1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بھارت‘ اسرائیل‘ امریکہ اور نیٹو کا اسلحہ کراچی آ رہا ہے : چیف جسٹس

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏20 ستمبر 2013۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    کراچی (اے پی اے + نوائے وقت رپورٹ) کراچی کی بندرگاہ سے اسلحے کی سمگلنگ سے متعلق رمضان بھٹی کمیشن کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے کراچی بندرگاہ سے اسلحے کی سمگلنگ سے متعلق رمضان بھٹی پر مشتمل کمشن تشکیل دیا تھا، کمشن کی رپورٹ 45 صفحات پر مشتمل تھی جس میں کہا گیا ہے کہ حساس اداروں نے اسلحے کی سمگلنگ کے معاملے سے انکار کیا ہے لیکن سمندری راستوں سے اسلحے کی سمگلنگ کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ 39 سمندری راستے ہیں جہاں لانچوں کی آمد و رفت ہوتی ہے، صرف سات راستوں پر کسٹمز کی پوسٹیں ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کسٹمر کے پاس وسائل کی کمی ہے، کنٹینرز، ٹرک اور دیگر گاڑیوں کو مختلف مقامات پر چیک کرنے کیلئے افرادی قوت، جدید آلات بھی نہیں ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوسٹ گارڈ کے مطابق سمندر کے راستے کے ذریعے اسلحے کی کوئی کھیپ نہیں پکڑی گئی، دیگر ایجنسیوں نے بھی سندر کے ذریعے اسلحہ کی سمگلنگ سے انکار کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرائم میں استعمال ہونے والا اسلحہ مقامی ساختہ ہے، کراچی میں یوسف گوٹھ اسلحے کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ یوسف گوٹھ میں ہر طرح کا اسلحہ باآسانی مل جاتا ہے۔ امریکی، روسی ساختہ چھوٹے ہتھیار قبائلی علاقوں سے خریدے جاتے ہیں۔ کراچی میں اسلحہ کی سمگلنگ ٹرینوں کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ کراچی امن و امان عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابر غوری عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم عدالت میں ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم موجود تھے۔ کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں کراچی میں امن و امان، ٹارگٹڈ آپریشن، اسلحہ سمگلنگ سمیت 6 رپورٹیں پیش کی گئی ہیں۔ سماعت کی دوران سب سے پہلے اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے وفاقی حکومت کی امن و امان سے متعلق سربمہر رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس کے بعد چیف سیکرٹری سندھ محمد اعجاز چودھری نے صوبائی حکومت کی جانب سے سے رپورٹ پیش کی، اس کے بعد ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ نے بھی اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں۔ اسی طرح سماعت کے دوران کسٹمز کی جانب سے چیف کلکٹر محمد یحییٰ نے اور اسلحہ کنٹینر غائب ہونے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ایک رکنی کمشن کے سربراہ سابق ممبر کسٹم رمضان بھٹی نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کیکراچی (وقائع نگار + نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ شہر کی دکانوں سے راکٹ لانچر اور اینٹی ایئر کرافٹ گنیں مل رہی ہیں۔ لانچوں سے کرنسی، منشیات اور اسلحہ کی ترسیل ہورہی ہے اگر تہیہ کرلیا جائے تو ایک گولی بھی نہیں آئے گی۔ شہر میں اسرائیل، نیٹو، امریکہ، بھارت اور روس کا اسلحہ آرہا ہے غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے کرفیو بھی لگایا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی موقع پر چیف سیکرٹری سندھ اور آئی جی پولیس نے کراچی کی صورتحال پر رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس نے کہاہے کہ آئی جی سندھ بتائیں پولیس افسروں کے قاتل کہاں ہیں۔ گواہوں کا قتل بااثر افراد یا پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت چیف سیکرٹری سندھ چودھری اعجاز نے وفاقی حکومت کی امن و امان سے متعلق سر بمہر رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ چیف سیکرٹری سندھ کی رپورٹ کے ساتھ پولیس رپورٹ بھی منسلک ہے جس کے مطابق 5 سے 16 ستمبر کے دوران ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث 1357 ملزمان گرفتار ہوئے، جن کے قبضے سے 3 کلاشنکوف، 347 پستول اور 9 دستی بم برآمد ہوئے۔ چیف سیکرٹری سندھ نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے مطابق کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جا رہی ہے، آئی ایس آئی اور ایم آئی نے بھی کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو موثرقرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ خود ٹارگٹڈ آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں، شہر میں ایک ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں اور مزید 910 کیمرے نصب کئے جائیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا شہر کے تمام اضلاع میں رینجرز کو تھانے دے دیئے گئے ہیں،موبائل کمپنیوں کو غیر قانونی سمز بند کرنے کے لئے تحریری ہدایات جاری کر دی ہیں، کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنس کے اجرا اور تصدیق کے لئے محکمہ داخلہ اور نادرا کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے کہا کہ کراچی میں اسلحہ سمندر کے ذریعہ بھارت، روس اور امریکہ سے آتا ہے تمام سٹیک ہولڈرز تہیہ کر لیں تو ایک گولی بھی غیرقانونی طریقے سے نہیں آسکتی۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ شہر میں امن کے لیے مزید بہتری کی ضرورت ہے، سندھ اسمبلی میں گواہوں کے تحفظ کا بل پاس کرنا بھی اچھا اقدام ہے، یہ پہلی اسمبلی ہے جس نے اس طرح کا قانون منظور کیا ہے لیکن آئین میں گواہوں کو تحفظ دینا پہلے ہی موجود ہے آئین کتابوں کی خوبصورتی کے لئے نہیں بلکہ عوام کے ریلیف کے لئے بنایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پولیس کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے پولیس کام کرنے لگی ہے اب ہم بھی ان کے کام کو سراہتے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جس مقدمے میں گواہ پیش نہیں ہوتے اسے اے کلاس کر دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو چار کیسوں میں گواہوں کو لانا پڑے گا جس سے گواہوں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ قصے کہانیاں چھوڑیں آئین پر عملدرآمد کریں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ گواہوں کو تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلیوں اور میڈیا میں ملزموں کو چھوڑ دینے کی بحث ہو رہی ہے گواہوں کو تحفظ دینے سے متعلق دستور کوئی نہیں پڑھتا۔ حکومت تفتیشی عمل کو مضبوط بنائے اور قانون پر عملدرآمد کرے دیکھیں پھر امن کیسے قائم نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں تفتیش کے دوران اور تفتیش کے بعد گواہوں کو تحفظ دینا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ پبلک پراسیکیوٹر ساؤتھ کا بیٹا بھی کئی ماہ سے اغوا ہے پولیس اس کی بازیابی کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نئے گواہوں کو تحفظ دینے سے متعلق بل کی کاپی بھی آئی جی پولیس کے حوالے کر دی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کی مانیٹرنگ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکرٹری سندھ خود کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ پولیس نے آپریشن میں کیا نتائج حاصل کئے۔ کتنے بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ تفتیش اتنی مضبوط ہونی چاہئے کہ مجرم بچ نہ پائے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اب ویسا نہیں جیسا 150 افراد کے قاتل کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ اگست میں 163 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے تھے جبکہ رواں ماہ اب تک 57 افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آپریشن کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آپریشن کے دوران کراچی سے فرار ہونے والے ٹارگٹ کلرز کو پنجاب سے بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ دو سال قبل فیصلہ دیا تھا کہ شہر کے تمام داخلی راستوں پر سکینرز نصب کئے جائیں اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ نادرا سے تصدیق شدہ اسلحہ کا بھی حکم دیا تھا لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سکینرز نصب کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے۔
     
    Last edited: ‏20 ستمبر 2013
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    عدالت نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام داخلی راستوں پر سکینرز نصب کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو بچانا ہے تو سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ شہر میں امن قائم کرنے کے لئے اگر کرفیو بھی لگانا پڑے تو لگا دیں۔ حکومت سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں اور آپ میٹنگوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت کی اس طرح حالت رہی تو ملک کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ غیر قانونی اسلحہ کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔ کراچی کا ہر شہری امن چاہتا ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ غیر قانونی اسلحہ جمع کرانے کے لئے نوٹس دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ لوگ خود اسلحہ جمع کرائیں گے۔ چیف جسٹس نے کسٹمز آفیسر محمد یحییٰ سے استفتسار کیا کہ کراچی میں اسلحہ کس راستے سے آتا ہے؟ محمد یحییٰ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں اسلحہ افغانستان کے راستے خروٹ آباد کھولا جاتا ہے اور ٹرکوں کی مدد سے حب سے کراچی منتقل کیا جاتا ہے جبکہ خیبر پی کے اور قبائلی علاقوں سے بھی اسلحہ کراچی منتقل ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا یہ سب غلط ہے، سب جانتے ہیں کہ اسلحہ اور منشیات سمندری راستے سے بھارت، روس اور امریکہ سے آتا ہے۔ چیف جسٹس نے کسٹمز کلیکٹر افسر سے استفسار کیا کہ اینٹی سمگلنگ کے کتنے کیس درج ہوئے۔ جس پر کسٹمز کلیکٹر افسر نے عدالت کو بتایا کہ رواں سال 9 مقدمات درج ہوئے ہیں۔جس میں 75 پستول کے مقدمات ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلحہ سمندری راستے سے ہی کراچی لایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خدا کے واسطے اس ملک کو بچائیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اب صورتحال اس طرح ہو گئی ہے کہ کراچی کے پوش علاقوں میں بھی اینٹی ایئر کرافٹ گن فروخت ہونے کیلئے پہنچ چکی ہیں۔ ہم ڈیفنس جاتے ہیں تو تین بار گاڑی کوچیک کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بندرگاہوں پر بھی ایک مافیا کام کر رہا ہے، جو غیر قانونی طریقے سے سمگلنگ کرکے شہر کو تباہ کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئے روز پڑھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس دوران جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ چیف جسٹس اخبارات میں ڈالر کے ریٹ پڑھتے ہیں اور میں دال کا بھاؤ پڑھتا ہوں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ معلوم کیا جائے کہ کس کی ملی بھگت اور کوتاہی سے اسلحہ کراچی لایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کنٹینرز گمشدگی سے متعلق رمضان بھٹی کی رپورٹ ہم لوگوں کو بھی بتائیں گے کہ اس شہر میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اخبارات کے ذریعہ پتہ چلتا ہے کہ کے پی ٹی اور ڈی ایچ اے شہر کی زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم فیصلے دیتے ہیں اور اسے کتابوں میں چھاپ دیا جاتا ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ ہم سائیکل کرایہ پر لیتے تھے لیکن اب تو صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ کراچی میں اسلحہ کرائے پر ملتا ہے۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اسلحہ کے ساتھ ساتھ بندہ بھی کرائے پر ملتا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کوئٹہ میں اتنی راشن کی دکانیں نہیں جتنی اسلحہ کی دکانیں ہیں۔ گذشتہ سال 47 اسلحہ ڈیلروں کو لائسنس جاری کئے گئے۔ زمزمہ میں اینٹی ایئر کرافٹ گن جیسے مہلک ہتھیار کیسے فروخت ہو رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ شہر میں اسلحہ کی فروخت کے لئے آن لائن سسٹم بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی سے استفسار کیا کہ کراچی میں کتنے اسلحہ ڈیلرز موجود ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ بھر میں 401 اسلحہ ڈیلرز موجود ہیں جبکہ کراچی میں 205 اسلحہ ڈیلرز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلحہ فروخت کرنا بھی بہت بڑا بزنس بن چکا ہے۔ حکومت اس کی روک تھام کے لئے مؤثر اقدامات کرے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کمشنر کراچی سے کہا کہ شہر کی زمین جو کہ حکومت سندھ کی ملکیت ہے وہ کے پی ٹی، ڈی ایچ اے اور دیگر اداروں کے قبضے میں ہے۔ اسے چھڑانے کے لئے مؤثر اقدامات کئے جائیں۔ کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے پاس محدود اختیارات ہیں۔چند ایک زمینوں کے قبضے کے کیس سندھ ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں۔ ہم اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان تمام اداروں سے رابطے میں ہیں۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے ولی بابر کیس کے گواہوں کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ 92ء اور 96ء آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسر چن چن کر مار دیئے گئے، قاتل کدھر ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود اس کیس کے گواہوں کو تحفظ کیوں فراہم نہیں کیا گیا۔ دن رات کہا جاتا ہے عدالتیں فیصلے نہیں کرتیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گواہوں کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ گواہوں کو تحفظ کے لئے ولی بابر کیس کے گواہوں کے قاتل پکڑکر دکھائیں۔ چیف جسٹس نے یہ سوال بھی کیا کہ گواہوں کو کون کون سے علاقوں میں قتل کیا گیا۔ گواہوں کا قتل بااثر افراد یا پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ آئی جی صاحب بتائیں کہ آپ کے اپنے پولیس والوں کے قاتل کیوں نہیں پکڑے گئے؟ اگر پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کو پکڑ لیا جاتا تو آج پولیس کا مورال بلند ہوتا۔
    http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2013-09-20/page-1/detail-32
     

اس صفحے کو مشتہر کریں