اگر کعبے کا رُخ بھی جانبِ میخانہ ہو جائےتو پِھر سجدہ مری ہر لغزشِ پیمانہ ہو جائے وہی دِل ہے جو حُسن و عشق کا کاشانہ ہو جائےوہی سر ہے جو اس کی تیغ کا نذرانہ ہو جائے یہ اچھی پردہ داری ہے،یہ اچھی راز داری ہےکہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے مرا سَر کٹ کے مقتل میں گِرا قاتل کے قدموں پردمِ آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے تری سرکار میں لایا ہوں ڈالی حسرتِ دِل کیعجب کیا ہے مرا منظور یہ نذرانہ ہو جائے وہ سجدے جِن سے برسوں ہم نے کعبے کو سجایا ہےجو بُت خانے کو مِل جائیں تو پِھر بُت خانہ ہو جائے یہاں ہونا نہ ہونا ہے،نہ ہونا عین ہونا ہےجِسے ہونا ہو کچھ خاکِ دِرِ جانانہ ہو جائے سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانابنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے وہ مے دے دے جو پہلے شِبلی و منصور کو دی تھیتو بیدم بھی نِثارِ مرشدِ میخانہ ہو جائے (بیدم شاہ وارثی)
جزاک اللہ! وہ مے دے دے جو پہلے شِبلی و منصور کو دی تھی تو بیدم بھی نِثارِ مرشدِ میخانہ ہو جائے حضرت بیدم شاہ وارثی رح کے کلام میں ایک عشق کی ایک عجب بےخودی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بہت خوبصورت کلام ہے شکریہ سین جی!
یہاں ہونا نہ ہونا ہے،نہ ہونا عین ہونا ہے جِسے ہونا ہو کچھ خاکِ دِرِ جانانہ ہو جائے بہت اعلی ۔ بہت عارفانہ کلام ہے۔ @سین جی عمدہ انتخاب ہے