1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بھارت میں علیحدگی کی 67تحریکیں ،تحریر : عبدالماجد قریشی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏1 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بھارت میں علیحدگی کی 67تحریکیں ،تحریر : عبدالماجد قریشی
    بھارت خود کو ایک کامیاب جمہوری ریاست قرار دیتا ہے مگر حقیقت میںیہ جمہوریہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔اس وقت بھارت میں 67 آزادی و علیحدگی کی تحریکیں کام کر رہی ہیں، جن میں 17 بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بھارت کے 162 اضلاع پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ ناگالینڈ ، مینر ورام ، منی پور اور آسام میں یہ تحریکیں عروج پر ہیں جبکہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک زوروں پرہے اور مقبوضہ کشمیرکا حال تو سب ہی جانتے ہیں۔

    آسام میں علیحدگی پسندوں کی 34تنظیمیں سرگرم ہیں، انہوں نے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں
    [​IMG]
    کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دیکھ کر ناگا لینڈ نے گزشتہ 14 اگست اپنے 73 ویں یوم آزادی کے طور پر منایا
    بھارتی وزیر اعظم مودی کے حالیہ اقدامات کی روشنی میں کشمیر میں آزادی کی تحریک اپنی منزل کے بالکل قریب پہنچتی نظر آرہی ہے۔آزادی کی بڑی تحریکوں میں مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی سب سے بڑی تحریک ہے جس نے آج کل پوری دنیا کو یہ باور کرادیا ہے کہ کشمیری کسی بھی صورت میں بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔دو ماہ سے زائد عرصہ سے وادی میں کرفیو لگا ہوا ہے۔اس کے باوجود روزانہ کشمیری مسلمان بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ بھارتی فوج کے ظلم و ستم دنیا کے سامنے عیاں ہو رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر، پاکستان، ہندوستان اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔تقسیم ہند کے دوران جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔ جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیے گئے۔

    ڈوگرہ حکومت کے خلاف کشمیری مسلمانوں نے علم بغاوت بلند کیا اور وادی کا کچھ حصہ آزاد کروا لیا وہ آزاد کشمیر کہلایا جبکہ باقی ماندہ کشمیر پر بھارت نے اپنا غاصبانہ قبضہ جما لیا۔بھارت نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کا حتمی فیصلہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدازنہ رائے شماری کے ذریعے کرا یا جائے گا۔ لیکن وہ اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے ۔آخر کار امسال 5 اگست کو بھارت نے کشمیر کے مسئلہ کو مزید الجھاتے ہوئے اپنے ہی آئین کو توڑتے ہوئے لوک سبھا نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی قرار داد اور مقبوضہ کشمیر کی دو حصوں میں تقسیم کا بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد دو ماہ سے زائد عرصہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کے عوام کو رام کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کر رہی ہے۔بھارتی فوجیوں اور سیاستدانوں کی اخلاقی گراوٹ کا یہ حال ہے کہ کرفیو کے دوران گھر گھر تلاشی اور سرچ آپریشن کے دوران متعدد خواتین و بچیوں کوعصمت دری کا نشانہ بنا ڈالا۔ روزانہ کشمیری نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے ۔ وادی کشمیر میں ایک شخص بھی مودی حکومت کے5 اگست کے فیصلے سے خوش نہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت سمیت دنیا میں بسنے والے سکھوں نے بھی کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کو اس بات کی سمجھ آگئی ہے کہ کل کو ان کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے۔ نتیجتاً کشمیر ایشو کے ساتھ ساتھ بھارت میں خالصتان تحریک زور پکڑ گئی ہے ۔

    بھارت کی دوسری بڑی تحریک مشرقی پنجاب میں خالصتان کی ہے۔ 80 کی دہائی میں بھارتی پنجاب میں سکھوں کی طاقت کو توڑنے اور انہیں اپنے زیر نگین رکھنے کیلئے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھارتی فوج کو آپریشن بلیو سٹارکا حکم دیا۔یہ فوجی آپریشن 3 جون سے 6 جون 1984ء تک جاری رہا جس کی کمانڈ جنرل کلدیپ سنگھ نے کی۔ اس آپریشن کا بڑا مقصد سکھوں کے لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو گرفتار کرنا تھا۔ اس آپریشن میں فوج اور بھنڈرانوالہ کے حامیوں کے درمیان تین دن تک خون ریز جنگ جاری رہی جس میں 83 ہندو فوجی اور پندرہ سو سے زائد سکھ مزاحمت کار ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس فوجی آپریشن کے نتیجے میں بھارتی پنجاب میں سکھوں کی سب سے مقدس اور مرکزی عبادت گاہ گولڈن ٹمپل کی عمارت بالخصوص اکال تخت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ جس کا دکھ اور غم و غصہ آج 35 سال گزرنے کے بعد بھی ہر سکھ کے دل میں روز اول کی طرح بھرا ہوا ہے۔گولڈن ٹمپل کی تعمیر کا قصہ کچھ یوں ہے کہ سکھوں کے چوتھے گرو ’’رام داس‘‘ نے سب سے پہلے اس کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اور سکھوں کے پانچویں گرو ’’ارجن دیو جی‘‘ نے اگست 1604ء میں اس کو مکمل کروایا۔ بعد میں پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ’’ہر مندر صاحب‘‘ کی عمارت کو مکمل طور پر باہر سے سونے کیساتھ کور کروا دیا جسکی وجہ سے اس کا انگریزی نام "گولڈن ٹمپل’’ مشہور ہو گیا۔ سکھوں کی اس مرکزی عبادت گاہ پر ہونے والے’آپریشن بلیو سٹار’ کے بعد پوری دنیا میں موجود سکھوں نے عہد کیا تھا کہ وہ اب زیادہ دیر ہندوؤں کے زیر سایہ نہیں رہیں گے۔ 6 جون 2017ء کو گولڈن ٹیمپل میں منعقد ہونیوالی اس سانحہ کی 33 ویں برسی کے موقع پر سر عام سٹیج سے ’’آزاد خالصتان‘‘ کے نعرے لگائے گئے تھے۔یوں آزاد خالصتان کی تحریک جو بھارتی حکومت نے فوجی حکمت عملی سے کچھ عرصہ تک دبائے رکھی تھی، آتش فشاں کی طرح پھٹی اور لاوے کی طرح دنیا میں پھیل گئی۔

    بھارتی حکومت کی طرف سے تحریک خالصتان روکنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو جانے والا زمینی راستہ مشرقی پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہی تو ریڈ کلف ایوارڈ نے سرحدوں کا تعین کرتے وقت بے ایمانی کی تھی کہ مسلم اکثریت کے بعض اضلاع بھارت کے حوالے کر دیے تاکہ بھارت کو کشمیر تک راستہ محفوظ راستہ مل جائے۔ اب اگر خالصتان کا قیام عمل میں آتا ہے یاخالصتانی سکھ بھارت عمل داری کو پنجاب سے ختم کرتے ہیں تو سمجھیں کشمیر تو بھارت کے ہاتھ سے گیا۔ فضائی راستہ اپنی جگہ مگر فوجوں کی نقل و حرکت کیلئے زمینی راستہ کی اپنی اہمیت ہے۔ لہٰذا خالصتان بننے یا خالصتان تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں بھارت نہ صرف مشرقی پنجاب بلکہ کشمیر اور دیگر شمالی علاقہ جات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ کیونکہ آسام اور ناگا لینڈ میں بھی آزادی کی تحریکیں زوروں پر ہیں۔ نیپال کی حکومت پر بھی بھارت کا کنٹرول قائم ہے مگر چین کا اثرقائم ہونے کے بعد یہ ملک بھارت کے ہاتھ سے نکل جائیگا۔ حال ہی میںیہ دیکھ کر بھارتی حکمرانوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں کہ سکھوں نے خالصتانی پاسپورٹ اور خالصتان کی کرنسی کا ڈیزائن بھی مختلف ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے۔ بھارت میں اسی فیصد سکھوں نے اپنے فیس بک اکائونٹس، دکانوں ،دفاتر اور گھروں میں باقاعدہ خالصتان کے پاسپورٹ ،کرنسی کی تصاویر لگا لی ہیں۔ خالصتانی پاسپورٹ، کرنسی کی تصاویر سامنے آ نے کے بعد خفیہ اداروں ، فوج ،پولیس اور دیگر اہم سرکاری اداروں میں اہم عہدوں پر تعینات سکھ افسران پر سختی شروع کر دی گئی ہے۔ ان کے تبادلوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، انہیں ان اضلاع میں بھیجا جا رہا ہے جہاں سکھوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ملازمتوں پر تعینات سکھوں پر باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس رکھا جا نے کا کہا گیا ہے۔ پنجاب میں ہندو جنونی افسران کو بھی تعینات کیا جا رہا ہے اور ان کو خاص ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ فوجی بیرکوں کے با ہر تعینات سکھوں کو ہٹایا جا رہا ہے ۔ ان سکھ رہنمائوں اور لیڈروں کی مانیٹرنگ شروع کر دی گئی ہے جن کے عزیز ماضی میں خالصتان تحریک کے رہنما رہے ہیں۔پنجاب کی بڑی یونیورسٹیوں، سرکاری ، پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو مودی سرکار کی جانب سے احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ اگر آپ کے اداروں میں سکھ طلباء نے خالصتان تحریک یا کشمیریوں کیلئے کوئی آ واز اٹھائی یا جلوس نکالا تو آ پ کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ آپ پر لازم ہے کہ ایسے طلباء کو تعلیمی اداروں سے فارغ کر دیا جائے ۔ اس حکم نامے کے بعد پنجاب کی دو بڑی یونیورسٹیوں سے 112سکھ طلبا طالبات کو نکالا جا چکا ہے جبکہ دو تعلیمی اداروں کے سکھ ذمہ داران نے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے خود استعفٰی د یدیا ۔

    آسام میں آزادی کی تحریک زوروں پر ہے۔ وہاںعلیحدگی پسندوں کی 34تنظیمیں ہیں۔انہوں نے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں۔ آزادی کی تحریک 90ء کی دہائی میں شروع ہوئی جب ایک مسلح گروہ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے آزادی کا مطالبہ کیا۔ بھارتی حکومت نے اس تنظیم کو فی الفور کالعدم قرار دیکر آرمی آپریشن شروع کردیا جو تاحال جاری ہے۔ بھارتی فوج نے چنگیز خانی اختیارات کے تحت آسامیوںپر ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ ایک ہزار سے زائد آسامیوں کو قتل کردیاگیا ، ہزاروں زخمی ہوئے،بہت سے زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے ، ہزاروں لاپتا ہیں۔بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم نے خوف طاری کر رکھا ہے۔معمولی سا شک ہوجانے پربے گناہوں پر ظلم ڈھایا جاتاہے، فوج کے ہاتھوں کسی کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ نہیں۔ ان مظالم کے لئے فوج کو بے تحاشا فنڈ فراہم کئے جا رہے ہیںاور اسے ہر طرح کی چھوٹ دے دی گئی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ آزادی کی یہ چنگاریاں شعلہ جوالہ میں ڈھل رہی ہیں جو ایک دن بھڑکے گا اور اپنی راہ کی ہر رکاوٹ کو جلاکر خاک کردے گا۔
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ناگا لینڈ نے بھارت سے آزادی کا اعلان کرتے ہوئے 14 اگست2019 اپنے 73 ویں یوم آزادی کے طور پر منایا۔ ناگا لینڈ میں یوم آزادی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر ناگا لینڈ کا قومی پرچم اور قومی ترانہ بھی پیش کیا گیا۔ناگا لینڈ نے 14 اگست بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔چیئرمین نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالزم (این ایس سی این) یروئیوو ٹکو کا یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ناگا لینڈ کے عوام اپنے آباؤ اجداد کے قومی فیصلے پر بالکل مطمئن ہیں کہ ناگا لینڈ 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا اور ہم ناگا لینڈ کی عوام کے درمیان تقسیم کرنے والے کسی بھی بیرونی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ناگا لینڈ کے باسیوں کا کہنا ہے کہ ناگا لینڈ کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا کیونکہ ہماری اپنی زبان، اپنا مذہب اور اپنا کلچر ہے لیکن بھارت نے 1947 سے بعد جس طرح مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا بالکل اسی طرح ناگا لینڈ پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

    ناگا لینڈ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ایک انتہائی خوبصورت پہاڑی خطہ ہے اور یہاں کے لوگ قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ناگا لینڈ کی 88 فیصد آبادی غیر ہندو مذاہب سے تعلق رکھتی ہے جس میں سے 67 فیصد عیسائی جب کہ باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔1951 میں ہونے والے ریفرنڈم کے مطابق ناگا لینڈ کی 99 فیصد سے بھی زائد عوام نے بھارت سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اس کے باوجود بھارت نے اپنی فورسز کو بھیج کر قبضہ کر لیا تھا۔

    قبائلی علاقوں میں ماؤ نواز وں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔کچھ عرصہ قبل بھارت کی پانچ ریاستوںجھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، بہار اور مغربی بنگال میں ماؤ پرستوں پر ریاستی تشدد کے خلاف ہڑتال کوکامیاب بنانے میں ہر مکتبہ فکر کے افراد نے حصہ لیا۔ سکول، کالج و دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری و نجی دفاتر، ٹرانسپورٹ یہاں تک کہ ٹرین سروس بھی بند رہی ۔ مکمل پہیہ جام ہوا۔ جس سے بھارت سرکار ہل کر رہ گئی۔اسی دوران بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میںماؤ نواز علیحدگی پسندوں کے حملوں میں سینٹرل ریزرو فور س کے 83 اہلکار ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ ایک بکتر بند گاڑی بھی تباہ ہو گئی۔ بھارت کی بیس ریاستوں کے چھ سو اضلاع میں سے 223 میں ماؤنواز باغی سرگرم ہیں۔ایک اندازہ ہے کہ ماؤنواز باغیوں کے بیس رہنما، تیس کمانڈر اور تقریباً 12000 کیڈرز ہیں۔ ماؤنواز باغی جن علاقوں میں سرگرم ہیں ان میں بیشتربچھڑے علاقے ہیں اور وہاں قبائلی آبادی ہے۔ہندوستان میں ماؤنواز تنظیم کی عسکری شاخ کے سربراہ کوٹیشور راؤ عرف کشن جی نے دعویٰ کیا ہے کہ2025 ء تک ان کی فورسز’عوامی جنگ میں مکمل فتح‘حاصل کر لیں گی۔ماؤ نوازوں کو دلی پر قبضہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ پندرہ برس لگیں گے۔ فورسز بہترین تربیت یافتہ ہیں اور مرکزی حکومت کی افواج کے کسی بھی حملے کو پسپا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

    نکسل باڑیوں کا اثر ملک کی بیس ریاستوں کے 223 اضلاع میں پھیل چکا ہے۔نکسل باڑی تحریک نے خطرناک شکل اختیار کرلی ۔بھارتی وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ نکسلی ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔حکومت نے نکسل باڑیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی دھمکی بھی دی ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ اس مقصد کے لئے فوج کے خصوصی دستوں اور فضائیہ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔بھارت اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر ان نکسل علاقوں کے ہزاروں باشندوں کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر چکا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں