1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تاثیر قرآن ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اختر حسین عزمی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏28 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تاثیر قرآن ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اختر حسین عزمی

    ترجمہ ’’اور جب انہیں قرآن سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ،ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں۔(‘‘سورۂ قصص)

    دعوت واصلاح کے عمل کے مؤثر اور پائیدار ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اُس منہج سے زیادہ سے زیادہ قریب اور ہم آہنگ ہو جسے رسولِ اکرم ﷺ نے اختیار کیا۔ بقول امام مالکؒ اس قوم کے آخری حصے کی اصلاح بھی اس وقت تک نہ ہو گی جب تک وہ اسی طریقے کو نہ اختیار کرے جس طریقے پر ابتداء میں اصلاح ہوئی تھی۔ بعثت نبوی کا ابتدائی دور ہو یا بعد کے ادوار، اللہ کے رسولؐ کے دعوتی منہج میں تذکیر بالقرآن کی خصوصیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ آپ ؐ نے افراد کو دعوت دی یا قبائل کو، وفود کو تبلیغ کی یا شاہانِ وقت کو، آپؐ کی دعوتی گفتگو میں تلاوتِ قرآن کا التزام ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے آپؐ کو مکی دور میں ہی اس بات کی ہدایت کی تھی:

    ترجمہ ’’اور اس قرآن کو لے کر ان (کافروں) کے ساتھ بڑا جہاد کرو۔‘‘(الفرقان 25:52)

    گویا نظامِ باطل کو اگر چیلنج کرنا ہے تو مکی دور میں بھی جہاد کرنا ہو گا اور یہ جہاد قرآن کے ابلاغ کے ذریعے ہو گا۔ عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم کو ڈرانا بھی قرآن سنائے بغیر ممکن نہ تھا۔ فرمایا: ترجمہ ’’ اس قرآن کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔‘‘(مریم 97:19)

    تمام انسانیت کو خبردار کرنے کیلئے بھی یہی مؤثر ذریعہ ہے: ترجمہ ’’ یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کیلئے ، تاکہ ان کو اس کے ذریعے سے خبردار کر دیا جائے۔‘‘(ابراہیم 52:14)قرآن کی تاثیر ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ تلاوت کی تاثیر سے عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم نے اسلام قبول کیا اور جنہوں نے قبول نہیں کیا انہوں نے بھی اس کی تاثیر کا کھلے لفظوں اعتراف کیا۔ دوران دعوت قرآن سنانا نہ صرف سنتِ نبویؐ ہے بلکہ صحابہ کرام ؓ کا عمل بھی ہے۔

    تاثیر قرآن:قرآن کافروں کو انفرادی طور پر بھی اور ان کے مجمعوں کے اندر بھی سنایا گیا اور ان میں سے ہر ایک نے اس کی عظمت اور تاثیر کا اعتراف کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قریش کا سردار ولید بن مغیرہ نبی اکرمﷺ کے پاس آیا۔ آپﷺ نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا ۔ قرآن سن کر وہ نرم پڑ گیا۔ ابوجہل کو خبر پہنچی تو ولید کے پاس گیا ، ولید نے ابوجہل سے کہا ’’اللہ کی قسم تم میں سے کوئی آدمی مجھ سے زیادہ اشعار اور قصیدوں کا جاننے والا نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !وہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ ان میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں بڑی حلاوت اور کشش ہے اور ان کا کہا ہوا ایسا تناور درخت ہے جس کے اوپر کا حصہ خوب پھل دیتا ہے اور نیچے کا حصہ خوب سر سبز ہے۔ یہ کلام ہمیشہ اونچا رہنے والا ہے۔ کوئی کلام اس سے برتر نہیں۔ ایسا کلام جو اپنے سے نیچے والے کلاموں کو تو ڑ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔ ا(بیہقی، البدایہ ، ج3، ص 60؛ تفسیر ابن کثیر، ج 4،ص443)۔

    حضرت جابرؓ بن عبداللہ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایات کے مطابق ایک دن قریش نے مشورہ کیا کہ ایسے آدمی کا انتخاب کیا جائے جو جادو کا جاننے والا ، کاہن اور سب سے بڑا شاعر ہو۔ عتبہ بن ربیعہ کے نام پر ان کا اتفاق ہوا کہ اس سے بہتر کوئی آدمی نہیں۔ عتبہ بن ربیعہ قریش کے نمایندے کی حیثیت سے حضور اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہم سب سے بہترین خاندان والے اور سب سے اونچے مرتبے والے ہیں لیکن آپ نے ہمیں مصیبت میں ڈال دیا ہے۔‘‘

    عتبہ کی بات سن کر رسولِ اکرمﷺ نے پوچھا: ’’اے ابو الولید تم نے اپنی بات مکمل کر لی؟‘‘ عتبہ نے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘۔ اب حضور اکرم ﷺ نے سورہ حم السجدہ پڑھنا شروع کی۔ حتیٰ کہ آپؐ اس آیت پر پہنچے :ترجمہ ’’پھر اگر یہ منہ پھیرتے ہیں تو آپ کہہ دیں کہ میں تمہیں ایسی چنگھاڑ کے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسی چنگھاڑ (کا عذاب) عادوثمود پر آیا‘‘۔ (41:13)

    یہ سن کر عتبہ اتنا گھبرایا کہ بے ساختہ اس نے کہا:بس کریں۔ پھر عتبہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا لیکن ان آیات سے وہ اتنا مرعوب ہوچکا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ قریش کو کیا جواب دے۔ سرداران قریش نے اس کے اترے چہرے کو دیکھ کر دور سے ہی کہا : ’’عتبہ جس شان کے ساتھ گیا تھا، ا س کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ اس شان کے ساتھ واپس نہیں آ رہا ہے‘‘ قریش کی مجلس میں پہنچ کر اس نے کہا :’’میں نے ان سے تمام طریقوں سے بات کی اور پھر انہوں نے میری بات کا ایسا جواب دیا جو جادو ہے، نہ شعر اور نہ کہانت۔ انہوں نے جو کلام سنایا اللہ کی قسم ! میرے کانوں نے ایسا کلام نہیں سنا۔ اے قریش آج تم میری بات مان لو ، آئندہ چاہے نہ ماننا۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ وہ تو اس کام کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ اگر وہ ان عربوں پر غالب آئے تو ان کی برتری تمہاری برتری ، اُنکی عزت تمہاری عزت ہوگی۔ اور اگر عربوں نے انہیں دبا لیا تو تمہارے آپس میں لڑے بغیر تمہارا مقصد پورا ہو جائیگا‘‘۔یہ سن کر قریش نے کہا:’’اے ابو الولید !لگتا ہے تم بھی بے دین ہو گئے ہو۔‘‘ (دلائل النبوہ ، بیہقی ،ص75؛ مجمع الزوائد ،ج6،ص20، البدایہ، ج 3،ص62)۔

    ان دو واقعات سے معلوم ہوا کہ ادبی وشعری ذوق رکھنے والے لوگ قرآن کی عظمت اور تاثیر کلام سے مرعوب تھے اور یہ بھی کہ کافروں کی بڑی سے بڑی بات کا مؤثر جواب وہی ہے جو آیاتِ قرآنی کے ذریعے دیا جائے۔ اسی طرح سیرت ابن ہشام میں بیان شدہ وہ واقعہ کہ ابوسفیان ، ابوجہل ، اخنس بن شریق اور ابن وہب ثقفی 3رات تک مسلسل حضور اکرم ﷺ کی تلاوتِ قرآن چھپ کر سنتے رہے اور جب ایک دوسرے کے سامنے آتے تو نہ سننے کا وعدہ کرتے لیکن اگلے دن پھر ایک ایک کر کے سننے پہنچ جاتے اور قرآن کی عظمت کا اعتراف کرتے۔حضرت عمر ؓ ( جب اسلام قبول نہیں کیا تھا )نے چھپ کر قرآن سنا اور مرعوب ہوئے۔ (ابن ہشام)معلوم ہوا کہ رسول اکرم ﷺ نماز میں بلند آواز سے تلاوت کر کے دوسروں کو سنانے کے مواقع پیدا کرتے تھے۔ اور یہ بھی کہ کافر قرآن کی تاثیر سے خوفزدہ تھے۔ قرآن نے ان کے اس خوف کو یوں بیان کیا ہے:ترجمہ ’’یہ کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو تا کہ تم غالب آ جاؤ۔‘‘ (حٰم السجدہ 41:26)

    عظمتِ قرآن کا اعتراف:اعلانیہ تبلیغ کے آغاز میں جب قریش نے زائرین حرم کے سامنے اپنا مشترکہ مؤقف طے کرنے کے لیے اجتماع کیا اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں تجاویز پیش ہوئیں تو ان کے سردار ولید بن مغیرہ نے ایک ایک تجویز کے بودے پن کو واضح کیا اور قرآن کی عظمت کا یوں اعتراف کیا:’’خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت وشیرینی ہے۔ اس کی جڑ پائیدار اور شاخیں پھل دار ہیں۔ یہ پیغام غالب ہونے والا ہے، اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا اور یہ سب کو کچل کر رکھ دے گا۔‘‘ ( سیرۃ ابن ہشام، ص 233)۔

    ابن اسحاق کے مطابق حضرت ابو بکرؓ نے مسلمان ہونے کے بعد حضرت زبیر بن عوامؓ ، حضرت عثمان بن عفانؓ ،حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ، اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو تبلیغ کی اور انہیں لے کر خدمت ِ رسولﷺ میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے انکے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن سنایا اور اسلام کے حقوق بتائے۔ وہ سب ایمان لے آئے۔ (مسند احمد، ابودائود، طبقات ابن سعد ، ج 5، ص 510، البدایہ ، ج 5،ص32)۔

    ابن اسحاق ہی کی روایت ہے کہ قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو مکہ گئے تو قریش کے چند آدمی ان سے ملے اور انہیں کہا کہ اسلام سے دور رہنا۔ طفیل دوسی کے بقول ایک صبح جب حضور اکرم ﷺ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو میں بھی قریب کھڑا ہو گیا۔ تمام تر احتیاط کے باوجود اللہ نے مجھے آپؐ کی تلاوت کے الفاظ سنا ہی دیئے۔ مجھے وہ کلام بہت ہی بھلا محسوس ہوا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: ’’میری ماں مجھے روئے ! میں ایک قبیلے کا سردار ہوں، خود شاعر ہوں، اچھے بُرے کلام میں تمیز کر سکتا ہوں ، کیا حرج ہے کہ میں محمد (ﷺ) کی بات سنوں۔ دل لگتی بات ہو گی تو قبول کر لوں گا۔ کوئی زبر دستی تو میرے ساتھ کر نہیں سکتا۔ چنانچہ میں خدمتِ رسولؐ میں حاضر ہو گیا۔ اللہ کی قسم میں نے اس سے پہلے اس سے زیادہ عمدہ کلام اور انصاف والی بات نہیں سنی تھی، چنانچہ میں کلمہ ٔ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، ص78، طبقات ابن سعد ، ج4،ص 237، الاصابہ ، ج2، ص225)۔
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    ابن اسحاق کے مطابق حبشہ کے عیسائیوں کا وفد حضور اکرم ﷺ کے پاس صحن حرم میں حاضر ہوا۔ رسول ؐاللہ سے جو سوالات وہ کرنا چاہتے تھے، جب کر چکے تو آپؐ نے انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ جب انہوں نے تلاوت قرآن سنی تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہوں نے آپ ؐ کی نبوت کی تصدیق کی، ایمان لے آئے۔ جب وہ جانے لگے تو راہ میں ابو جہل نے انہیں دین اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کہا کہ ہم جاہلوں سے نہیں الجھتے تو اللہ نے سورۂ قصص کی آیت 52 اور 55 نازل فرما کر ان کی تعریف فرمائی: ترجمہ ’’اور جب انہیں قرآن سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ،ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام، ص338:339)۔

    اخلاقی برتری پر مبنی تعلیمات: حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک طویل روایت تلخیصاً ذکر ہے کہ بعثتِ نبوی کے دسویں سال حج کے موقع پر حضور اکرم ﷺ حضرت ابو بکرصدیقؓ اور حضرت علیؓ کے ہمراہ منیٰ میں تشریف لے گئے۔ آپؐ قبیلہ بنوشیبان کے خیمے میں پہنچے۔ باہمی تعارف کے بعد حضور اکرم ﷺ نے انہیں توحید و رسالت کے قبول کرنے اور اپنی حمایت کرنے کی دعوت دی تو قبیلہ کے ایک سردار مفروق بن عمرو نے کہا:’’آپ (ﷺ) مزید کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟‘‘ آپؐ نے اس کے سوال کے جواب میں سورۃ الانعام کی آیات 151 تلاوت فرمائیں۔ جن کا ترجمہ ہے:’’ کہو ! کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے ربّ نے تم پر پابندیاں عائد کی ہیں ۔ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے حُسنِ سلوک کرتے رہنا، ناداری کے باعث اپنی اولاد قتل نہ کرنا کیونکہ تمہیں بھی اور انہیں بھی رزق ہم ہی دیتے ہیں اور بے حیائی خواہ ظاہری ہو یا پوشیدہ ، اس کے پاس نہیں پھٹکنا اور کسی جان کو جس کے قتل کو اللہ نے حرام کر دیا ہے، قتل نہ کرنا سوائے حق کے۔ ان باتوں کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تا کہ تم سمجھو۔ اور مالِ یتیم کے پاس بھی ہرگز نہ جانا سوائے اس طریقہ کے جو پسندیدہ ہو حتیٰ کہ یتیم جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اور جب بات کہو انصاف کی کہو، خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تا کہ تم نصیحت پاؤ ۔ نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی راستے پر چلو۔ اور راستوں پر نہ چلنا مبادا کہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ۔ اللہ تمہیں ان باتوں کا حکم دیتا ہے تا کہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘ (الانعام6: 151-153)۔

    مفروق جسے اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز تھا اللہ کا کلام سن کر کہنے لگا:’’آپ مزید کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ اللہ کی قسم یہ کلام جو آپ (ﷺ)نے سنایا ہے، زمین والوں کا کلام نہیں ہے اور اگر یہ زمین والوں کا کلام ہوتا تو ہم اسے ضرور پہچان لیتے ‘‘۔ اب حضور اکرم ﷺ نے سورۃ النحل کی آیت 90 کی تلاوت کی:ترجمہ ’’بے شک اللہ تمہیں انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بے حیائی اور بُرے کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم یاد رکھو۔‘‘ یہ سن کر مفروق نے کہا:’’اللہ کی قسم ! آپ(ﷺ) نے بڑے عمدہ اخلاق اور اچھے اعمال کی دعوت دی۔‘‘

    اس کے بعد قبیلہ کے دوسرے سرداروں ہانی بن قبیصہ اور مثنیٰ بن حارثہ نے بھی آپؐ کی دعوت اورر قرآن کی عظمت کا اعتراف کیا۔ البتہ انہوں نے اپنی علاقائی اور قبائلی مجبوریوں کے پیش نظر غوروفکر کی مہلت مانگی اور حضور اکرم ﷺ نے بھی ان کی سچائی پر مبنی بات کو سراہا (چند سال بعد یہ قبیلہ مسلمان ہوا اور ان کے سردار مثنیٰ بن حارثہ نے ایک کمانڈر کی حیثیت سے عراق اور ایران کی فتوحات میں بنیادی کردار اداکیا)۔ بنو شیبان کے بعد حضور اکرم ﷺ اوس وخزاج کی مجلس میں پہنچے۔ ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور وہاں بھی قرآن کی تلاوت کی۔ مجلس سے اٹھنے سے پہلے ہی نعمان بن شریک اور دیگر کئی افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔(بیہقی ، حاکم،ابو نعیم، فتح الباری، ج 7، ص156 ، سیرۃ ابن کثیر ، ج 2،ص129)۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں