1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچوں کا موٹاپا،والدین کی ذمہ داری تحریر : نجف زہرا تقوی

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بچوں کا موٹاپا،والدین کی ذمہ داری تحریر : نجف زہرا تقوی
    upload_2019-6-12_3-3-12.jpeg

    ایک زمانہ تھا کہ مرضِ قلب اور ذیا بطیس کی بیماری جوانی کا دور گزرنے کے بعد لاحق ہوتی تھی،لیکن بھلا ہو جدید طرزِ زندگی اور نئی نئی خوردنی اشیاء کا کہ اب یہ امراض بچوں اور نوجوانوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔برٹش میڈیکل جرنل کی حالیہ رپورٹ میں یہ تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ نوجوانوں میں فربہی پریشان کُن ھد تک تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ایک تہائی نوجوانوں کا وزن معمول سے زیادہ ہے اور دس فیصد سے زیادہ موٹاپے کی حد میں ہیں اور یہی موٹاپا ذیا بطیس اور امراضِ قلب کی جڑ ہے۔اس سلسلے میں والدین بھی کسی حدتک قصور وار ہیں۔

    اگر والدین اپنی آسانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اور اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ کر بچوں کو ان کی من بھاتی غذا کھانے دیںا ور گھنٹوں ٹی وی اور موبائل کے سامنے بیٹھا رہنے دیں تو اس کے لیے صرف بچوں کو ہی قصور وار نہیں گردانا جا سکتا۔غیر صحت بخش بلکہ مضرِ صحت غذا اور طرزِ زندگی کا الزام اکثر والدین ان تجارتی اداروں پر دھتے ہیں جو ان غذائی اشیاء کو خوبصورت اشتہاروں کے سہارے بچوں تک پہنچاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اکثر اشتہارات نہ صرف بچوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ والدین سے بھی ان کی عقل و شعور چھین لیتے ہیں۔

    اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اکثر اشتہاروں میں مشہور اور مقبول قومی اور بین االاقوامی شخصیتوں کے علاوہ ایسے اداروںکا بھی تعاون حاصل کیاجاتا ہے جو لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد ہوتے ہیں،تاہم والدین کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ،کیونکہ اب بازار میں بکنے والی کھانے کی چیزوں کے نفع نقصان اور صحت پر ان کے اثرات کے بارے میں لوگ پہلے سے زیادہ با خبر ہیں،نیز انہیں ورزش اور جسمانی سر گرمی کے فوائد اور ٹی وی یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنے کے مضر اثرات سے بھی خوب آگہی ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہمیں خود اور نہ اپنی اولاد پر قابو رہا ہے۔

    یہ بات واضح رہے کہ صحت بخش ،مقوی غذا اور ورزش سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ اس کا دماغی صحت پر بھی مثبت اثر پڑٹا ہے۔مطلب یہ ہے کہ ذہنی نشو و نما کے لیے بھی مناسب ورزش اور صحت بخش غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور بچوں کو یہ دونوں چیزیں فراہم کرنے کے سلسلے میں سرکاری،نجی تعلیمی اداروں اور والدین پر یکساں ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک برطانوی ماہرِ غذائیات کی رائے ہے کہ ہمیں بچوں کی کمر کی پیمائش پر خاص توجہ دینی چاہیے جس سے یہ پتا چلے کہ وہ جسم کے بالائی حصے میں کتنی چربی جمع کر رہے ہیں۔

    جسم کے بالائی حصے میں جمع شدہ چربی ہی حقیقتاً وہ چکنائی ہے جو آگے چل کر امراضِ قلب اور ذیا بطیس کا سبب بنتی ہے۔اس ماہر نے ورزش کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ بعض بچے مقدار میں کم کھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا وز ن کم نہیں ہوتاکیونکہ بچوں میں جسمانی سر گرمی یا ورزش کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ والدین کو اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا چاہیے ۔اگر وہ بچوں کی خاطر تھوڑا وقت نکالیں اور اپنی نگرانی میں انہیں کھیل کود کا موقع فراہم کریں تو صورتِ حال بہتر ہو سکتی ہے۔

    بچوں کی صحت کے حوالے سے کی گئی ایک اور تحقیق کے مُطابق ٹی وی ،کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچوں میں بھی ہائپر ایکٹیویٹی اور موٹاپے کے امرض میں مُبتلا ہونے کے امکانات دوسرے ہم عُمر بچوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔مائیں اپنی آسانی کو دیکھتے ہوئے گھر کا کام جلدی نمٹانے کے لیے بچوں کو ٹی وی پر کارٹونز وغیرہ لگا دیتی ہیں تا کہ وہ انہیں بار بار تنگ بھی نہ کریں اور مائیں اپنے کاموں سے فارغ ہو جائیں۔

    وقتی طور پر تو یہ طریقہ مائوں کے لیے مُفید ثابت ہوتا ہے مگر اس کے نتائج بہت خطر ناک ہو سکتے ہیں۔ٹی وی دیکھنے والے بچے اپنی پڑھائی پر کم توجہ دیتے ہیں۔لگاتار ٹی وی دیکھنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے کے باعث دماغ ہر وقت چُست رہنے لگتا ہے جس کا نتیجہ ہائپر ایکٹیویٹی سنڈروم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

    اس بیماری میں مُبتلا بچے نہ تو زیادہ دیر تک بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی توجہ کسی چیز پر مر کوز رکھ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا تعلیم پر سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور وہ بہت جلد منفی رجحانات کو اپنا لیتے ہیں۔ایسے بچے نہ صرف جسمانی بلکہ اخلاقی طور پر بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔مُضر صحت خوراک اور ٹی وی ،ویڈیو گیمز وغیرہ کی وجہ سے بچے نہ صرف جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی بُری طرح اُلجھ جاتے ہیں۔اس لیے والدین اور خاص طور پر مائوں کو چاہیے کہ جہاں تک مُمکن ہو بچوں کو کھانا گھر پر تیار کر کے دیں۔

    ان کی من پسند اشیاء میں اگر فاسٹ فوڈ شامل ہے تو بھی کوشش کریں کہ گھر پر تیار شُدہ بر گر اور سینڈوچز وغیرہ بچے کو کھانے کے لیے دیں اور آہستہ آہستہ ان میں گھر کے کھانے مثلاً سبزیاں،گوشت ،چاول او ر پھل وغیرہ کھانے کا شوق پیدا کریں۔اس کا طریقے کار بھی نہایت آسان ہے بچوں کے پسندیدہ کھانوں مثلاً بر گر وغیرہ میں سبزیاں شامل کر کے انہیں کھانے کے لیے دیں ۔اس طرح بچے کو صحت بخش چیزوں کا ذائقہ بھی پسند آنے لگے گا اور ساتھ بچوں کو ان کی افادیت سے بھی آگاہ کرتی رہیں۔مائوں کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گُزاریں تا کہ وہ تنہائی کا شکار نہ ہوں اور انہیں صحت کے لیے مُفید سر گرمیوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں