہے۔

    امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے «مَلِكِ» پڑھا اس بنا پر کہ «فِعْلٌ» اور «فَاعِلٌ» اور «مَفْعُولٌ» آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بےحد غریب ہے۔

    ابوبکر بن داؤد رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور معاویہ رضی اللہ عنہم اور ان کے لڑکے «مَالِكِ» پڑھتے تھے۔

    ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے «مَالِكِ» پڑھا۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرأت کی صحت کا علم تھا راوی راوی حدیث ابن شہاب رحمہ اللہ کو علم نہ تھا۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «مَالِكِ» پڑھتے تھے۔ «مَالِكِ» کا لفظ «مَلِكِ» سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے: «إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ» (19-مريم:40) الخ یعنی ”زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے“۔

    اور فرمایا: «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ * مَلِكِ النَّاسِ» (114-الناس:1-2) الخ یعنی ”کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی“۔ اور «مَلِكِ» کا لفظ «مُلْكُ» سے ماخوذ ہے،

    جیسے فرمایا: «لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ» (40-غافر:16) الخ یعنی ”آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا“۔
    اور فرمایا: «قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ» (6-الأنعام:73) الخ یعنی ”اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے“۔

    اور فرمایا: «الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا» (25-الفرقان:26) یعنی ”آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے“۔

    اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے، اس لیے کہ پہلے اپنا وصف «رَبُّ الْعَالَمِينَ» ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں کو شامل ہے۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا۔

    جیسے فرمایا: «يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» (78-النبأ:38) یعنی ”جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا“۔

    دوسری جگہ ارشاد ہے: «وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا» (20-طه:108) الخ یعنی ”سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا“،

    اور فرمایا: «يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ» (11-هود:105) یعنی ”جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند“۔
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ «يَوْمِ الدِّينِ» سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور سلف صالحین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے۔

    بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔

    لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔

    جیسے کہ فرمان ہے: «لْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ» (25-الفرقان:26) الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے۔

    جیسا کہ فرمایا: «وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ» (6-الأنعام:73) الخ یعنی ”جس دن کہے گا ”ہو جا“ بس اسی وقت ”ہو جائے گا“ “۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسے فرمایا: «هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ» (59-الحشر:23)

    صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں“ ۔ (صحیح بخاری:6205)

    ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے (صحیح بخاری:4812)

    قرآن عظیم میں ہے «لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ» الخ یعنی ”کس کی ہے آج بادشاہی؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی“ اور کسی کو «مَلِكِ» کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے۔

    جیسے کہ قرآن میں طالوت کو «مَلِكِ» کہا گیا اور «وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ» (18-الكهف:79) کا لفظ آیا۔ اور بخاری مسلم میں «مُلُوكِ» کا لفظ آیا ہے (صحیح مسلم:1912)

    اور قرآن کی آیت میں «إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا» (5-المائدة:20) الخ یعنی ”تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا“، آیا ہے۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں۔

    جیسے قرآن پاک میں ہے: «يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّـهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ» (24-النور:25) الخ یعنی ”اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے“۔

    اور جگہ ہے: «أَإِنَّا لَمَدِينُونَ» (37-الصافات:53) الخ یعنی ”کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا؟“ حدیث میں ہے دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے (سنن ترمذي:2459،قال الشيخ الألباني:ضعيف)

    جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا: «يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنْكُمْ خَافِيَةٌ» (69-الحاقة:18) یعنی ”جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں“۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة الفاتحة

    إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴿5﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ (5)



    تفسیر آیت/آیات، 5 ،

    عبادت کا مفہوم ٭٭

    ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے «إِيَّاكَ» پڑھا ہے۔ عمرو بن فائد نے «اِیَاکَ» پڑھا ہے۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے۔ اس لیے کہ «اِیاَ» کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے «أَيَّاكَ» پڑھا ہے اور بعض نے «هَيَّاكَ» پڑھا ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی «َھیَّاکَ» ہے۔ «نَسْتَعِينُ» کی یہی قرأت تمام کی ہے۔ سوائے یحییٰ بن وثاب اور اعمش کے۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں۔ قبیلہ بنو اسد، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے۔

    لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو۔ اسی طرح «بَعِيرٌ مُعَبَّدٌ» اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت، خشوع، خضوع اور خوف کے مجموعے کا۔ لفظ «اِیَّاکَ» کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حاصل صرف یہی دو چیزیں ہیں۔
    بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورۃ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» میں ہے۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔

    جیسے فرمایا: «فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ» (11-هود:123) الخ یعنی ”اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں“۔

    فرمایا: «قُلْ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا» (67-الملك:29) الخ یعنی ”کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا“۔

    فرمایا: «رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا» (73-المزمل:9) الخ یعنی ”مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ“۔

    یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لیے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الہٰی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ ”الہٰ“ ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی۔
    اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی ”ثناء“ انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لیے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے۔

    جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“ ۔ (صحیح بخاری:756)

    صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان (نصف نصف) بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ جب بندہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کہتا ہے، تو اللہ فرماتا ہے «حَمِدَنِي عَبْدِي» میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب کہتا ہے «الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ»، اللہ فرماتا ہے «أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي» میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب وہ کہتا ہے «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ»، اللہ فرماتا ہے «مَجَّدَنِي عَبْدِي» میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ جب وہ «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ» یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ» یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لیے ہے“ ۔ (صحیح مسلم:395)

    عبادت اور طلب مدد ٭٭

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «إِيَّاكَ نَعْبُدُ» کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں، نہ ڈریں، نہ امید رکھیں۔ اور «إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (تفسیر ابن ابی حاتم:19/1)

    قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو (تفسیر ابن ابی حاتم:20/1)

    «إِيَّاكَ نَعْبُدُ» کو پہلے لانا اس لیے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ جمع کے لیے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لیے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لیے آگے بڑھا ہوا ہے۔

    بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں۔

    بعض کا قول ہے کہ «إِيَّاكَ نَعْبُدُ» میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ «إِيَّاكَ عَبَدنَا» میں نہیں اس لیے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا۔

    کسی شاعر کا قول ہے (ترجمہ) کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا، نماز میں کھڑے ہونا، معراج کرانا وغیرہ،

    فرمایا: «الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ» (18-الكهف:1) الخ،

    فرمایا: «وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ» (72-الجن:19) الخ،

    فرمایا: «سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا» (17-الإسراء:1) الخ،

    ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ۔

    فرمان ہے: «وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ» * «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ» * «وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ» (15-الحجر:97-98-99) یعنی ”ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ“۔

    رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے۔

    لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا۔

    بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لیے، وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لیے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا۔ اس کی تکالیف کے لیے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لیے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو۔ اسی لیے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لیے ہو تو باطل ہے۔

    دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ معاذ جیسا، میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں“ ۔ (سنن ابوداود:792،قال الشيخ الألباني:صحيح)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة الفاتحة



    اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴿6﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    ہمیں سیدھی [اور سچی] راه دکھا۔ (6)



    تفسیر آیت/آیات، 6 ،

    حصول مقصد کا بہترین طریقہ ٭٭

    جمہور نے «صِّرَاطَ» پڑھا ہے۔ بعض نے «ِسرَاطَ» کہا ہے اور «زے» کی بھی ایک قراۃ ہے۔ فراء کہتے ہیں بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے۔

    جیسے کہ پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لیے ہے اور آدھا میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔

    خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی، پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لیے تیر بہدف ہے، اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی۔

    کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے۔

    جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا: «رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ» (28-القصص:24) الخ یعنی ”پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں“۔

    یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا: «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ» (21-الأنبياء:87) الخ یعنی ”الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ظالموں میں سے ہوں“۔

    کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے جیسے کسی شاعر کا قول ہے «أَأَذْكُرُ حَاجَتِي أَمْ قَدْ كَفَانِي ... حَيَاؤُكَ إِنَّ شِيمَتَكَ الْحَيَاءُ ... إِذَا أَثْنَى عَلَيْكَ الْمَرْءُ يَوْمًا ... كَفَاهُ مِنْ تَعَرُّضِهِ الثَّنَاءُ» کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا، تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں۔

    کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے تو معنی «أَلْهِمْنَا، وَفِّقْنَا، ارْزُقْنَا» اور «اعْطِنَا» یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے

    اور جگہ ہے: «وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ» (90-البلد:10) الخ یعنی ”ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے“ بھلائی اور برائی دونوں کے۔

    اور کبھی ہدایت «الیٰ» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے، جیسے فرمایا: «اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» (16-النحل:121)

    اور فرمایا: «فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِيمِ» (37-الصافات:23)

    یہاں ہدایت ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے۔

    اسی طرح فرمان ہے: «وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ» (42-الشورى:52) الخ یعنی ”تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے“،

    اور کبھی ہدایت «لام» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے: «الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـٰذَا» (7-الأعراف:43) الخ یعنی ”اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا“۔

    «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» کے معنی سنئے۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بےشمار شواہد موجود ہیں۔

    «صِّرَاطَ» کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھ پن کے ساتھ بھی آتا ہے۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور تابعداری ہے۔

    صراط مستقیم کیا ہے؟ ٭٭

    ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:174:ضعیف جدا) ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے۔

    فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے ۔ (سنن ترمذي:2906،قال الشيخ الألباني:ضعيف) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم «اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ» کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔ سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔

    سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے۔ ابن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» اسلام ہے۔
    مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے، جو کہتا ہے کہ اے لوگو! تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» سے ہٹ جاؤ گے۔ پس «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے، اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے ۔ (سنن ترمذي:2859،قال الشيخ الألباني:صحيح) یہ حدیث ابن ابی حاتم، ابن جریر، ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں۔ حسن رحمہ اللہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں۔

    دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف سے مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے۔ لہٰذا «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
    سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا۔ امام ابوجعفر بن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» یہی ہے۔ اس لیے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے، جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی، صدیق، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے۔ اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چاروں خلیفوں رضی اللہ عنہم اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» ہے۔
    اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لیے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لیے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے۔ بھلا اور نیک بخت انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے۔ بالخصوص بےقرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا ضامن ہے۔

    اور جگہ قرآن کریم میں ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ» (4-النساء:136) الخ یعنی ”اے ایمان والو! اللہ پر، اس کے رسولوں پر، اس کی اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں، سب پر ایمان لاؤ۔
    اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»

    اور دیکھئیے اللہ رب العزت نے اپنے ایماندار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں: «رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ» (3-آل عمران:8) الخ یعنی ”اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے“۔

    یہ بھی وارد ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورۃ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس «اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ» کے معنی یہ ہوئے کہ الہٰ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة الفاتحة



    صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴿7﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    ان لوگوں کی راه جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا [یعنی وه لوگ جنہوں نے حق کو پہچانا، مگر اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے] اور نہ گمراہوں کی [یعنی وه لوگ جو جہالت کے سبب راه حق سے برگشتہ ہوگئے]۔ (7)



    تفسیر آیت/آیات، 7 ،

    انعام یافتہ کون؟ ٭٭

    اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ» کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»

    اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورۃ نساء میں آ چکا ہے فرمان ہے: «وَمَنْ يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا» * «ذَٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّـهِ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ عَلِيمًا» (4-النساء:69-70) الخ یعنی ”اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی، صدیق، شہید، صالح لوگ ہیں، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے“۔

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں، نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا۔ یہ آیت ٹھیک «وَمَنْ يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ» (4-النساء:69) کی طرح ہے۔

    ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد مومن ہیں۔

    وکیع رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان مراد ہیں۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    جمہور کی قرأت میں «غَيْرِ» «رے» کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے۔ زمحشری کہتے ہیں «رے» کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی قرأت یہی ہے اور ابن کثیر رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے۔

    «عَلَيْهِمْ» میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور «أَنْعَمْتَ» عامل ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مغضوب کون؟ ٭٭

    ان کی راہ سے بچا، جن پر غضب و غصہ کیا گیا، جن کے ارادے فاسد ہو گئے، حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ گئے اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے مارے مارے پھرتے ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جاتے «لَا» کو دوبارہ لا کر کلام کی تاکید کرنا اس لیے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں، ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا۔

    بعض نحوی کہتے ہیں کہ «غَيْرَ» کا لفظ یہاں پر استثناء کے لیے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے۔ مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے یہ بہت اچھی ہے۔

    عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے۔ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ» سے مراد «غَيْرِ صِرَاطِ الْمَغْضُوبِ» ہے۔ مضاف «إِلَيْهِ» کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا اس لیے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آ چکا ہے۔

    بعض کہتے ہیں «وَلَا الضَّالِّينَ» میں «لَا» زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَالضَّالِّينَ» اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔
    سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَغَيْرِ الضَّالِّينَ» پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے اور اسی طرح سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا۔

    تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ «لَا» نفی کی تاکید کے لیے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہم ہی نہ ہو کہ یہ «أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ» پر عطف ہے اور اس لیے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے۔

    اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو۔ یہودیوں کے ہاں علم نہیں اور نصاریٰ کے ہاں عمل نہیں اسی لیے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی۔ اس لیے کہ علم کے باوجود عمل کو چھوڑنا غضب کا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد تو کرتے ہیں مگر اس کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لیے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں۔

    جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے: «مَنْ لَعَنَهُ اللَّـهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ» (5-المائدة:60) الخ اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں۔

    فرمان الٰہی ہے: «قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ» (5-المائدة:77) الخ یعنی ”یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں“۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
    مسند احمد میں ہے۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند اور لوگوں کو گرفتار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا میری خبرگیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئیے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے؟ اس نے کہا عدی بن حاتم آپ نے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگتا پھرتا ہے؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے آپ نے فرمایا: لو ان سے سواری مانگ لو۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی۔ وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا۔ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ یہ سن کر میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بےتکلفی کے ساتھ بولتے چالتے ہیں۔ اس بات نے مجھے یقین دلایا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاہت کے طلب کرنے والے نہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ”عدی «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہنے سے کیوں بھاگتے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے؟ «اللَّهُ أَكْبَرُ» کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے؟“ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بےتکلفی نے ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے «الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ» سے مراد یہود ہیں اور «الضَّالِّينَ» سے مراد نصاریٰ ہیں ۔ (سنن ترمذي:2954،قال الشيخ الألباني:حسن)

    ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:209،195:حسن) اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا ۔ (مسند احمد:5/32:حسن بالشواھد) بعض روایتوں میں ان کا نام عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    ابن مردویہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابیوں رضی اللہ عنہم سے بھی یہ تفسیر منقول ہے۔ ربیع بن انس، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گزری۔

    دوسری سورۃ البقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے: «بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّـهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّـهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ» (2-البقرة:90) اس آیت میں ہے کہ ان پر غضب پر غضب نازل ہوا۔

    اور سورۃ المائدہ کی آیت «قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّـهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّـهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَـٰئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ» (5-المائدة:60) میں بھی ہے کہ ان پر غضب الہٰی نازل ہوا

    اور جگہ فرمان الہٰی ہے: «لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ * كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ» (5-المائدة:79) یعنی ”بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر لعنت کی گئی۔ دواؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبانی یہ ان کی نافرمانی اور حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہے۔ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقیناً ان کے کام بہت برے تھے“۔

    اور تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جو کہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الہٰی کا ایک حصہ نہ پا لو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لیے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں پھر اسے کیسے قبول کر لیں؟ پھر نصرانیوں سے ملے انہوں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مزا نہ چکھ لو تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اس لیے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا۔ انہی میں ورقہ بن نوفل تھے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الہٰی نے ان کی رہبری کی اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی اس کی تصدیق کی (رضی اللہ عنہ)۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مسئلہ ٭٭

    «ضَّادِ» اور «ظَّاءِ» کی قرأت میں بہت باریک فرق ہے اور ہر ایک کے بس کا نہیں۔ اس لیے علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہے کہ یہ فرق معاف ہے، «ضَّادِ» کا صحیح مخرج تو یہ ہے کہ زبان کا اول کنارہ اور اس کے پاس کی داڑھیں اور «ظَّاءِ» کا مخرج زبان کا ایک طرف اور سامنے والے اوپر کے دو دانت کے کنارے۔ دوسرے یہ کہ یہ دونوں حرف «مَجْهُورَةِ» اور «رِّخْوَةِ» اور «مُطْبَقَةِ» ہیں پس اس شخص کو جسے ان دونوں میں تمیز کرنی مشکل معلوم ہو، اسے معاف ہے کہ «ضَّادِ» کو «ظَّاءِ» کی طرح پڑھ لے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میں «ضَّادِ» کو سب سے زیادہ صحیح پڑھنے والا ہوں (کشف الخفاء:200/1:لااصل لہ) لیکن یہ حدیث بالکل بے اصل اور لاپتہ ہے۔

    الحمد کا تعارف و مفہوم ٭٭

    یہ مبارک سورت نہایت کار آمد مضامین کا مجموعہ ہے ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں اس کی طرف تضرع و زاری کریں اپنی مسکینی اور بےکسی اور بےبسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں۔ اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں۔ صراط مستقیم اور اس پر ثابت قدمی اس سے طلب کریں تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہود و نصاریٰ کی جماعت سے دور ہی رہیں۔
    اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی اور «أَنْعَمْتَ» کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی یہاں فاعل حذف کر دیا اور «الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ» کہا گیا اس میں پروردگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

    جیسے اور جگہ ہے: «غَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ» (58-المجادلة:14) اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی کئی جو گمراہ ہیں۔

    حالانکہ اور جگہ ہے: «وَمَنْ يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ» (17-الإسراء:97) الخ یعنی ”اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا رہنما کوئی نہیں“۔

    اور جگہ فرمایا: «مَنْ يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ» (7-الأعراف:186) الخ یعنی ”جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں“۔

    اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے۔
    قدریہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں وہ خود جو پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے، صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔

    صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے تم ان کو چھوڑ دو ۔ (صحیح بخاری:4547)

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے «فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ» (3-آل عمران:7) الخ یعنی ”جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہ ہے کے پیچھے لگتے ہیں فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لیے“۔

    پس «الْحَمْدُ لِلَّـه» بدعتیوں کے لیے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں۔ قرآن کریم تو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لیے آیا ہے اس میں تناقض اور اختلاف نہیں۔ یہ تو اللہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آمین اور سورہ فاتحہ ٭٭

    سورۃ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے۔ آمین مثل «یاسین» کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ”اے اللہ تو قبول فرما“۔

    آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کہہ کر «آمِينَ» کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے ۔ (سنن ترمذي:248،قال الشيخ الألباني:صحیح)

    ابوداؤد میں ہے آواز بلند کرتے تھے ۔ (سنن ابوداود:392،قال الشيخ الألباني:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔

    سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے ۔ (سنن ابوداود:934،قال الشيخ الألباني:ضعيف) ابوداؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے۔

    ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی ۔ (سنن ابن ماجہ:853،قال الشيخ الألباني:ضعيف) دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ (دارقطنی:335/1:حسن)

    اور امام دارقطنی رحمہ اللہ بتاتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے ۔ (سنن ابوداود:937،قال الشيخ الألباني:ضعيف)

    حسن بصری اور جعفر صادق رحمہ اللہ علیہم سے آمین کہنا مروی ہے۔ جیسے کہ «آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ» (5-المائدة:2) قرآن میں ہے۔
    ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہیئے۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے۔ نمازی خود اکیلا ہو، خواہ مقتدی ہو، خواہ امام ہو، ہر حالت میں آمین کہے۔

    صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں“ ۔ (صحیح بخاری:786)

    صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں“ ۔ (صحیح مسلم:410)

    مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں۔

    صحیح مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب امام «وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم:404)
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ تو کر“ ۔ (تفسیر کشاف:18/1:ضعیف)

    جوہری کہتے ہیں اس کے معنی ”اسی طرح ہو“ ہیں۔

    امام ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ”ہماری امیدوں کو نہ توڑ“۔

    اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی ”اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما“ کے ہیں۔

    مجاہد، جعفر صادق، ہلال بن سیاف رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ (عبدالرزاق:2651)

    امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ جب امام «وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو تم آمین کہو ۔ (صحیح بخاری:796)

    اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو تم آمین کہو“ ۔ (صحیح مسلم:404)

    لیکن بخاری و مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو ۔ (صحیح بخاری:786)

    اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «وَلَا الضَّالِّينَ» پڑھ کر آمین کہتے تھے ۔ (سنن ترمذي:248،قال الشيخ الألباني:صحیح)

    آمین باآواز بلند ٭٭

    جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین کہیں۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی باآواز بلند نہ کہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ اور ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے اس لیے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے۔

    لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔

    ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین نہ کہیں اس لیے کہ وہ امام کی قرأت سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» (صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہیئے۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو، خواہ منفرد، مترجم)
    مسند احمد میں صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں۔ ایک تو جمعہ پر کہ اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا ۔ (سلسلة احادیث صحيحہ البانی:691،صحيح بالشواھد)

    ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں ۔ (سنن ابن ماجہ:856،قال الشيخ الألباني:صحيح)

    اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو ۔ (سنن ابن ماجہ:857،قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا) اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں۔

    ابن مردویہ میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر ۔ (سلسلة احادیث ضعیفہ البانی:1487،ضعيف)

    سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا ۔ (ابن خزیمہ:1586:ضعیف)

    اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا: «رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ» (10-يونس:88) ہے الخ یعنی ”الہٰی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں“۔

    موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے: «قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ» (10-يونس:89) الخ یعنی ”تم دونوں کی دعا قبول کی گئی، تم مضبوط رہو اور بےعلموں کی راہ نہ جاؤ“۔ دعا صرف موسیٰ علیہ السلام کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی۔
    اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرأت نہ کرے، اس لیے کہ اس کا سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔ (مسند احمد)

    سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں «الْحَمْدُ» کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» (یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے، غالب آئے، مال غنیمت جمع کرے، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے ”یہ کیوں؟“ تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے“ ۔ (ابویعلی فی مسندہ:6411:ضعیف)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سورة الفاتحة کی تفسیر اختتام پذیر ہوئی
    ان شاء اللہ اب سورة البقرة کی تفسیر شروع ہوگی

     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    الم﴿1﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]

    الم۔ (1)


    تفسیر آیت/آیات، 1 ،

    حروف مقطعات اور ان کے معنی ٭٭

    «الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے۔

    بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدة» اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَان» پڑھتے تھے ۔ (صحیح بخاری:891)

    مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ شعبی، سالم بن عبداللہ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ «حم»، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے۔

    ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللَّهُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ”میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا“۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔

    سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔

    عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ «الف» سے اللہ کا نام، «اللہ» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:28/1)
    امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔

    جیسے لفظ «أُمَّةٍ» کہ اس کے ایک معنی ہیں «دِّينُ» جیسے قرآن میں ہے: «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ» (43-الزخرف:22) الخ یعنی ”ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا“۔

    دوسرے معنی ہیں، اللہ کا اطاعت گزار بندہ، جیسے فرمایا: «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّـهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» (16-النحل:120) یعنی ”ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے“۔

    تیسرے معنی ہیں «الْجَمَاعَةُ»، جیسے فرمایا: «وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ» (28-القصص:23) الخ یعنی ”ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا“۔

    اور جگہ ہے: «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا» (16-النحل:36) الخ یعنی ”ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقیناً بھیجا“۔

    چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ۔ فرمان ہے: «وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ» (12-يوسف:45) یعنی ”ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا“۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں۔

    امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»

    دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے، نہ ضمیر دینے سے، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔

    اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے(سنن ابن ماجہ:2620، قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا) مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق»، «ص»، «حم»، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «هِجَا» ہیں۔

    بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:208/1)

    سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ك ہ ي ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ «نَصٌّ حَكِيمٌ قَاطِعٌ لَهُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے۔

    یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو، بے ہودہ، بےکار، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں۔ اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں، تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا۔ اور علماء کا بھی اس میں بےحد اختلاف ہے۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے۔

    دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لیے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟
    پھر سورتوں سے پہلے «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لیے انہیں سنانے کے لیے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لیے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتداء انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں۔

    پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ البقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے۔

    باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد رحمہ اللہ اور محققین کی ایک جماعت اور فراء رحمہ اللہ اور قطرب رحمہ اللہ سے بھی یہی منقول ہے، زمخشری رحمہ اللہ نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ امام علامہ ابوالعباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ مجتہد ابوالحاج مزی رحمہ اللہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے۔
    ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ باربار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور باربار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے «ص» «ن» «ق» کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے «حم» کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے «الم» کہیں چار آئے ہیں جیسے «المر» اور «المص» اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے «کھیعص» اور «حم عسق» اس لیے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔

    جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے۔
    سنیے فرمان ہے: «الم» * «ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ» (2-البقرة:1-2) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں۔

    اور جگہ فرمایا: «الم» «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» * «نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ» (3-آل عمران:1-2-3) یعنی ”وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم و قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے“ یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔

    اور جگہ فرمایا: «المص» * «كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ» (7-الأعراف:1-2) یعنی ”یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ “۔

    اور جگہ فرمایا: «الر كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ» (14-إبراهيم:1) یعنی ” یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف “۔
    ارشاد ہوتا ہے: «الم» * «تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ» (32-السجدة:1-2) یعنی ”اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں“۔

    فرماتا ہے: «حم» * «تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» (41-فصلت:1-2) ”بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے“۔

    فرمایا: «حم» * «عسق» * «كَذَٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ اللَّـهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» (42-الشورى:1-2-3) یعنی ”اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے“۔

    اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بغور دیکھئیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لیے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لیے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے۔

    وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سورۃ البقرہ کی شروع آیت «الم» * «ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ» (2-البقرة:1-2) الخ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حیی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا؟ اس نے کہا: ہاں میں نے خود سنا ہے۔ حیی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ ہے۔ اس نے کہا سنیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! «الف» کا عدد ہوا ایک، «لام» کے تیس، «میم» کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں «المص»، کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے۔ «الف» کا ایک، «لام» کے تیس، «میم» کے چالیس، «صواد» کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ «الر» کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے۔ «الف» کا ایک، «لام» کے تیس اور «رے» کے دو سو۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے۔ آپ نے فرمایا «المر» ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے «الف» کا ایک، «لام» کے تیس، «میم» کے چالیس، «رے» کے دو سو، سب مل کر دو سو اکہتر ہو گئے۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی۔ ”لوگو! اٹھو، ابویاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا۔“ کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہو اکہتر ایک، سو ایک، ایک سو اکتیس ایک، دو سو اکتیس ایک، دو سو اکہتر ایک، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا۔

    بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں: «هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ» (3-آل عمران:7) یعنی الخ ”وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں“۔(تفسیر ابن جریر الطبری:216/1:ضعیف جدا)
    اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ﴿2﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اس کتاب [کے اللہ کی کتاب ہونے] میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راه دکھانے والی ہے۔ (2)


    تفسیر آیت/آیات، 2 ،

    تحقیقات کتاب ٭٭

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں «ذَلِكَ» معنی میں «هَذَا» کے ہیں۔ مجاہد، عکرمہ، سعید، جبیر سدی، مقاتل بن حیان، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ «ذَلِكَ» اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لیے جس کے معنی ہیں ”وہ“ لیکن کبھی نزدیک کے لیے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں ”یہ“ یہاں بھی اس معنی میں ہے۔

    زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ «الم» کی طرف ہے۔

    جیسے اس آیت میں ہے «لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ» (2-البقرة:68) الخ یعنی ”نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے“۔

    دوسری جگہ فرمایا: «ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّـهِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ» (60-الممتحنة:10) الخ یعنی ”یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے“۔

    اور جگہ فرمایا: «ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ» (6-الأنعام:102) یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»

    بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا۔

    بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    «كِتَابُ» سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت «ذَٰلِكَ الْكِتَابُ» کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔

    «رَيْبَ» کے معنی ہیں شک و شبہ۔ سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی معنی مروی ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:228/1) سیدنا ابودرداء، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مولا ہیں، عطا، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابوخالد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:31/1)

    «رَيْبَ» کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔

    جیسے سورہ سجدہ میں ہے: «الم» * «تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ» (32-السجدة:1-2) یعنی ”بیشک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے“، یعنی اس میں شک نہ کرو۔

    بعض قاری «لَا رَيْبَ» پر وقف کرتے ہیں اور «فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن «لَا رَيْبَ فِيهِ» پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورۃ السجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت «فِيهِ هُدًى» کے زیادہ مبالغہ ہے۔ «هُدًى» نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا۔

    جیسے دوسری جگہ فرمایا: «قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَـٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ» (41-فصلت:44) الخ یعنی ”یہ قرآن ہدایت اور شفاء ہے ایمان والوں کے لیے اور بے ایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں“۔

    اور فرمایا: «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا» (17-الإسراء:82) الخ یعنی ”یہ قرآن ایمان داروں کے لیے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں“۔

    اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔

    جیسے فرمایا: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ» (10-يونس:57) یعنی ”تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آ چکی جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے“ اور سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے۔

    متقین کی تعریف ٭٭

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔

    حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔“ اعمش ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں۔ ”متقی کون ہے؟“ آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا ”ذرا کلبی سے بھی تو دریافت کر لو!“ وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔

    قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ «الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ» (2-البقرة:3)

    امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے ۔ (سنن ترمذي:2451،قال الشيخ الألباني:ضعيف) امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں۔

    ابن ابی حاتم میں ہے، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لیے جائیں گے، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ ابوعفیف نے پوچھا متقی کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہدایت کی وضاحت ٭٭

    ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا۔

    فرمان ہے: «إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ» (28-القصص:56) الخ یعنی ”اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا“۔

    فرماتا ہے: «لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ» (2-البقرة:272) الخ یعنی ”تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں“۔

    فرماتا ہے: «مَنْ يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ» (7-الأعراف:186) الخ یعنی ”جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں“۔

    فرمایا: «مَنْ يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا» (18-الكهف:17) الخ یعنی ”جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز نہ اس کا کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد“۔

    اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔

    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» (42-الشورى:52) الخ یعنی ”تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے“۔

    اور فرمایا: «إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ» (13-الرعد:7) الخ یعنی ”تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے“۔

    اور جگہ فرمان ہے: «وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ» (41-فصلت:17) الخ یعنی ”ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر پسند کر لیا۔
    فرماتا ہے: «وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ» (90-البلد:10) ”ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں“ یعنی بھلائی اور برائی کی۔

    تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ «وقوی» ہے «وقایت» سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔

    سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔

    ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ «خل الذنوب صغیرھا .... وکبیرھا ذاک التقی .... واصنع کماش فوق ارض .... الشوک یحدذر مایری .... لا تحقرن صغیرۃ .... ان الجبال من الحصی» یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔

    سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔

    ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے ۔ (سنن ابن ماجہ:1857،قال الشيخ الألباني:ضعيف)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ﴿3﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو لوگ غیب پر ایمان ﻻتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے [مال] میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (3)



    تفسیر آیت/آیات، 3 ،

    ایمان کی تعریف ٭٭

    سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے“۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں۔

    زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”ایمان کہتے ہیں عمل کو“، ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ ”یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے“ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:235/1)

    ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے، دل سے، عمل سے، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔

    جیسے فرمایا «يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ» (9-التوبة:61) الخ یعنی ”اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں“۔

    یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا «وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ» (12-يوسف:17) الخ یعنی ”تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں“۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔

    جیسے فرمایا: «إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ» (84-الانشقاق:25) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:35/1)

    اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی، امام احمد اور امام ابوعبیدہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
    بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کیے ہیں۔

    جیسے فرمان ہے: «إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ» (67-الملك:12) الخ یعنی ”جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں“۔

    اور جگہ فرمایا: «مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَـٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ» (50-ق:33) یعنی ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے“۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے۔

    جیسے فرمایا: «إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ» (35-فاطر:28) الخ یعنی ”جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں“۔

    بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

    ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے: «إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ» (63-المنافقون:1) یعنی ”منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں“۔

    اس معنی کے اعتبار سے «بِالْغَيْبِ» حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں درآنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ «غیب» کا لفظ جو یہاں ہے، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں۔
    ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، قیامت پر، جنت دوزخ پر، ملاقات اللہ پر، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر، ایمان لانا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔

    سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت، دوزخ وغیرہ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔

    سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔ عطا ابن ابورباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا، غیب پر ایمان لانے والا ہے۔ اسماعیل بن ابوخالد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔

    زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لیے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔

    سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ پھر آپ نے «الم» سے لے کر «مُفْلِحُونَ» تک آیتیں پڑھیں ۔ (سنن سعید بن منصور:544/2) (ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، مستدرک، حاکم) (تفسیر ابن ابی حاتم:34/1) امام حاکم رحمہ اللہ اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں۔
    مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے۔ ابو جمعہ صحابی رضی اللہ عنہ سے ابن محریز رحمہ اللہ نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ فرمایا: میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا، ہمارے ساتھ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہا بھی تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے؟ ہم آپ پر اسلام لائے، آپ کے ساتھ جہاد کیا، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:907)

    تفسیر ابن مردویہ میں ہے۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہیئے۔
    سنو! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ۔ کہا سنو! ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم دس آدمی تھے، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی ان میں تھے، ہم نے کہا یا رسول اللہ! کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے، یہ لوگ اجر میں تم سے دگنے ہوں گے ۔ (طبرانی کبیر:3540:ضعیف)

    اس حدیث میں «وجاوہ» کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ عنہم ہی ہیں۔

    ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا: ”تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے“، انہوں نے کہا، فرشتے۔ فرمایا: ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں“، لوگوں نے پھر کہا انبیاء، فرمایا: ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے“۔ کہا پھر ہم۔ فرمایا: ”تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے“ ۔ (مسند ابویعلی:160:ضعیف) اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں۔ ابوحاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں۔

    لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے۔ مسند ابویعلیٰ تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔ (مسند بزار:2840:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    ابن ابی حاتم میں ہے سیدہ بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں“ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:36/1:ضعیف جدا) یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    قیام صلوٰۃ کیا ہے ٭٭

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: فرائض نماز بجا لانا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:241/1) رکوع سجدہ، تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔

    قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع، سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:37/1)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ» (2-البقرة:3) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:243/1)

    سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے، خرچ میں قربانی دینا جو قرب الہٰی حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برأت میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:243/1)
    قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ کو اہل و عیال میں خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لیے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہٰذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا۔

    میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لیے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء، اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہٰذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔
    صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا۔ نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا (صحیح بخاری:8)، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔

    عربی لغت میں «صلوٰۃ» کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعر اس پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لیے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔

    ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ نماز کو «صلوٰۃ» اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔

    بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں «صلوین» کہتے ہیں چونکہ نماز میں یہ ہلتی ہیں اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے «صلی» سے، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا۔

    جیسے قرآن میں آیت «لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى» (92-الليل:15) الخ یعنی ”جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت“۔

    بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لیے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب «تصلیہ» کہتے ہیں چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہتے ہیں۔

    جیسے قرآن میں ہے: «إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ» (29-العنكبوت:45) الخ یعنی ”نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے“ لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» لفظ زکوٰۃ کی بحث «ان شاءاللہ تعالیٰ» اور جگہ آئے گی۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ﴿4﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو لوگ ایمان ﻻتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا، اور وه آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ (4)


    تفسیر آیت/آیات، 4 ،

    اعمال مومن ٭٭

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت، جنت و دوزخ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:39/1) قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لیے اسے آخرت کہتے ہیں۔

    بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ۔ مجاہد، ابوالعالیہ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے۔

    بعض نے کہا ہے یہ دونوں ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں «واؤ» عطف کو ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» * «الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ» * «وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ» * «وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَىٰ» * «فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَىٰ» (87-الأعلى:1-5) میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے۔

    تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت «وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ» (2-البقرة:4) سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں۔ سدی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں: «وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّـهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا» (3-آل عمران:199) الخ یعنی ”اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں“۔

    اور جگہ ارشاد ہے: «الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ» * «وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ» * «أُولَـٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ» (28-القصص:52-54) یعنی ”جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا یہ نیکی سے بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں“ ۔
    بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر بھی ایمان رکھیں۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے ۔ (صحیح بخاری:97)

    امام جریر رحمہ اللہ کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ عربی مومن اور کتابی مومن۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ البقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں۔ عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا۔
    غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں۔

    اسی لیے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ» (4-النساء:136) الخ یعنی ”ایمان والو اللہ پر، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ“۔

    اور فرمایا: «وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـٰهُنَا وَإِلَـٰهُكُمْ وَاحِدٌ» (29-العنكبوت:46) الخ یعنی ”اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے“۔

    ارشاد ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ» (4-النساء:47) یعنی ”اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے“۔

    اور فرمایا: «قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ» (5-المائدة:68) الخ یعنی ”اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے قائم نہ رکھو“۔

    دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا: «آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ» (2-البقرة:285) الخ یعنی ”ہمارے رسول ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے“۔

    اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: «وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ» (4-النساء:152) الخ یعنی ”جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے“۔

    اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
    یہ اور بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ اس لیے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے۔

    جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ (صحیح بخاری:4485)

    بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا، زیادہ کمال والا، زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جزاکم اللہ خیر ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ؤ اِیّاکَ
     
  29. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة


    أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴿5﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔ (5)


    تفسیر آیت/آیات، 5 ،

    ہدایت یافتہ لوگ ٭٭

    یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا، نماز قائم رکھنا، اللہ کے دئیے ہوئے میں سے دینا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لیے نیک اعمال کرنا۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہدایت کی تفسیر ”نور“ اور ”استقامت“ سے کی ہے اور ”فلاح“ کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی کی ہے۔

    ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور، دلیل، ثابت قدمی، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں۔ ابن جریر رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے «أُولَـٰئِكَ» کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا۔

    اس اعتبار سے آیت «وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ» (2-البقرة:4) الخ، پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت «وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ» (2-البقرة:5) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں۔

    سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آیت «يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ» (2-البقرة:3) سے مراد عرب ایماندار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں۔ پھر دونوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مجاہد، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، اور قتادہ سے یہی مروی ہے۔

    ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اے اللہ کے رسول! قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھارس دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم ناامید ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا ”لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں“، پھر آپ نے «الم» سے «مُفْلِحُونَ» (2-البقرة:1-5) تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے خوش ہو کر فرمایا «الْحَمْدُ لِلَّـه» ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں، پھر آیت «إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا» سے «عَظِيمٌ» (2-البقرة:6-7) تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں، انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ”ہاں۔“ (تفسیر ابن ابی حاتم:40/1:ضعیف)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴿6﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی] کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ ﻻئیں گے۔ (6)


    تفسیر آیت/آیات، 6 ،

    بدقسمت لوگ ٭٭

    یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں نہ آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی نہ ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔

    جیسے اور جگہ فرمایا: «إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ» * «وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ» (10-يونس:96-97) یعنی ”جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں“۔

    ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا: «وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ» (2-البقرة:145) الخ یعنی ”ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے“۔ یعنی ان بدنصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ «فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ» (13-الرعد:40) ”تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے“۔ «إِنَّمَا أَنْتَ نَذِيرٌ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ» (11-هود:12) ”تو صرف ڈرانے والا ہے، ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے“ ۔
    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایماندار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بدقسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:253/1)

    پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ اے نبی! تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے؟

    ابوالعالیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے: «اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ۔ (14-إبراهيم:28) الخ

    لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کیے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»

    اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے «لَا يُؤْمِنُونَ» پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ «لَا يُؤْمِنُونَ» خبر ہو اس لیے کہ تقدیر کلام «إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ» (2-البقرة:6) ہے اور «سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ» جملہ معترضہ ہو جائے گا۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    مظهر بن بشير اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں