1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بے اصولی سب سے بڑا اصول ہے ۔۔۔۔ سکندر خان بلوچ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏27 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بے اصولی سب سے بڑا اصول ہے ۔۔۔۔ سکندر خان بلوچ

    علامہ اقبال نے اپنی ذات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا:’’ گفتار کا یہ غازی تو بنا ۔کردار کا غازی بن نہ سکا‘‘۔علامہ صاحب کا یہ تجزیہ صرف اپنے متعلق ہی نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں کے متعلق بھی ان کی یہی رائے تھی اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اگر مسلمان کردار کے غازی ہوتے تو ان سے دنیا کی امامت کا کام لیا جاتا لیکن مسلمانوں کی بد قسمتی دیکھیں کہ وہ دنیا کی امامت کے قابل تونہ بن سکے مگر غلامی کی زندگی خوشی سے قبول کر لی۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمان اس حالت سے باہر نکلنے کو تیارہی نہیں نہ انہوں نے کبھی ایسی کوشش کی ہے نہ ہی مستقبل میں ایسی کسی کوشش کے آثار نظر آتے ہیں۔اسی پس منظر کے تناظر میں میرا آج کا موضوع ہے پیارے وطن کے پیارے سیاستدان جو گفتار کے غازی تو بن گئے مگر کردار کے غازی بن نہ سکے اور بننے کو تیار بھی نہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ انکی کسی کے ساتھ کوئی وفاداری نہیں نہ ہی کسی اصول کی کوئی پابندی ہے۔ جدھر سبزہ دیکھتے ہیں ادھر ہی چل پڑتے ہیں۔ ذاتی مفاد ہر بات پر مقدم رکھتے ہیں یہی ان کی خوبی ہے یا اصول ہے۔ با دیگر الفاظ بے اصولی ہی انکا سب سے بڑا اصول ہے۔ہمارے سیاستدانوں کو ہر پارٹی کا ذائقہ چکھنے کی عادت بن گئی ہے۔چند ایک کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی سیاستدان ہوجس نے پارٹیاں نہیں بدلیں۔اور تو اور مولانا فضل الرحمن صاحب زیرک سیاستدان اور عالم دین جیسا انسان ایک بڑی پارٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود اقتدامیں آنیوالی ہر پارٹی کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔آئیں ذرا اپنی سیاسی پارٹیوں کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں۔
    پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی پارٹیاں ہیں۔ دونوں پارٹیاں ایک طویل عرصے تک اقتدار سے فیض یاب ہوئی ہیں۔ اب ایک دفعہ پھر ان کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔اب تو دونوں پارٹیوں کی نئی نسل بھی میدان میں آچکی ہے جو اقتدار کے لئے کافی متحرک ہے۔آج سے چند سال پہلے تک دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی رائیول پارٹیاں تھیں اور جی کھول کر ایک دوسرے پر حملہ کرتی تھیں۔ جناب میاں نواز شریف صاحب نے محترمہ بے نظیر صاحبہ کو مختلف عدالتوں میں گھسیٹا یہاں تک کہ اس کی زندگی عذاب بنا دی۔ انکے توہین آمیز فوٹوز ہوائی جہاز سے گرائے۔اسی طرح بے نظیرصاحبہ نے اپنے دور حکومت میں میاں شریف صاحب کو بیماری کی حالت میں پولیس سے پکڑوایا۔بطور وزیر اعظم جب محترمہ لاہور آتی تھیں تو نواز شریف صاحب بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انکے استقبال کیلئے ائیر پورٹ پر نہیں جا تے تھے۔ الیکشن کے دور میں جناب شہباز شریف صاحب زرداری صاحب کیخلاف زوردار تقریر فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مائیک بھی توڑ ڈالتے ۔زرداری صاحب سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت نکلوانے کیلئے انہیں لاڑ کانہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے ۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ دولت نکلوانے کی بات تو محض عوام کو بے وقوف بنانے والی ثابت ہوئی۔ انہی میاں برادران نے زرداری صاحب کو بصد احترام جاتی امراء دعوت دی اور 27شاندار ڈشز کا انہیں ظہرانہ دیا۔ زرداری صاحب سے ایک روپیہ تک واپس نہ لیا گیا بلکہ الٹا انہیں تحفظ فراہم کیا گیا۔
    جب بلاول صاحب میدان میں آئے تو وہ سیاسی طور پر بہت متحرک اور پر جوش تھے۔انکا نعرہ تھا : ’’ گلی گلی میں شور ہے۔نواز شریف چور ہے ‘‘۔’’ مودی کا جو یار ہے ۔غدار ہے غدار ہے ‘‘۔ایسے مخالف نعروں سے دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے علاقوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ میاں برادران نے وفاق میں اور پیپلز پارٹی نے سندھ میں حکومتیں بنائیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد دونوں پارٹیاں خاموش ہو گئیں بلکہ شیرو شکر ہو گئیں ۔یہ تھی ان کی اصول پرستی۔2018کے الیکشن میں جب دونوں پارٹیاں آئوٹ ہو گئیں اور تحریک انصاف اقتدار میں آگئی تو دونوں حسد کی آگ میں جلنے لگیں۔حالات نے پلٹا کھایا بڑے میاں صاحب علاج کے بہانے لندن تشریف لے گئے اور ن لیگ کی قیادت ان کی بیٹی مریم صاحبہ نے سنبھال لی ۔اب جب تیسری پارٹی اقتدار میں آئی تو دونوں پارٹیاں جو اقتدار اپنا حق سمجھتی تھیں برداشت نہ کر سکیں۔لہٰذا حکومت گرا کر اقتدار حاصل کرنے کیلئے دونوں پارٹیاں اکٹھی ہو گئیں۔کہاں کے اصول اور کہاں کی مخالفتیں۔ سب کچھ دفن ہو گیا۔ مطمح نظر صرف اور صرف اقتدار ٹھہرا۔ حد تو یہ ہے کہ مریم صاحبہ نے اسی بے نظیر کی قبر پر اپنے ہاتھوں سے پھول چڑھائے جس کے محترمہ کے والد صاحب سخت مخالف تھے۔ یہ ہیں ہمارے لیڈرزعظیم کردار کے مالک۔ ان لوگوں کے بیانات اور ظاہری مخالفت محض عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہوتی ہے۔ اندر سے سب ایک ہوتے ہیں ۔ان لوگوں کے سب اصول،سب ظاہری یا باطنی کاروائیاں محض حصول اقتدار کیلئے ہوتی ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں