1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از سنی آن لاین, ‏20 مارچ 2010۔

  1. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    [​IMG] [​IMG]
    اسلامی تاریخ میں "شیراز" کا شمار علم وفقہ اور شعر وشاعری کے مراکز میں ہوتاہے۔ اپنے عروج کے دور میں یہ شہر ثقافت وتہذیب کے آسمان میں ایک روشن اور تابندہ ستارہ تھا جس کے گود میں ہر فن وعلم کے ماہرین نے تربیت پائی اور عالم انسانیت کی خدمت کی۔ یہاں تک کہ علم وعرفان، تزکیہ واصلاح اور شاعری کا مرجع سمجھا جانے والا شہر عروج سے زوال کی طرف رواں دواں ہرکر اپنی قابل فخر حیثیت کھوگیا۔
    جغرافی لحاظ سے صوبہ "فارس" کا دارالحکومت "شیراز" ایران کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ تہران اور مشہد کے بعد ایران کا تیسرا بڑا شہر شیراز ہے جس کا کل رقبہ 340 کلومیٹر ہے۔ صوبہ فارس کی سرحدیں شمال کی طرف سے اصفہان سے ملتی ہیں جبکہ مشرق میں کرمان اور یزد کے علاقے واقع ہیں۔ اس کے جنوب میں صوبہ ہرمزگان جبکہ مغرب میں بوشہر پڑوس واقع ہوا ہے۔
    آبادی کے لحاظ سے شیراز ایران کے نقشے پر چھوتا بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباْ سترہ لاکھ 223 ہزار ہے۔ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے شیراز کی نشوونما اور ترقی اسلامی فتوحات کے بعد ہوئی۔ یہ شہر اپنی جیوگریفک اہمیت اور اسٹریٹجی کی وجہ سے فارس کا دارالحکومت بنا اور آج تک فارس (جو اب ایک صوبے تک محدود ہے) کا دارالحکومت ہے۔ "الروض المعطار فی خبرالاقطار" کتاب میں آتاہے کہ "شیراز" ملک فارس کا سب سے بڑا شہر ہے جو حکمرانوں اور مزدوروں کا ماویٰ ومسکن ہے۔ اس کا اپنا دیوان اور جرگہ ہے۔ یہ مسلمانوں کا بنا ہوا شہر ہے جس کی بنیاد "محمد بن قاسم بن ابی عقیل" نے ڈالی۔ شیراز کا مطلب ہے شیر کا پیٹ، اس نام کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ ہر ملک کی پیداوار شیراز آتی ہے لیکن یہاں سے کوئی چیز نہیں جاتی ہے۔
    [​IMG]
    مسلمانوں کا لشکر جب اس علاقے میں آیا تو "اصطخر" کی فتح سے پہلے انہوں نے یہاں پڑاؤ ڈالا۔ لشکر کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں نے اس مقام کو مبارک سمجھتے ہوئے "شیراز" کی تاسیس اسی جگہ پر کردی۔ اس شہر کی لمبائی 3 میل ہے جس کے گرد ونواح میں اچھے علاقے ہیں۔ مکانات ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ یہاں کوئی بڑی عمارت یا بازار نہیں ہے۔ افواج کی چھاؤنی اسی شہر میں واقع ہے۔ شیراز کے لوگ کنویں کا پانی پیتے ہیں"۔
    "معجم البلدان" نامی کتاب میں آتاہے: "اس شہر کی عمارتوں کی تعمیرنو اور نقشہ سازی اسلام کے دور میں ہوئی۔ کہا گیا ہے سب سے پہلے محمد بن قاسم نے اس کی تعمیر کی تھی۔ نیز اسے شیراز نام دیا گیا چونکہ یہاں سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوتی البتہ ہرجگہ سے درآمد کاسلسلہ بند نہیں ہوتا۔ تابعین کی بڑی تعداد اس شہر میں دفن ہے"۔
    اسلامی تاریخ کی ابتدائی صدیوں میں شیراز کا شمار علوم وفنون کے مراکز میں ہوتا تھا۔ سارے اسلامی مذاہب ومکاتب فکر کے علماء کا ماویٰ شیراز تھا اور کیوں ایسا نہ ہو۔ جس شہر کی بنیاد ایک مسلمان حکمران نے ڈالی ہو اور مسلمانوں کے لشکرنے وہاں پڑاؤ ڈالاہو تو اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔
    اس شہر کی تاریخ اور عروج وزوال کے اسباب پر نگاہ رکھنے والوں کو بآسانی اندازہ ہوجاتاہے کہ "فارس" کے لوگ کس قدر پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے۔ اس محبت کی جھلکیاں ان کے اشعار اور تحریروں سے صاف نظر آتی ہیں۔ نیز ایک زمانے تک اس شہر کے باسیوں کا رجحان حدیث کی طرف رہا۔
    تاریخ نویسوں اور دائرۃ المعارف مرتب کرنے والوں نے شیراز کا تذکرہ اپنی تصانیف میں بہت کیا ہے اور مختلف زاویوں سے اس شہر کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ اس لیے شیراز میں رہنے والے بادشاہوں، علماء وفقہا، محدثین اور قضات کا تذکرہ تفصیل سے الگ کتابوں میں موجود ہے۔ اس شہر میں آنے والی تہذیبوں اور اس تاریخی شہر سے برآمد ہونے والی تہذیبوں اور ثقافتوں کی تفصیلی معلومات بھی اسی طرح دستیاب ہیں۔
    یہاں تک کہ بعض مصنفین نے شیراز کے فقہاء وشعراء کے تذکرے کے لیے مخصوص کتابیں لکھ ڈالیں۔ ان کے حالات وسوانح عمری پڑھ کر ہر قاری زبان حال سے یہی کہے گا کہ بلا شبہ سچ کہا ہے نبی کریم (ص) نے کہ "لوکان العلم بالثریا لتناولہ رجال من فارس" اگر علم آسمان میں ثریا کے پاس ہو پھر بھی سرزمین فارس کے بعض مرد اسے حاصل کریں گے۔ یقیناًایک ایسا شہر جو علماء وفقہاء کا مرکز رہا ہو تو اسے فخر کرنے کا پورا حق ہے جہاں اسلامی سرزمین کے طول وعرض سے علم وفیض کے پیاسے جمع ہوتے تھے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔
    [​IMG] [​IMG]
    مناسب ہے شیراز کے دور عروج کی بعض شخصیات کی سوانح عمری کا مختصراً تذکرہ کیا جائے تاکہ دسویں صدی ہجری تک شیراز کے علمی وثقافتی عروج اور اس کے بعد پیدا ہونے والے زوال کی وجوہات کا تجزیہ کیا جاسکے۔

    حسن بن عثمان ابوحسان الزیادی الشیرازی:

    ان کا شمار بڑے محدثین ومورخین میں ہوتاہے۔ وہ ثقہ عالم دین تھے جنہوں نے قضاوت کا عہدہ بھی سنبھالا۔ تاریخ پر ایک کتاب لکھی۔ ان کے شاگردوں میں محمد بن ادریس الشافعی، اسماعیل بن علیہ، وکیع بن الجراح و دیگر کا نام قابل ذکر ہے۔ "طبری" کے مطابق حسن بن عثمان الشیرازی 272 ھ.ق کو انتقال کرگئے۔

    ابو عبداللہ محمد بن خفیف الشیرازی:
    سرزمین فارس کے انتہائی زاہد ومتقی شخص تھے جو اپنے دور کے قطب تھے۔ علوم ظاہری کے ماہرترین عالم سمجھے جاتے تھے۔ ابوعبداللہ الشیرازی رؤیم، ابوالعباس بن عطاء اور طاہرالمقدسی جیسی شخصیات کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار اکابرین میں ہوتاتھا۔ زندگی کی 104 بہار دیکھنے کے بعد سنہ 371 ھ.ق میں اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کے جنازے کے ساتھ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد نکل گئی تھی۔

    احمد بن عبدالرحمن الحافظ الشیرازی ابوبکر:
    موصوف کا شمار حفاظ حدیث میں ہوتا تھا جو بکثرت روایت کرتے تھے۔ انہوں نے ابوبکر بن احمد بن ابراہیم الاسماعیلی، ابوسہل احمد الاسفرائینی اور ابواحمد محمد الحافظ ودیگر عراقی، خراسانی وجبلی مشایخ سے روایت کی ہے۔ جبکہ ابوطاہر بن سلمۃ، ابوالفضل بن غیلان اور ابوبکر الزنجانی سمیت ایک بڑی جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔ احمد بن عبدالرحمن ثقہ، حافظ اور سچے محدث تھے۔ کئی سالوں تک ہمدان (ھمذان) میں رہے پھر سنہ 404 ھ.ق میں شیراز منتقل ہوئے اور شیراز ہی میں 411 ھ.ق کو ان کا انتقال ہوا۔

    احمد بن منصور الشیرازی:
    یہ شیخ کثرت سے سفر کرنے والے اور حدیث روایت کرنے والے تھے۔ حاکم نیشابوری نے لکھاہے: "احمد بن منصور زاہد اور طلب حدیث کے لیے بہت سفر کرنے والے تھے۔
    کثرت سے حدیث سماع اور جمع کرتے تھے۔ 338 ھ.ق میں ہمارے پاس نیشابور آئے اور کئی سالوں تک یہیں رہے۔ مشایخ اور ابواب حدیث کے حوالے سے ان کے پاس بڑی تعداد میں کتابیں تھیں۔ انہوں نے عراق اور شام کا سفر بھی کیا۔ اس کے بعد اپنے آبائی علاقہ "شیراز" واپس آگئے۔ وہ شیراز میں از حد مقبول تھے اور نیکی واچھائی میں ضرب المثل تھے۔ شیراز ہی میں شعبان 382 ھ.ق کو انتقال کرگئے"۔

    "شیراز" کے مشاہیر اور دانشور علماء کے ناموں کی فہرست کافی لمبی ہے جس کا احاطہ یہاں مشکل ہے۔ ساتویں صدی میں سید قطب الدین محمد الحسنی جیسے عالم وعارف باللہ، فن نحو کے ماہر حسن بن احمد الفارسی شیراز کے بسنے والے تھے۔ اس شہرمیں بستے تھے۔ معروف شاعر وعارف مصلح الدین سعدی شیرازی بھی اسی صدی میں رہے ہیں جن کی دومایہ ناز فارسی کتابیں "بوستان" اور "گلستان" بہت معروف ہیں۔
    اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں نجومیات کے ماہر عالم ابوالحسن بن محمد شیرازی نے شیراز کا نام بلند کردیا۔ معروف نحوی عالم وادیب، نحویوں کے امام ابوبشیر عمرو بن عثمان بن قنبر البصری (140 هـ / 760 م-180 هـ / 796 م) ملقب بہ "سیبویہ'' کی نسبت بھی اسی شہر کی طرف ہے۔
    شروع میں سیبیویہ نے فقہ وحدیث میں مہارت حاصل کی پھر عربی زبان کو اپنا موضوع بنایا اور اس فن میں اپنے زمانے کے امام بن گئے۔ چنانچہ عربی ادب میں انہوں نے ایک ایسی کتاب لکھی جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ سیبویہ کا انتقال 180 هـ.ق میں ہوا۔
    ''شیراز'' ہی کے ایک اور فرزند ارجمند حسن بن خطیر المعروف ابوعلی الفارسی تھے جو مختلف علوم وفنون کے ماہر تھے۔ عشر وشاذ، تفسیر، ناسخ ومنسوخ، فقہ واختلاف ودیگر علوم کے استاد تھے۔ علوم قراء ات کے ماہر ابوعلی الفارسی کا انتقال 598 ھ.ق کو قاہرہ میں ہوا۔
    [​IMG]
    عالم اسلام کے نامور علماء وفقہاء اور شعراء کے ظہور کا سلسلہ ''شیراز'' سے اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ سنہ 909 ھ.ق کو درندہ صفت صفویوں نے اس تاریخی شہر پر اپنا قبضہ جمالیا۔
    ایران کے دیگر شہروں کی طرح شیراز بھی صفویوں کی درندگی وسربریت سے محفوظ نہیں رہا، انسان دشمن، علم دشمن اور وحشی صفویوں نے اس شہر سے علم وفقہ اور تعلیم کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا چنانچہ کئی صدیوں تک علم وہدایت کا روشن مینار بننے والا شیراز جہالت، رفض اور نادانی کی کھائیوں میں بری طرح گرگیا۔ صفوی درندے جس شہر کا رخ کرتے جیسا کہ ''اصفہان'' ہو یا ''شیراز'' یا کہ ''تبریز'' سب سے پہلے علم اور اہل علم ان کا نشانہ بنتے چنانچہ وہ علماء کو قتل کرتے، تعلیمی اداروں کو بند کراتے تا کہ بدعات وخرافات کی اشاعت میں کوئی رکاوٹ ان کے سامنے نہ ہو۔
    علم دشمن صفویوں نے اس قدر ایرانی شہروں کو تباہ کیا کہ ان کے بعد آنے والی حکومتوں کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں اور خرافات وبدعات کے دامن میں گرفتار عوام علم کی روشنیوں سے محروم رہے۔ اہل علم اور صاحب درد لوگوں نے شیراز چھوڑنے کو ترجیح دی اور دور دراز علاقوں کا رخ کیا۔ اس طرح علماء کے چلے جانے سے علم بھی اس علاقے سے چلا گیا۔ اہل سنت والجماعت کے ترک وطن سے سنت اور اس کی برکات بھی کوچ کر گئیں۔ نتیجہ میں وہاں جہالت، نادانی اور مہلک بدعات و رسوم کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اخیر صدیوں میں اسلام دشمن تحریکوں میں سے بعض بڑی تحریکیں مثلا "بہائیت" اور "بابیت" کا ظہور اسی شہر سے ہوا جن کے ماننے والے اپنے باطل عقائد کی وجہ سے بالاتفاق دایرہ اسلام سے خارج ہیں۔ تاریخی حوالوں کے مطابق اس باطل مذہب کا بانی "علی محمدرضاشیرازی" بنیادی طورپر شیعہ تھا جوباطنی اور جاہلانہ تصوف کی تعلیم حاصل کرکے روسیوںِ، انگریزوں اور یہودیوں کے اشارے پر1260ہ۔ق ( 23مارچ 1844)کو مہدویت اور پھرنبوت کادعوی کیا۔ درحقیقت اس تحریک کی پیدائش اور پھر نشوونما کی اصل وجہ بھی صفویوں کی وحشیانہ حرکتیں تھیں جو اہل سنت والجماعت پر عرصہ حیات تنگ کر چکے تھے اور اپنے جاہلانہ خیالات ونظریات کی پرچار کرکے امت مسلمہ کو اس علاقے میں تتر بتر کر گئے۔ چنانچہ بچ جانے والے عوام اپنے روشن ماضی کو بھول کر جہالت، باطل عقائد اور جھوٹے دعووں کے شکار ہوگئے۔
    اللہ تعالی ایک بار پھر اس شہر کو علم ودانش کا گہوارہ بنادے۔ آمین

    أبو عبداالله بلوچ
    SunniOnline.us
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    محترم
    گھر بیٹھے انتہائی اہم معلومات فراہم کرنے کاشکریہ
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    سنی جی بہت دلچسپ اور خوبصورت شئیرنگ کرتے ھیں ہمیشہ ہی
    بہت شکریہ سنی جی
     
  4. عارف عارف
    آف لائن

    عارف عارف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2010
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد



    آپکی پہلی تصویر شیراز پر یلغار کی تصویر ہے لیکن سکندر اعظم کی جو میلاد مسیح سے پہلے کی بات ہے
    مزید معلومات کے لیے اس تھریڈ کو دیکھئیں تخت جمشید

    اس یلغار کے بعد جو اہم ویرانی شیراز پر آگئی وہ چنگیز اور اس کے بعد تیمور کے ذریعے آگئی
    دونوں یلغار بھی اس دور میں ہوگئیں جو آپ اسے
    شیراز کا عروج نام دیا ہے

    بھائی ،صفویوں سے پہلے ایک عرصہ پورا ایران زوال کا شکار ہوگیا تھا شیراز میں بھی وہ رونق نہیں تھی جو پہلی تھی
    آپ کو ضرور پتہ ہے کہ حافظ شیرازی کے دور میں جو صفویہ سے بہت پہلے تھے شیرازپر صرف تیس برس میں کئی بار یلغار ہوا

    صفویہ دور میں شیراز دارالحکومہ نہیں رہا لیکن پھر بھی امن اور خوشحالی کی وجہ پھلنے پھولنے لگا اور اس حد تک بڑا اور اہم ہوا کہ صفویوں کے بعد زندیہ دور میں دارالحکومہ بھی ہوگیا
    شیراز زندیہ دور میں
    اس مین بھی شک وشبہہ نہیں ہیں کے حکمران جماعت اکثر ظالم ہوتے ہیں اور میں صفویوں سے دفاع کرنا نہیں چاہتا ہوں لیکن آپ اگر تاریخ پڑھتے ہیں پوری تاریخ پڑھ دیجئے
    ہر شخصیت اور حکومت اور دور تاریخ میں کئی پہلو رکھتی ہیں
    بھائی تاریخ کے بارے میں جج کرنا آسان نہیں ہے
    آپ یہ کوشش کیجئیے تا مسلمانوں کے درمیاں اتفاق اور یکجہتی حاصل ہو تا کہ ان کی ترقی میں رفتار آجائے

    آپ کی تحریر معلومات سے بھر پور ہے بہت بہت شکریہ
    [/color]
     
  5. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    عارف عارف بھائی تبصرے کا شکریہ
    یہ مقالہ میرا لکھا ہوا نہیں ہے۔ تاریخی حوالوں سے مختلف اقوال و خیالات کا پایا جانا عام سی بات ہے۔
    میرے‌ خیال میں اس مقالے کا مطلب عروج و زوال سے ظاہری عروج وزوال نہیں بلکہ علمی و ثقافتی عروج و زوال مقصود ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
    تیموریہ اور صفویہ میں ایک بات مشترک اور ایک بات مختف تھی۔ دونوں نے ہوس اقتدار میں لوگوں کا قتل عام کیا اور اپنے مذہبی مخالفین کو بطورخاص نشانہ بنایا، لیکن صفویوں کے برعکس تیموریہ اہل علم و فن کی قدر کرتے تھے اور کسی بھی مذہب کے عالم کی بے عزتی نہیں کرتے تھے۔ ان کے برعکس صفویوں نے اپنے مذہبی مخالفین کے علاوہ ان کے علماء کو بطور خاص قلع قمع کیا۔ عراق و ارض ہند کے ایرانی النسل مسلمانوں نے اسی دورمیں اپنے وطن سے ہجرت کی۔
     
  6. عبداللہ حیدر
    آف لائن

    عبداللہ حیدر ممبر

    شمولیت:
    ‏26 فروری 2009
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    السلام علیکم، سنی بھائی، مشھد شہر کے بارے میں‌بھی ہمیں کچھ بتائیے۔
    والسلام علیکم
     
  7. سنی آن لاین
    آف لائن

    سنی آن لاین ممبر

    شمولیت:
    ‏19 دسمبر 2009
    پیغامات:
    139
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    و علیکم السلام عبداللہ حیدر بھائی، ان شاء اللہ مشہد سمیت ایران کے دیگر تاریخی شہروں کا تذکرہ یہاں آپ کو ملے گا۔ صرف ذرا وقت لگے گا۔۔۔۔:soch:
     
  8. عبداللہ حیدر
    آف لائن

    عبداللہ حیدر ممبر

    شمولیت:
    ‏26 فروری 2009
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    مشھد پر لکھنے کی فرمائش اسی لیے کی ہے کہ خاندانی روایات کے مطابق کچھ پشتوں پہلے ہمارا خاندان اسی شہر سے ہندوستان (آج کا پاکستان) میں منتقل ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ بھی یہی جنگ و جدل اور بے امنی ہو۔
     
  9. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    سلیم اول
    وکیپیڈیا سے
    :چھلانگ بطرف رہنمائی, تلاش
    سلیم اول

    سلیم اول (المعروف سلیم یاووز) (پیدائش: 10 اکتوبر 1465ء، انتقال 22 ستمبر 1520ء) 1512ء سے 1520ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان تھے۔ سلیم کے دور میں ہی خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان میں منتقل ہوئی اور مکہ و مدینہ کے مقدس شہر عثمانی سلطنت کا حصہ بنے۔ اس کی سخت طبیعت کے باعث ترک اسے "یاووز" یعنی "درشت" کہتے ہیں۔
    [ترمیم] تخت نشینی

    انہوں نے اپنے والد بایزید ثانی کو تخت سے اتارا اور خود حکومت سنبھالی۔ قانون کے مطابق انہوں نے تخت سنبھالتے ہی اپنے تمام بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کر ڈالا۔ بھائیوں اور تخت کے تمام امیدواروں کو قتل کرنے کا یہ قانون سلطان محمد فاتح نے اپنے دور حکومت میں نافذ کیا تھا جس کا مقصد ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد خانہ جنگی سے بچنا تھا۔
    [ترمیم] فتوحات

    سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے عظیم فاتحین میں سے ایک تھا اور اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے مغرب کی جانب پیش قدمی کے بجائے مشرق کو میدان جنگ بنایا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جب تک سلطنت عثمانیہ کے برابر میں صفوی اور مملوک حکومتیں قائم ہیں تب تک یورپ میں پیش قدمی نہیں کی جاسکتی۔ اس نے جنگ مرج دابق اور جنگ ردانیہ میں مملوکوں کو شکست دے کر شام، فلسطین اور مصر کو عثمانی قلمرو میں شامل کیا۔ مملوکوں کی اس شکست سے حجاز اور اس میں واقع مکہ و مدینہ کے مقدس شہر بھی عثمانی سلطنت کے زیر اثر آگئے۔ اس فتح کے بعد قاہرہ میں مملوکوں کے زیر نگیں آخری عباسی خلیفہ المتوکل ثالث سلیم اول کے ہاتھوں خلافت سے دستبردار ہوگیا اور یوں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان کو منتقل ہوگئی۔

    سلیم نے اپنے لئے حاکم الحرمین کے بجائے خادم الحرمین الشریفین کا لقب پسند کیا اور خلافت حاصل کرکے خلیفہ و امیر المومنین کہلایا۔

    مصر سے نمٹنے کے بعد سلیم نے ایران کی صفوی سلطنت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور شاہ اسماعیل اول کو جنگ چالدران میں بدترین شکست دی اور صفویوں کے دارالحکومت تبریز پر بھی قبضہ کرلیا تاہم اس نے قدرت پانے کے باوجود ایران کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا۔ سلیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اہل تشیع سے شدید نفرت کرتا تھا اور ایران میں اہل تشیع کی اکثریت کو ایران پر قبضہ نہ کرنے کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے۔

    اپنے دور حکومت میں سلیم نے عثمانی سلطنت کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر سے 65 لاکھ مربع کلومیٹر تک پہنچادیا۔

    مصر کی مہم سے واپسی کے بعد سلیم نے جزیرہ رہوڈس پر چڑھائی کی تیاری شروع کی تاہم اس دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 9 سال تک پایۂ تخت سنبھالنے کے بعد انتقال کرگیا۔ اس وقہ اس کی عمر 54 سال تھی۔

    سلیم فارسی اور ترک دونوں زبانوں میں شاعری بھی کرتا تھا۔

    سلیم ایک بہترین فاتح ہونے کے باوجود ظالم شخص تھا اس لئے ترک اسے یاووز یعنی مہیب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کا دور حکومت مختصر لیکن فتوحات کے لحاظ سے سب سے اہم تھا۔
     
  10. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: تاریخی شہر "شیراز"، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

    تمام احباب کی مشارکات اچھی ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں