1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچہ جگت باز

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏1 جون 2011۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارا بچّہ جگت باز اب ایک ایسے پرندے کی طرح ہے جو اپنی بساط سے اونچی اڑان کے شوق میں رہی سہی قوتِ پرواز بھی کھو بیٹھا ہے اور اب کسی چھوٹی سی پہاڑی پر ڈیرہ جمائے، بلند آوازمیں اپنے معصوم ہم جنسوں پر کامیاب پرواز کا رعب گانٹھ رہا ہے۔ یہ عبیداللہ علیم کی زندگی کے اس دور کا تذکرہ ہے جب اُس کی نام آوری کا سورج تقریباً ڈوب چکا تھا اور وہ ’’چاند چہرا ستارہ آنکھیں،، کے لیے دیکھے گئے خواب فراموش کرکے ’’سرائے کا دیا،، کی بجھتی ہوئی لَو پر نظریں جمائے ،اپنے اندر کے طلاطم پر بند باندھنے کے جتن کر رہا تھا۔ اُن دنوں عبیداللہ علیم کو دیکھ کے مجھے بے طرح اُس کمہار کی یاد آتی، جس نے اپنی مہارت کے زعم میں چاک اٹھا پھینکا تھا اور پھر اپنی اس بھول کی تلافی کے لیے اُسے اپنی انگلیاں قلم کرنی پڑی تھیں۔ علیم بھی اسی سے ملتی جلتی بپتا سے دوچار ہوا اور ہم سب کو ایک بھرپور شخصیت کے بکھرنے کے المناک تجربے سے گزرنا پڑا۔
    ہوا کچھ یوں کہ ابھی علیم کے کام اور نام کا پھریرا لہرایا ہی تھا کہ سلیم احمد ایک مضمون میں اِس بانکے شاعر کے امکانات پر کلام کر بیٹھے اور خوش گمانی کے آزار نے ہمارے ممدوح کو جیسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم نے دیکھا کہ ہمار ابچّہ جگت باز اپنے اوسان کھو بیٹھا ہے۔ ہر گذرتے لمحے کے ساتھ بگاڑ تھا کہ بڑھتا جاتا تھا، آواز تھی کے بلند سے بلند تر ہوتی جاتی تھی، چال تھی کہ جیسے کوئی رقاصہ ابھی ابھی اپنی بے حد کامیاب پرفارمنس کے بعد اسٹیج سے اتری ہو یا جیسے کوئی اپنے ظرف سے زیادہ پی گیا ہو اور اب اُس سے اپنے قدم سنبھالے نہ سنبھل رہے ہوں اور مسکراہٹ تھی جیسے کوئی دانا ،کم فہموں میں آبیٹھا ہو اور اب اُن کی ناسمجھی سہاررہا ہو اور آنکھیں سُو اُن کا کیا کہنا... اپنے اردگرد بکھرے ’’بونوں،، کے لیے اُن میں رعونت، فخر اور غرور کے رنگ جیسے آپس میں گھلے ہوئے ہوں۔ خود پسندی آدمی کو آئینے کے سچ سے محروم کر دیتی ہے اور وہ آخری سانس تک اپنے بگڑے ہوئے خدو خال سے بھلا رہتا ہے۔ عبیداللہ علیم کے وجود سے نشر ہوتے ہوئے ناگوار سگنلز، علیم کے آس پاس کی فضا کو مسموم کر رہے تھے۔ علیم ایک عالمِ بدمستی میں اپنے اردگرد کی ہر مددگار اور خیر خواہ آواز کو بری طرح نظر انداز کررہا تھا ، آہستہ آہستہ ہر طرف اُس کے لیے ایک عام ناپسندیدگی جڑیں پکڑ رہی تھی۔
    اُس کی شریکِ زندگی سانولی سلونی انوپا (صفیہ حیدر) جسے اُس نے بڑی چاہ سے اپنایا تھا۔ اُس کے غیر متوازن رویئے سے اوّل بددل اور پھر متنفر ہوچکی تھی اور پھر ہم نے سنا یہ تعلق کچّا گھروندا ثابت ہوا ۔ حیران کن امر یہ تھا کہ علیم کے دوست اب بھی اُس کے حوالے سے بے حد خوش امید تھے اور اُن میں وہ کسی محبوب کی طرح مقبول تھا۔ وہ سخن ساز نصیر ترابی ہوں یا شاعر دلنواز اطہر نفیس، جون ایلیا ہوں یا جمال احسانی، فراست رضوی ہوں یا شاہد حمید، شاعر زرخیز ثروت حسین ہوں یا فسانہ طراز صغیر ملال، سب ہی علیم کی جگت بازی، خوش مزاجی اور مصرعے کی کاٹ کے معترف تھے۔اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ علیم دوستوں کے لیے ریشم اور دشمنوں کے لیے تیر، تلوار کی طرح تھا۔
    یہ عبیدا للہ علیم کی ’’بلند قامتی،، کا درمیانی دور تھا۔ جب مجھے اُس سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔ میں ایک بے روزگار، گمنام سا شاعر اور خاکہ نگار، جس کا اعتماد بوجوہ متزلزل تھا اور علیم ٹیلی وژن کا سینئر پروڈیوسر اور معروف شاعر ، میں نے اُس کے مزاج کے تلون اور تیزی کے حوالے سے بھی بہت کچھ سن رکھا تھا۔ مجھے اعتراف ہے کے ا ِس کے بڑے سے کمرے میںداخل ہوتے ہوئے میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ اس ملاقات کی بنیاد کس نے ڈالی تھی اور میں کس کا دامن تھام کر اس جادونگری تک چلا آیا تھا؟ اس کمرے میں شاید اور لوگ بھی تھے لیکن مجھے تو بس ایک شخص ہی یاد ہے ،جو لگتا تھا پورے منظر پر چھایا ہوا تھا ... یہ تھا عبیداللہ علیم ... لمبا چوڑا قد، زردی مائل اجلی رنگت، لانبے لانبے سیاہ بال اور چوڑا سا روشن ماتھا، جس سے اُس کی ظفر مندی عیاں تھی اوربڑی بڑی چکرمکر کرتیں الق بلق آنکھیں، جن سے ذہانت اور محبت چھلکی پڑتی تھی اور داہنے گال کی ابھری ہوئی ہڈی کے قریب ایک بڑا سا سیاہ مسّا اور بھرے بھرے ہونٹ او ردانت زردی مائل سفید ،جن کی دیدہ ذیبی کو کثرت سگریٹ نوشی نے گہنادیا تھا اور مضبوط ٹھوڑی جو اُس میں ٹھاٹھے مارتے اعتماد پر دلیل تھی اور تیز تلوار سے زیادہ گہرا گھائو لگانے پر قادر ایک بے لگام زبان، کہ جو ایک بار اُس کی زد میں آیا تو پھر تمام عمر اپنے زخم چاٹتا پھرا اور لمبی گردن اور چوڑے کاندھے اور داڑھی اور بالوں کی طوالت کو میں نے کسی کم زور عقیدے کی طرح گھٹتا بڑھتا نظارہ کیا اور کسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا مزاج، اور شاعری علیم کا عشق اور جگت بازی وجہِ افتخار ٹھہری ... وہ ناپسندیدہ افراد کو جملوں کی مار، مار کے عجب طرح کا حظ اٹھایا کرتا تھا اور پھر کتنے ہی دن تک اُس کا کمرا ان جملوں کی باز گشت سے گونجتا رہتا۔
    عبیداللہ علیم، جگت بازی کے بہائو میں بہہ کر اکثر وہاں تک جا پہنچتا جہاں لطیف اور کثیف کا فرق مٹ جایا کرتا ہے۔ میر اخیال ہے کہ بے دھڑک جملے چسپاں کرنے کے شوق نے ہمارے جگت باز کو خاصا گھاٹے میں رکھا۔ خواجہ مرحوم کے حوالے سے کہے اُس کے ایک جملے نے بہت شہرت پائی ۔ مجھے تعجب ہے کہ اِس واقعے کے تین دہائیاں گزر جانے کے باوجود وہ جملہ آج تک لوگوں کے دلوں میں ترازوہے۔ حالاںکہ اب نہ جملہ کسنے والا رہا اور ناہی وہ جس پریہ جملہ کسا گیا۔ اورمجھے باور آیا کے کبھی کبھی آپ کا کہا ہوا لفظ آپ کے سائے میں گھل مل جاتا ہے، بلکہ یہاں تک کہ کبھی کبھی وہ آپ کی قبر کا کتبہ تک بن جایا کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علیم کے اچانک پس منظر میں چلے جانے اور اُس کی شہرت غارت کردینے میں اُس کے اس جملے نے ایک نہایت اہم کردار ادا کیا۔ دائرہ ادب میں شامل ہمارے وہ بزرگ جو صاحبِ حیثیت اور شہرت کے مالک ہیں، اُنھوں نے ایک مضبوط لابی تشکیل دے کر اپنی قوّت کو دوچند کر رکھا ہے اور کیوں کہ یہ لوگ ادب میں سیاہ سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اِس لیے مارے تنک مزاجی کے وہ ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے، جب کبھی اِن میں سے کسی ایک پر حملہ کرنے کی جسارت کی جاتی ہے تو ان سبھی کو اپنا اقتدار خطرے میں پڑا محسوس ہونے لگتا ہے اور یہ سب یکجا ہوکے ’’باغی‘‘ کے خلاف کمر کس لیتے ہیں۔عبیدال لہ علیم جیسے لوگ حملہ کرنے میں تو شدّت دکھا سکتے ہیں مگر اپنی بے نیازی اور بے پرواہی کے سبب اپنے دفاع سے غافل ہوجاتے ہیں اور نتیجہ؟ عبیداللہ علیم کی مٹّی میں ملتی شہرت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ گروہ کس قدر کینہ پرور ہے اِس کا اندازہ مجھے اُس دن ہوا جب ایک تقریب میں اسی قبیل کے ایک بزرگ اور معروف بزرگ شاعر اور اردو کے جاں نثار اور خواجہ مرحوم کے یارِ غار نے رازداری کے انداز میں مجھ سے فرمایا کہ اگر علیم کی مخالفت میں کسی نے کچھ کہا ہے تو کیا ہوا، اُس نے کس کی پگڑی نہیں اچھالی؟ اب غالباً اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں رہی کہ علیم نے جگت بازی کے ولولے میں اپنے گرد کتنی دیواریں کھڑی کیں ... جی تو تذکرہ ہورہا تھا علیم سے میری پہلی ملاقات کا ...
    یہاں گمان تویہی ہورہا ہوگا کہ میں اپنے قصّے لیے بیٹھا ہوں لیکن یقین جانیے ایسا ہے نہیں ... میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ نادرِ روزگار شخص، غیر اہم اور گمنام دوستوں سے بھی کس درجے فراخ دلی سے پیش آیا کرتا تھا۔ ہم کئی دوست علیم کے ساتھ کھانا کھانے نکلے تھے ،اچانک میں نے سنا کہ کوئی میری تازہ غزل کا تذکرہ علیم سے کر رہا ہے ، میری وہ غزل سننے کے لیے علیم کا اشتیاق اور للک حیران کن تھی ،اور پھر اشعار کی سماعت کے دوران اُس کا تقریباً دیوانگی کے عالم میں اظہارِ پسندیدگی اور پھر مصرعوں کو بار بار دہرانا ... یقین کیجیے وہ غزل سنادینے کے بعد گویا مجھ میں ایک نئی زندگی دوڑ گئی۔ہم کھانا کھا کے علیم کے کمرے میںپلٹے ہی تھے کہ میں نے دیکھا، علیم فون پر افتخار عارف سے میرا تذکرہ کچھ اس انداز میں کررہا ہے جیسے اُس نے کوئی بڑا شاعر دریافت کرلیا ہو ۔ علیم عجیب باغ و بہار شخصیت کا مالک تھا، کھانا کھانے کے لیے ہوٹل جاتے ہوئے لوگوں اور ارد گرد کی چیزوں پر اُس کے دل چسپ تبصرے اور آموں کا ایک نسوانی حصہ سے مماثلت کا حوالہ ...یہ دن میری زندگی کا دل چسپ ترین دن تھا۔
    مجھے یاد ہے ایک تنقیدی نشست میں جس کی صدارت علیم کررہا تھا ،جب میرے شعر پر ایک بزرگ شاعر نے نامناسب تنقید کی تو علیم اپنے منصب کو بھلا کے جیسے آپے سے باہر ہوگیا اور مار دھاڑ پر اتر آیا۔ یہ دوستوں کے تعلق سے علیم کا عمومی رویہ تھا اور یہی وہ چیز تھی جس نے اُسے دوستوں کا محبوب بنا رکھا تھا ،لیکن اُس کی اسی محبت نے بہت سے دوستوں کو خراب بھی کیا، کیوں کہ جسے بہکنا ہو اُسے تو محض ایک بہانہ درکار ہوتا ہے۔ سُو علیم کے اس طرح کے والہانہ پن نے کتنے ہی ناسمجھ نوجوانوں کو برباد بھی کردیا، محض نوجواں دوست ہی نہیں ،علیم نے کئی ناسمجھ اور جذباتی لڑکیوں کی زندگیاں بھی تباہ کیں۔ علیم کی مردانہ وجاہت، شہرت اور خوش مزاجی لڑکیوں پہ جادو کا سا اثر کرتی اور ہم دیکھتے ہیں کہ علیم کے خواتین سے عشق اور ناکام شادیوں نے بڑی شہرت پائی۔
    میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ علیم کو شاعری سے عشق تھا، لیکن اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ پورا سچ نہیں ہے، کیوں کہ آدمی ایک وقت میں شاید کسی ایک چیز ہی سے محبت کرسکتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ علیم شاعری سے گہری وابستگی رکھتا تھا لیکن عشق تواُسے بس اپنی ذات ہی سے تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیسا عشق تھا کہ وہ تمام زندگی خود اپنے خلاف ہی صف آرا رہا۔ تو جناب اِس ظالم عشق کی پیچیدگیوں اور اسرار کس نے سمجھے کہ غریب علیم سمجھ سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علیم نے تمام عمر خود کو بھلائے رکھنے کا ہر ممکن جتن کیا۔ محفل آرائیاں کیں، شہزادِہ شب کہلایا، ہر طرح کے نشے کو آزمایا، دشمن بنائے اور اُنھیں کمزور کرنے کی منصوبہ بندیاں کیں اور عشق کیے اور شادیاں کیں، لیکن اُس کی ایک نا چلی۔
    اُس کے اندر کی وحشت تھی کہ بڑھتی ہی جاتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ علیم کے اندر تمام زندگی ایک پیکار مچی رہی۔ ایک شور و غل ... ایک ہنگامہ ... علیم کی آواز تھی کہ بلند سے بلند تر ہوتی جاتی تھی، یہ اندر کے شور کو دبانے کی ایک غیر شعوری کوشش بھی کہی جا سکتی ہے۔ شاید اُسے اپنے آپ سے خوف آنے لگا تھا، علیم کے ساتھ رات دن گزارنے والے جانتے ہیں کہ علیم ہر دَم اپنے بلند آہنگ قہقہوں سے محفل کو گرمائے رکھتا تھا۔ یہ قہقہے محض حاضرین کی دلبستگی کا سامان ہی نہیں تھے بلکہ یہ ایک طرح کا خود علیم کا اپنا علاج بھی تھا، کیوں کہ اگر آدمی کے اندر شور برپا ہو تو اسے دبانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
    1 عبیداللہ علیم کی زندگی اجتماع ضدّین سے عبارت کہی جاسکتی ہے۔ نہایت حلیم الطبع اور بے حد مہلک، انتہائی درجے کا محبت کرنے والا اور بے حد سفاک، دوست ایسا کہ جان سے گزر جائے اور دشمن ایسا کہ جان لینے میں دیر نہ لگائے۔ شہر میں کتنے ہی لوگ تھے جواُس کی زبان کے گھائو لیے پھرتے تھے اور ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں جنھیں اُس کی یہی زبان ہر ساعت جیسے ایک سرشاری کے عالم میں رکھا کرتی۔میں نے اکثر دیکھا کے جب وہ اپنے بے تکلف دوستوں کے درمیان ہوتا تو غیبت و بہتان کی لونڈیوں اور لڑکیوں کی چٹخارے بھرتی لذیذ کہانیاں، اُن سب کے بیچ اٹھلاتی پھرتیں اور کبھی کبھی شاعری بھی ، آخر آخر شاعری سے علیم کا سلوک عجب سوتیلے پن کا سا ہو گیاتھا۔ جیسے اُس نے جان لیا ہو کہ شاعری زیادہ دیر تک اُس کاحلیف نہیں رہ سکتی۔ اب اِن محفلوں میں علیم سے زیادہ دوسروں کے اشعار کی گونج سنائی دیا کرتی۔ میرا خیال ہے کہ یہ رویہ بھی اُس کی اپنی ذات سے بے پناہ محبت پر دلالت کرتاہے، کیوں کہ دوسروں کی نفی دراصل اپنے اثبات کی ایک غیر صحت مندانہ اور ناتواں کوشش ہوتی ہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب علیم نے نوخیز اور کچّے پکّے شاعروں کے لیے ’’عظیم شاعر‘‘ کی اسناد کے اجرا کا آغاز کیا۔ ایک عجب دھما چوکڑی تھی، کہ نہ کچھ سمجھ میں آتا تھا اور نا ہی سنائی پڑتا تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جب چراغ بجھنے کو ہو تو بہت زو رسے بھڑکتا ہے۔
    جن دنوں ٹیلی وژن پر عبیداللہ علیم کا طوطی بولتا تھا، اُن دنوں اُس کی شان دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ علیم کا کمرا شہر بھر کے ’’بونے‘‘ شاعروں، انا کو گرمادینے والی داد و تحسین، سگریٹ کے دہویں، چائے کی پیالیوں اور ہم عصر شاعروں کے خلاف جاری کیے جانے والوں فتوئوں سے بھرا رہتا ،اور ہمارا ممدوح جو اس محفل کا دولہا ہوتا، اپنی بیمار انا کے لیے روگ اکٹھا کرتا رہتا ۔ جب رات گئے یہ محفل برخاست ہوتی تو بھائی علیم کی گردن کا ایک آدھ اسپرنگ اور گم ہوچکا ہوتا۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ علیم کے لیے گردن جھکا کے زمین دیکھنا تک محال ہوگیا، جب آدمی زمین سے رشتہ منقطع کرلے تو اُس کا توازن کسی بھی وقت بگڑ سکتا ہے ، ہم نے دیکھا کے ایسا ہوکے رہا اور ہمیں اِس کہاوت کی سچائی پر ایمان لاناہی پڑا کے دھوبی کا کتّا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔
    مجھے یاد ہے کہ جس دن حکومت نے قادیانیوں کو مرتد قرار دیتے ہوئے غیر مسلم قرار دیا تو اُس کے دوسرے ہی روز جب علیم ٹیلی وژن آیا تو اتفاق سے میں بھی وہیں موجود تھا۔ میں نے دیکھا اُس کے ہاتھ میں بھنے ہوئے چنوں کا پُڑا تھا (السر کی وجہ سے علیم اکثر چنے کھایا کرتا تھا) اور ہونٹوں پر زہر آلود مسکراہٹ، دروازے میں داخل ہوتے ہوئے اُس نے بے حد طنزیہ آواز میں کہا ... بھائی مسلمانوں! السلام وعلیکم۔ وہاں سب علیم کے دوست کھڑے تھے، میں اُس کے رویے پر چکرا سا گیا، لیکن جلد ہی جب اس کی وجہ میری سمجھ میں آئی تو میں اپنی بے خبری پر حیران بھی ہوا ... اچھا تو علیم قادیانی ہے؟ لیکن یہ ایک لمحاتی تاثّر تھا۔ ہم سب نے نا پہلے اِس بات کو کوئی اہمیت دی تھی نا بعد میں اِس سے ہمارے تعلق پر کوئی فرق پڑا، جلد ہی ہم سب کچھ بھول کر باہم شیر و شکر ہوگئے۔
    علیم کی ناکامی کے حوالے سے یہ قیاس غلط ہو گا کہ وہ ایک سادہ سپاٹ آدمی تھا جناب! ہمارا بچّہ جگت باز چار کھونٹ چالاک واقع ہوا تھا، لیکن اگر آدمی گرفتارِ انا ہو تو اپنی ذات کے حوالے سے وہ کسی بھی وقت اندازے کی غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہے ،اور علیم سے بھی ایسی ہی سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اُس نے اپنی شاعرانہ حیثیت اور شہرت کے بارے میں بے حد غلط اندازے قائم کیے اور اِس وسواس میں مبتلا ہوگیا کہ وہ بے مثال تخلیقی صلاحیت کا مالک ہے اور جب، سلیم احمد صاحب نے اپنے مضمون میں اُس کی شاعری کے امکانات پر بات کی تو جانیے کہ وہ اپنے اوسان سے ہی جاتا رہا اور ہمیں اپنے چاروں طرف بکرے منمناتے سنائی دینے لگے۔ بلاشبہ وہ اوسط سے بہتر درجے کا شاعر تھا ،لیکن شہرت آدمی کو ہلاک بھی تو کرسکتی ہے۔
    پہلا شاعر میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
    یہ ایک مصرعہ ہی علیم کی سائیکی کو سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے۔ مجھے تو حیرت اِس بات پر ہے کہ علیم نے کس دل سے میر صاحب کو اپنے سے اوّل گردانا؟ شاید یہ کسر نفسی کا کوئی لمحہ تھا یا پھر کوئی ایسا بھید جو علیم جیسے ’’پہنچے‘⠠?? ہوئے لوگوں پر ہی کھلتا ہے۔ علیم کے اس مصرعے سے زیادہ مجھے اُن لوگوں کے ردِّعمل پر تعجب ہے جنھوں نے دیوانے کی اِس بڑ پر اِس قدر واویلا مچایا... کون نہیں جانتا کہ چھوٹے منہ سے اتنی بڑی بات کوئی غیر متوازن شخص ہی کہہ سکتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ مصرع کہا ہی اس لیے گیا تھا کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو اور اس بہانے ہمارے ممدوح کی ذاتِ گرامی موضوعِ بحث ٹھہرے۔ بہرحال مجھے علیم کی ذہانت پر کبھی بھی شک نہیں رہا۔ ظاہر ہے ایسا آدمی اپنے آپ کو گفتگو میں رکھنے کے سو ہنر جانتا ہے یعنی
    تدبیر کچھ تو بہر خرابات چاہیے
    }علیم اُن لوگوں میں سے ہے جو شاعری، عشق اور صحراکو پوری دیانت داری سے اختیار کر ہی نہیں سکتے۔ یہ تینوں چیزیں ایک مخصوص دیوانگی کی متقاضی ہوتی ہیں اور علیم ٹھہرا ایک ہوش مند و ہوشیار ... اب ظاہر ہے اگر شاعری میں محض شہرت ہاتھ آئے، عشق میں ڈھ جانے کا خدشہ ہو اور صحرا میں محض پیاس اور آبلہ پائی، تو یہ سب اختیار کرنے کا فائدہ؟ اور جس کام میں ’’فائدے‘⠠?? کی امید نہ ہو اُس سے علیم کا کیا لینا دینا۔ وہ ایک کھرا آدمی ہے، شعر لکھے تو شہرت اورمنفعت کے لیے، عشق کیا تو اس التزام کے ساتھ کہ ہوش ٹھکانے پہ رہے اور صحرا ... تو اُس غریب میں اتنی وسعت کہاں کہ اِن جیسوں کی وحشت سہار سکے۔
    ابتدا میں کہ جب اُس میں سچ قبول کرنے کا حوصلہ تھا اور وہ اپنی یکتائی پرایسا اٹل ایمان نہیں لایا تھا تواُس نے بہت سے یادگار اشعار لکھے اور اپنی غزلیں خوش گلو اور خوش شکل خواتین کی آواز میں ریکارڈ کرواکے خوب داد سمیٹی اور مشاعروں میں بھی خوب خوب رنگ جمائے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شہرت کی دیوی بھی اُس پر مدّت تک مہربان رہی۔ مجھے علیم کے مخالفین کی اس بات میں زیادہ صداقت نظر نہیں آتی کہ علیم کی شہرت میں اُس کی اپنی ہنرمندی کم اور ساز و آواز کی جادوگری کا زیادہ دخل تھا۔ لیکن یہ تو میں بھی تسلیم کرتا ہوں کے جیسے ہی علیم اور اُس کے ہم نوائوں نے میدانِ شعر و ادب میں نئی کامیابیوں کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ بھائی علیم کے ننھے منے چراغ کی لَو تھرتھرانے لگی اور وہی راستا جو ابھی کل تک خاصا گل و گلزار نظر آتا تھا ،یکایک تیور بدلنے لگا۔ یہ اِس مزاج کے لوگوں کا خاصا ہوتاہے کہ اُن میں ناکامی سہارنے کا حوصلہ ذرا کم ہوتا ہے۔ اپنی ناکامیوں کے ردِعمل میں علیم نے اپنے ہر اول دستے کے ہمراہ دنیا بھر سے مخالفت کے لیے کمر کس لی۔ لیکن یہ بھی بس چند روز کا تماشا تھا۔ جوں ہی علیم نے ٹیلی وژن کی سینئر پروڈیوسری کو الوداع کہا، اُس کے ہمراہیوں کی بھیڑ چھٹنے لگی۔ اب بچّہ جگت باز تھا اور اُس کے تنہا معرکے ، آدمی خواہ کتنا ہی مشّاق کیوں نہ ہو ، چومکھی لڑتے ہوئے زخم تو آتے ہی ہیں۔ شہر بھر کی چھوٹی بڑی ادبی محافل اچانک اکھاڑوں میں بدلنے لگیں اور ظاہر ہے علیم ،جس کمال کا جملہ لگایا کرتا تھا اُس کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، لیکن اُس نے جس ہنر مندی سے یہ کھیل رچایا اِس کے لیے بڑی فنکاری درکار تھی اور ہمارے ممدوح کے کمالِ فن کا تمام دارومدار اُسی پینترے بازی پر تھا جسے اُس نے چالاکی، مکّاری اور اداکاری کے آمیزے سے کشید کیا تھا۔
    علیم کی زندگی کے آخری چند سال نسبتاً گمنامی میں گزرے، مجھے اِس بارے میں سوچ کر دکھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کسی ذہین آدمی کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھنا اچھا خاصا اذیت انگیز تجربہ ہے۔ میں نے سنا، اُس نے ایک اور شادی کرلی ہے اور نوجوان بیوی نے اُسے زنجیر کر رکھا ہے۔ پھر اطلاع ملی علیم نثر لکھ رہا ہے اور اپنے آئندہ سے خاصا پُرامید ہے (شاید اسی توقع پر علیم کے انتقال کے بعد اُس کی بیوی نے وہ کتابیں شائع بھی کرائیں لیکن ....) لفظ ساتھ چھوڑ دے تو آپ اُسے چاہے جس تیور سے لکھیں وہ خوشبو نہیں دیتا۔ اپنے گرد نہایت محنت اور ذہانت سے لگائی گئی آگ نے جلد ہی میرے دوست علیم کو جھلسا کر رکھ دیا اور اُسے سماعتوں اور یادداشتوں سے معدوم ہوتے دیر نہ لگی۔ کون جانے کل کلاں یہ وقت بھی آجائے کہ ُاسے کھوجنے کے لیے ہمیں ردّی کتابوں کے ڈھیر میں غوطے لگانے پڑیں کہ اب جو کچھ تھوڑا بہت وہ موجود ہے تو اپنی اُن کتابوں کی بدولت ، جنھیں فروخت کرنے میں بے درد روّی فروش بھی زیادہ سرگرم نظر نہیں آتا۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتا ہے۔ عبیداللہ علیم اُن لوگوں میں سے تھا جو زبان کے نیچے دفن کردیئے گئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

    بچہ جگت باز ... عبیداللہ علیم
    مصنف : ممتاز رفیق
     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بچہ جگت باز

    بہت خوب انتخاب ہے ،
     

اس صفحے کو مشتہر کریں