بچپن کا زمانہ ہوتا تھا خوشیوں کا خزانہ ہوتا تھا چاہت چاند کو پانے کی دل تتلی کا دیوانہ ہوتا تھا رونے کی وجہ نا ہوتی تھی ہنسنے کا بہانہ ہوتا تھا خبر نا تھی کچھ صبح کی نا شاموں کا ٹھکانہ ہوتا تھا دادی کی کہانی ہوتی تھی پریوں کا فسانہ ہوتا تھا پیڑوں کی شاخوں کو چھوتے تھے مٹی کا کھلونا ہوتا تھا غم کی زبان نا ہوتی تھی نا زخموں کا پیمانہ ہوتا تھا بارش میں کاغذ کی کشتی ہر موسم سہانا ہوتا تھا وہ کھیل وہ ساتھی ہوتے تھے ہر رشتہ نبھانا ہوتا تھا۔۔
کردیں بھائی جی۔۔ میری کون سا پرسنل ہے ۔۔ایسے ہی پڑھی تھی تو یہاں شئیر کردی۔۔ کیونکہ مجھے بھی بچپن کے دن بہت یاد آرہے تھے
بچپن کی یادیں امی کی گود اور ابو کے کندھے نہ روزگار کی سوچ نہ زندگی کے پنگے نہ کل کی فکر نہ مستقبل کے سپنے لیکن --!!! اب کل کی ہے فکر اور ادهورے ہیں سپنے مڑ کر دیکهو تو بہت دور ہیں اپنے -------- منزلوں کو ڈھونڈتے ہوئے کہاں کهوگئے ہم ؟ کیوں اتنی جلدی بڑے ہوگئے ہم ؟