1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بہزاد لکھنوی (ایک عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم)

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏14 جون 2014۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہزاد لکھنوی 1900ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے مذہبی گھرانے سے تعلق تھا 9 سال کی عمر سے شاعری شروع کر دی تقسیم ہند سے قبل ادبی حلقوں میں غزل گو شاعر کی حیثیت سے بے حد مقبول تھے ان کی غزلوں کو چار چاند لگانے اور شہرت دوام بخشنے میں وقت کی مشہور مغنیہ اختر بائی کی سریلی آواز کا بڑا دخل تھا مکیش کا مشہور نغمہ ’’زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں‘ جلتا ہوا دیا ہوں مگر روشنی نہیں‘‘ اور غزل ’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے‘‘ انھی کی تخلیق ہیں جن سے گلوکاروں نے تو خوب شہرت حاصل کی لیکن ان نغموں کو سننے والے افراد کی بہت بڑی تعداد اس بات سے لاعلم ہے کہ یہ کلام حضرت بہزاد لکھنوی کا ہے۔

    بہزاد لکھنوی نے آل انڈیا ریڈیو اور لاہور کی فلمی کمپنی میں ملازمت کی لیکن جلد چھوڑ دی قیام پاکستان کے بعد یہاں آ کر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور آخری عمر تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں مشہور گائیک استاد محمد جمن نے ان کی خوب پذیرائی کی سالانہ مشاعرہ کرتے تھے جس میں ملک بھر سے شعرا کو مدعو کیا جاتا تھا استاد جمن نے بہزاد کا کلام بڑے خوبصورت و سحر انگیز انداز میں گایا ہے خاص طور پر ان کی یہ غزل ایک سما ں باندھ دیتی ہے جس کے کچھ شعر یوں ہیں کہ:

    اب ہے خوشی خوشی میں نہ غم ہے ملال میں

    دنیا سے کھو گیا ہوں تمہارے خیال میں

    دنیا کھڑی ہے منتظر نغمہ عالم

    بہزاد چپ کھڑا ہے کسی کے خیال میں

    حضرت بہزاد نعت، غزل، گیت، فیچر اور نثر نگاری بھی کرتے تھے لیکن ان کی شاعرانہ اور خاص طور پر نعتیہ شاعری کی شہرت سب سے نمایاں رہی۔ نعتیں تو وہ شروع سے کہتے تھے لیکن حج بیت اللہ اور روضہ رسولؐ کی زیارت کی بار بار سعادت نے ان کی توجہ اور طبیعت نعت رسولؐ تک مرکوز کر دی، ریڈیو پاکستان نے ان کی نعتوں کو مقبول بنانے اور عوامی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ میلاد اور محفل سماع میں نعت خواں اور قوال ان کا کلام پڑھ کر سما ں باندھ دیتے تھے گھروں، اسکولوں، گلیوں، بازاروں میں بچے بڑے ان کی یہ نعت گنگناتے نظر آتے تھے کہ ’’مدینہ کو جائیں یہ جی چاہتا ہے‘ مقدر جگائیں یہ جی چاہتا ہے‘‘ یا پھر یہ کہ ’’پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے‘ آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے‘‘۔

    دس سال تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے صبح میں نعت پڑھتے تھے جس کا ان کا اپنا ہی انداز تھا ان کے انداز نعت گوئی سے متعلق ایک مبصر کا کہنا ہے کہ ’’بہزاد کا ترنم اپنی جگہ منفرد تھا، نہ تو منہ بگڑتا نہ گلے کی رگیں پھولتیں اور نہ شعر پڑھنے میں زور لگانا پڑتا۔ ان کے گلے میں نور تھا اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ شعر کیا پڑھ رہے ہیں مصری کی ڈلیاں مزے لے لے کر چبا رہے ہیں ان کی شکل و صورت میں خاصی جاذبیت تھی، سرخ و سپید رنگت، چھریرا بدن، بڑھاپے میں دوش پر بکھرے ہوئے کاکل بس دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ بہزاد کی ذات عشق محمدی کا مثالی نمونہ تھی ان کی نعتیں محبت رسول کی آئینہ دار ہیں جس میں انھوں نے ایک طالب صادق کی حیثیت سے خون دل سے ایسے نقوش بنائے ہیں جو انمٹ اور لازوال ہیں سننے اور پڑھنے والوں کو جذبہ عشق رسول سے سرشار کر دیتے ہیں۔

    حضرت بہزاد اردو، عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے تین درجن کے قریب مجموعہ کلام کی اشاعت ہو چکی ہے جن میں ثنائے حبیب، ذکر رسول، فیضان حرم، کرم بالائے کرم، نقش بہزاد، نغمات بہزاد، کفر و ایمان، نغمہ روح، چراغ طور، وجد و حال، موج نور، نغمہ نور، کیف و سرور، معراج طہور، نعت حضورؐ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بہزاد لکھنوی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی سرکاری ایوارڈز دیے گئے انھیں ایوب حکومت میں 200 روپے اور بھٹو حکومت میں 500 روپے کا ماہانہ کا وظیفہ مقرر کیا گیا تھا الطاف گوہر جو اس وقت ایڈمنسٹریٹر کراچی تھے تو انھوں نے بہزاد مرحوم کی مالی امداد کے لیے پاک و ہند مشاعرے کا انعقاد کرایا اس بیمار و ضعیف العمر شاعر کی اس قدر افزائی کو ادبی حلقوں میں تحسین و پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔

    23 رمضان 1974ء بروز جمعہ انتقال ہوا مولانا احتشام الحق تھانوی نے نماز جنازہ پڑھائی اور سخی حسن چورنگی نارتھ ناظم آباد میں تدفین کی گئی جس کے لیے حکومت نے ایک ایکڑ کا پلاٹ دیا تھا جس کے ایک حصے پر قبضہ ہو چکا ہے اس مزار کا انتظام و انصرام بہزاد لکھنوی کے پوتے منور بہزاد اور پڑپوتے مطلوب بہزاد اپنے طور پر چلا رہے ہیں۔

    افسوس کا مقام ہے کہ آج کل نئی نسل، نعت خواں اور سامع اس عظیم نعتیہ شاعر اور عاشق رسول سے ناآشنا و لاتعلق ہے نعت خوانی اور اس کے ماحول کو یکسر تبدیل کردیا گیا ہے جس میں عشق رسولؐ میں سرشاری، جذبوں کی تازگی، ذہنوں کو سکون اور روحانی و ایمانی تسکین عاجزی و انکساری اور اپنی ذات کی نفی کے بجائے موج مستی، میلہ، ہلہ گلہ، خود نمائی، خود پرستی نے جگہ لے لی ہے۔ خواہشات کو شریعت، ریاکاری کو تقویٰ اور آرزو طمع اور تمنا کو زہد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ سحر و افطار جو قبولیت دعا اور عبادت کے اوقات ہیں اس میں گھروں میں بیٹھے روزہ داروں کی توجہ بھی سحر و افطار اور دعا و عبادت کی بجائے ان کھیل تماشوں پر لگی ہوتی ہے ماڈلنگ کرنے والے اور کاسمیٹک میڈیا مولوی اپنی اپنی عقل اختراع اور تکے بازیوں کے واعظ دے کر لوگوں کو مغالطوں میں ڈال کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں جس سے مسلمانوں اور اسلام دونوں کی تحقیر ہو رہی ہے۔ حکومت، علما کرام اور ارباب اختیار کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے وہ قوم اور اللہ دونوں کو جواب دہ ہیں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں