1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔
  1. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    بیعت الرضوان


    ہجرت کے بعد چھ سال تک مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کو مکہ نہ جاسکے۔ 6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چودہ سومسلمانوں کے ہمراہ فریضہ حج ادا کرنے کے لیے مدینے سے روانہ ہوئے۔قریش نے تہیہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو حج نہ کرنے دیں گے۔ آنحضرت نے حدیبیہ کے مقام پر قیام کیا۔ اور اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا مقصد جنگ کرنا نہیں۔ ہم حج کرنے آئے ہیں۔ لیکن قریش مکہ کے ساتھ تمام بات چیت بے سود ثابت ہوئی۔ آخر رسول خدا نے حضرت عثمان کو سفیر بنا کر بھیجا کہ وہ قریش سے بات چیت کریں۔ قریش نے حضرت عثمان کو مکے میں روک لیا۔ اس سے مسلمانوں کو خدشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں حضرت عثمان کو شہید نہ کر دیا گیا ہو۔ آنحضرت نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام جانثاروں سے بیعت لی کہ جب تک حضرت عثمان کا قصاص نہیں لیں گے اس جگہ سے نہیں ہلیں گے۔ مرتے دم تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیں گے۔ اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں اور وہ درخت شجرۃ الرضوان کہلاتا ہے۔قرآن پاک کو سورۃ الفتح میں اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم طارق راحیل بھائی ۔
    بیعتِ رضوان کا تذکرہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے انتہائی خوبصورت انداز میں فرمایا ہے کہ جس سے ہمارے آقا نبی مکرم :saw: کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال قدر و منزلت کا پتہ چلتا ہے۔ سورۃ الفتح کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالی نے فرمایا ۔۔

    10. إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO

    10. (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo

    قرآن مجید کی اس آیہ کریمہ کو بغور نظرِ ایمانی سے پڑھنے پر ایک مومن کا دل ایمانی وجد میں آجاتا ہے کہ ہمارے کچھ مخصوص فکر کے حامل کلمہ گو مسلمان جو عام طور پر اللہ تعالی اور رسول اکرم :saw: سے تعلق کو جدا جدا سمجھتے پھرتے ہیں۔ بارگاہ مصطفوی :saw: میں نعت خوانی اور آپ :saw: کی تعریف و ثنا پر " غلو اور حد سے بڑھ جانے بلکہ شرک تک کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ اور الزام لگایا جاتا ہے کہ محبتِ رسول :saw: میں تعریف و ثنائے رسول :saw: کرنے والے ، اور رفعت و علوِ مقامِ مصطفوی :saw: بیان کرنے والے ، معاذاللہ ، حضور اکرم :saw: کو رب تعالی سے ملا دیتے ہیں۔

    ایسے متوسوس و متذبذب ذہنوں کے لیے اللہ رب العزت نے یہاں مقام ِ فکر دیا ہے کہ ۔۔

    کہ حضور رسول اکرم :saw: سے تعلق کوئی اللہ تعالی سے تعلق کے خلاف یا جدا چیز نہیں۔ حضور اکرم :saw: کی ذات ، کوئی اللہ کا غیر یا معاذاللہ مخالف نہیں ہے۔ بلکہ قرآن حکیم کے اس مقام سمیت متعدد مقام پر حضور اکرم :saw: کے ساتھ کسی بھی معاملے کو خود اپنے ساتھ معاملہ قرار دے کر یہ واضح کیا کہ میرے محبوب کی شانِ محبوبیت یہ ہے کہ اے لوگو ! جو معاملہ تم اس سے کرتے ہو۔ میں اسے اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہوں۔ اے میرے محبوب نبی :saw: کے امتیو ! تم نے بیعت میرے نبی :saw: سے کی ۔ لیکن میرے پیارے حبیب :saw: سے بیعت کرنا دراصل خود اللہ سے بیعت کرنا ہے۔ میرے پیارے حبیب :saw: سے عہد و پیمان کرنا خود اللہ رب العزت سے عہد و پیمان کرنا ہوا ۔

    اہم نکتہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف محبوبِ خدا ہی نہ تھے۔ بلکہ امت کے لیے اسوہء کامل بھی تھے ۔ اور اسوہ کامل اس وقت تک نہیں بن سکتے تھے جب تک اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بندگی کی انتہا تک نہ پہنچتے ۔ اور بندگی کی انتہا بارگاہ الہیہ میں عاجزی کی انتہا سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے مقام بندگی پر فائز ہوتے ہیں تو عجز و انکساری کی انتہا ظاہر فرماتے ہیں۔ کہ مولا ! میں تو کچھ بھی نہیں۔ مولا سب کچھ تو ہے۔ سب کچھ تیری عطا ہے۔ مولا ! میں تو تیرا عاجز عبادت گذار بندہ ہوں۔ مجھے تو کوئی طاقت و اختیار نہیں ، جو کچھ ہے تو ہی قادرِ مطلق ہے (او کما قال ) ۔
    ہمیں بطور امتی ، عبادات، مناجات، بارگاہ الہی میں خود کو پیش کرنے کے طریقے سکھانے کے لیے یہ ساری تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں اور ہمیں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کو بھی اسی عاجزی کا اظہار کرنا چاہیے۔
    اور تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کے لیے ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی پہلو اہمیت کا حامل ہے۔

    مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عاجزی کو " مقام و عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم " ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ جب ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلقِ غلامی کی بات آئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرایمان و عقیدہ قائم کرنے کا وقت آئے تو پھر ہمیں ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلو دیکھنا ہوگا جو اللہ رب العزت ہمیں قرآن حکیم میں دکھاتا ہے۔

    اللہ حکیم و خبیر نے اپنے حبیب مصطفی کریم :saw: کا مقامِ قرب و وصل اپنی بارگاہ میں یوں واضح فرما دیا کہ تمہارے ہاتھوں کے اوپر جو ہاتھ بظاہر تم نبی اکرم :saw: کا ہاتھ دیکھ رہے تھے ۔ مگر سنو ! وہ اللہ کا ہاتھ تھا۔
    اب عقل پرست ۔ علم پرست ۔۔ اپنے علم و عقل کے گھوڑے دوڑاتے پھریں کہ رسول اللہ :saw: کا ہاتھ ، اللہ کا ہاتھ کیسے ہوگیا ؟ اگر علم و عقل کی وادی میں رہے تو گمراہی مقدر ہوجائے گی ۔

    اگر قرب و عظمتِ مصطفی :saw: کو سمجھنا ہے تو محبت و معرفتِ مقامِ مصطفیٰ :saw: کے لیے بارگاہ الہی میں التجا کرنا ہوگی۔ دل میں محبت و عظمتِ رسول :saw: کا چراغ جلانا ہوگا۔ اور ذکر و ثنائے مصطفیٰ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا ۔
    اور یہ معرفت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضور اکرم :saw: کو اس نظر سے دیکھو ۔ جس سے اللہ تعالی اپنے محبوب :saw: کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس جس شان سے اللہ رب العزت اپنے محبوب کا تعارف ہمیں کرواتا ہے ۔
    کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ (مکہ) :saw: کی قسم کھا کر، (لا اقسم بھذالبلد)،
    کبھی حضور اکرم :saw: کی عمر مبارک کی قسم کھا کر (لعمرک)،
    بلکہ اللہ رب العزت تو اپنی قسم بھی خود کو ربِ مصطفیٰ :saw: کہہ کر کھاتا ہے (فلاوربک لا یومنون حتیٰ یحکموک ۔۔۔ )
    کبھی مقام قاب قوسین او ادنیٰ پر بٹھا کر (ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ) ،
    تو کبھی ذکرِ محبوب :saw: کو انتہائی بلندی دے کر (ورفعنالک ذکرک) ،
    کبھی کائناتِ ارض و سما کی ہر کثرت عطا کرکے (انا اعطینٰک الکوثر)
    کبھی حضور اکرم :saw: کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے کر (یداللہ فوق ایدیھم)
    کبھی حضور اکرم :saw: پر سبقت لےجانے کو خود پر سبقت لےجانا قرار دے کر ( لا تقدمو بین یدی اللہ ورسولہ)
    کبھی حضور اکرم :saw: کی رضا کو اپنی (اللہ کی) رضا قرار دے کر ، (واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ)
    کبھی حضور اکرم :saw: کو دھوکہ دینے کو خود (اللہ کو) دھوکہ دینا قرار دے کر (یخدعون اللہ والذین امنو۔۔)
    کبھی حضور اکرم :saw: کو اذیت دینے کو خود اللہ کو اذیت دینا قرار دے کر (ومن یشاقق اللہ ورسولہ)
    کہیں حضور اکرم :saw: کو عطاکردہ دائمی علم الہی کے فیض کا ذکر فرمایا (سنقرئک فلا تنسیٰ )
    کہیں حضور اکرم :saw: کو عطائے الہی کے فیض سے علم غیب کی وسعتوں کا ذکر فرمایا (وما ھو علی الغیب بضنین )
    کبھی حضور اکرم :saw: کو روز قیامت ، بعد از خدا سب سے اعلی مقام و منصب " مقام محمود " کا وعدہ دینا۔۔ (عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محمودا )

    بلکہ اللہ رب العزت تو حضور اکرم :saw: کو ہر وقت نگاہِ الہی میں رکھنے کی بات بھی قرآن میں فرماتا ہے۔

    اللہ پاک نے فرمایا ۔۔ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔۔ (الطُّوْر ، 52 : 48)
    اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں٭
    گویا اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ محبوب اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔

    اور پھر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو مقامِ رفعت کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ جس پر اور کوئی نبی ، کوئی پیغمبر، کوئی رسول نہ پہنچا ، نہ پہنچ پائے گا۔ وہ مقام ہے ۔ رضائے مصطفیٰ بذریعہ عطائے الہی
    اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کریم :saw: سے خطاب فرماتے ہوئے وعدہ فرمایا
    ولسوف یعطیک ربک فترضی ٰ (سورۃ الضحا )
    اے محبوب ! عنقریب یقیناً آپکا رب آپکو اتنا عطا کرے گا حتیٰ کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔

    اللہ اکبر۔ دوستانِ محترم ! ذرا سوچنے کی بات ہے۔ ہم کیا ساری دنیا، ساری کائنات، سارے اولیا، سارے صالحین، سارے اتقیا و اصفیا ، سارے انبیاء و سارے رسولانِ مکرم (علیھم السلام) ، رضائے الہی کے متلاشی ہیں۔
    اور خود اللہ رب العزت اپنے محبوب کی رضا کے لیے اپنی عطاؤں کے وعدے فرما رہا ہے۔
    سچ کہا کسی شاعر نے کہ ۔۔

    خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
    خدا چاہتا ہے رضائے محمد :saw:

    اور پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمندرِ معرفت کو کوزے میں سمیٹا تھا

    کی محمد :saw: سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں​


    اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں اپنے حبیب کریم :saw: کی سچی و پختہ محبت کا ایسا بیج بوئے جس سے ایمان کامل کا پودا اگے، پھر ہمیں اتباعِ مصطفیٰ :saw: کی دولت عطا کرے جس سے ایمان کا پودا تناور شجر بن جائے ۔ جس کے سائے میں نہ صرف ہم خود بلکہ اور لوگ بھی فیضیاب ہوں۔ پھر اس پر معرفتِ مقام ِ مصطفیٰ :saw: کا ایسا پھل لگے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی رضا نصیب ہوجائے۔ قبر میں پہچانِ چہرہء مصطفی :saw: نصیب ہو اور روز قیامت شفاعتِ مصطفیٰ کا سایہ نصیب ہو جائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین :saw:
     
  3. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اچھا نعیم بھائی تو آپ پکے بریلوی ہیں ۔

    بہت اچھا مضموں ہے۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ کجر بھائی ۔
    میں مسلمان ہوں۔ اور اوپر سارے مضمون میں سے سوائے قرآن حکیم کے حوالہ جات کے کوئی اور بات نہیں کی۔ :139:
     
  5. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بے شک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت ہی حقیقت میں دین اسلام ہے۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ اور میں آپ کے خیالات سے متفق ہوں۔

    لیکن بعض اشعار ایسے ضرور ہیں جن سے شبہات جنم لیتے ہیں جیسے یہ شعر:

    پکڑے جو خدا تو چھڑا لے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
    پکڑے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو چھڑا کوئی نہیں سکتا

    شاید یہ شعر پنجابی میں ہے لیکن اس کا مفہوم یہی ہے۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    گجر بھائی ۔ ایمان و عقیدہ اشعار پر قائم نہیں کیا جاتا۔ بلکہ قرآن و حدیث کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

    والسلام
     
  7. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی بہت شکریہ آپ کی مزید ترمیم کا

    امید ہے سلسلہ جاری رہے گا
     
  8. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    :salam:
    سبحان اللہ العظیم
    جزاک اللہ جناب
     
  9. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جزاک اللہ
    بے شک نہایت پیاری چیز کو الفاظ میں پیش کیا گیا
    جو ہمیں نبی کریم صلم کے ساتھ وفا کرنے کا اشارہ ہے
    ،،،،،
    غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے غلام ہیں نبی کے ہم غلام ہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں