1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بھٹو ریفرنس، زرداری نے دستخط کر دیے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏2 اپریل 2011۔

  1. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے عدالتی فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے ایک ریفرنس پر دستخط کردیے ہیں جو سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا۔

    صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر زرداری نے ریفرنس پر جمعے کو ایوان صدر میں دستخط کیے اس موقع پر وفاقی وزیر قانون بابر اعوان، صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اور خود صدارتی ترجمان بھی موجود تھے۔

    ریفرنس میں صدر نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر ختم ہونے والے عدالتی مقدمات کا ازسرِنو جائزہ لیں اور اس پر اپنی رائے دیں۔

    فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کبھی بھی انتقام نہیں لینا چاہتی ہے بلکہ اس کا مقصد صرف تاریخی غلطی کی تصیح ہے تاکہ جماعت کے بانی چئیرمین کی پوزیشن کو صحیح اور جائز ثابت کیا جائے۔‘

    صدر کے ترجمان کے بیان کے مطابق موت کی سزا برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ایک سابق جج نے بھی بعد میں سرِ عام یہ تسلیم کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف منقسم عدالتی فیصلہ اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دباؤ میں دیا گیا تھا۔

    لاہور ہائی کورٹ نے قتل کے ایک مقدمے میں منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف موت کی سزا سنائی تھی اور سپریم کورٹ نے مارچ سن نواسی کے اپنے منقسم فیصلے میں بھٹو کے خلاف موت کی سزا برقرار رکھی تھی۔

    ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ میں واحد منتخب وزیر اعظم تھے جن کو عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔

    دنیا کے مختلف رہنماؤں کی اپیلوں اور بین الاقوامی ماہرین قانون کی طرف سے اس فیصلے کی قانونی صحت پر تحفظات کے باجود اس وقت کی فوجی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل سن نواسی کو پھانسی دے دی تھی۔

    بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کی میت رات کے اندھیرے میں ان کے آبائی گاؤں لاڑکانہ پہنچائی گئی تھی جہاں ان کو سکیورٹی کے پہرے میں دفنا دیا گیا تھا۔

    فوجی حکومت کی پابندیوں کے باعث ان کے ورثاء بھٹو کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہو سکے تھے اور نہ ہی انھیں ان کی (بھٹو) میت دیکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کی حکومت نے اگلے روز اخبارات میں تصویریں شائع کروائیں تھیں جن میں یہ دکھانے کی کوشش کی گی تھی کہ مقامی لوگ جنازے میں شریک تھے لیکن بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ وہ مقامی لوگ نہیں تھے بلکہ انھیں جنازے میں شرکت کے لیے باہر سے لایا گیا تھا۔

    بشکریہ بی بی سی اردو
     

اس صفحے کو مشتہر کریں