1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بندگی ۔۔۔۔۔ مولانا ابو الاعلٰی مودودی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بندگی ۔۔۔۔۔ مولانا ابو الاعلٰی مودودی
    ــ’’آسمانوں اور زمین میں جس قدر مخلوقات ہیں اور جو خدا کے پاس حاضر ہیں سب اسی کے ہیں اور اس کی عبادت سے سرتابی نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں۔ رات دن اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور کبھی اس سے کاہلی نہیں کرتے۔‘‘(انبیاء )۔
    بندگی یا فرماں برداری و اطاعت ہمیشہ اس قوت کے مقابلے میں کی جاتی ہے، جو بندگی کرنے والے پر قہر ،غلبہ، قدرت رکھتی ہواور بندے یا مطیع میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہ ہو۔ اس کی محدود شکل تو وہ ہے جو آقا اور نوکر کے درمیان ہم عموماً دیکھتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ وسیع تصور کیلئے سب سے زیادہ واضح مثال وہ بندگی ہے، جو رعایا اپنی حکومت کی کرتی ہے۔ حکومت کوئی مادی شے نہیں نہ ایک محسوس و مشاہد چیز ہے ایک نظام و ضابطے کی بندش ہے جس کا غلبہ لاکھوں کروڑوں آدمیوں پر ہوتا ہے۔ رعایا اس کے قانون پر طوعاً و کرہاً چلتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں، کسان اپنے کھیتوں میں اور مسافر دُور دراز جنگلوں میں، جہاں بظاہر حکومت کا زور جتانے والی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی، اس کے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس کے حدود و اختیار میں رہ کر جو شخص اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے اور زیادہ شدید نافرمانی کی صورت میں اس کے تمام وہ حقوق سلب ہو جاتے ہیں جو رعیت ہونے کی حیثیت سے اس کو حاصل تھے۔ اس لحاظ سے جس قدر لوگ کسی حکومت کی حدود میں رہتے ہیں اور اس کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں، ان کے متعلق ہم کہا کرتے ہیں کہ’’وہ فلاں حکومت کی فرمانبرداری و اطاعت کر رہے ہیں۔‘‘ اگر ہم ان الفاظ کی جگہ مذہبی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’’وہ اس کی بندگی و عبادت کر رہے ہیں‘‘۔
    اب اس تصور کو اور زیادہ وسیع کیجیے۔ پوری کائنات پر نظر ڈالیے: آپ دیکھیں گے کہ سارا عالم اور اس کا ایک ایک ذرّہ ایک زبردست نظام میں جکڑا ہوا ہے، اور ایک قانون ہے جس پر خاک کے ایک ذرے سے لے کر آفتاب عالمتاب تک ساری کائنات طوعاً و کرہاً عمل کر رہی ہے۔ کسی شے کی یہ مجال نہیں کہ اس قانون کے خلاف چل سکے۔ جو چیز اس سے ذرّہ برابر سرتابی کرتی ہے وہ فساد اور فنا کا شکار ہو جاتی ہے یہ زبردست قانون جو انسان، حیوان، درخت، پتھر، ہوا، پانی، اجسام ارضی اور اجرامِ فلکی سب پر یکساں حاوی ہے ہماری زبان میں ’’قانون فطرت‘ ‘یا ’’قانون قدرت‘ ‘کہلاتا ہے۔ اس کے ماتحت جو کام جس چیز کے سپرد کر دیا گیا ہے وہ اس کے کرنے میں لگی ہوئی ہے، ہوائیں اس کے اشارے پر چلتی ہیں، بارش اس کے حکم سے ہوتی ہے،پانی اس کے فرمان سے بہتا ہے، سیارے اس کے ارشاد سے حرکت کرتے ہیں۔ غرض اس تمام کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اسی قانون کے ماتحت ہو رہا ہے اور ہر ذرہ اسی کام میں لگا ہوا ہے جس پر اس قانون نے اسے لگا دیا ہے۔ جس چیز کو ہم زندگی اور بقاء کہتے ہیں وہ دراصل نتیجہ ہے اس قانون کی اطاعت کا، اور جس کو ہم موت، فنا اور فساد کہتے ہیں وہ درحقیقت نتیجہ ہے اس قانون کی خلاف ورزی کا۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شے جو زندہ اور باقی ہے، وہ اس قانون کی اطاعت کر رہی ہے اور کائنات عالم میں کوئی شے زندہ اور باقی نہیں رہ سکتی اگر اس کی اطاعت نہ کرے۔
    لیکن جس طرح حکومت کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کی اطاعت دراصل قانون کی اطاعت نہیں بلکہ اس حکومت کی اطاعت ہے، جس نے اپنے قہر و غلبے سے اس قانون کو نافذ کیا ہے، اور حکومت کا نظم و ضبط قائم کرنے کیلئے لا محالہ ایک حاکم، ایک مرکزی فرماں روا، ایک مقتدرِ اعلیٰ ہستی کا وجود ضروری ہے، بالکل اسی طرح قانون فطرت کی اطاعت بھی دراصل اس غالب و قاہر حکومت کی اطاعت ہے، جو اس قانون کو بنانے اور زور و قوت سے اس کو چلانے والی ہے، اور یہ حکومت ایک فرمانروا کے دست قدرت میں ہے جس کے بغیر اتنا بڑا عالمگیر نظام ایک لمحے کیلئے بھی نہیں چل سکتا۔یہاں اگر ہم قانونی لفظ’’ اطاعت‘‘ کو مذہبی اصطلاح ’’عبادت‘ ‘سے بدل دیں اور لفظ’’ حاکم‘‘ کی جگہ ’’ اللہ‘ ‘یا ’’خدا‘ ‘کا لفظ رکھ دیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری کائنات اور اس کی ہر ہر چیز اللہ کی عبادت کر رہی ہے اور یہ ایسی عبادت ہے جس پر ہر شے کے وجود و بقا ء کا انحصار ہے۔ کائنات کی کوئی شے اور مجموعی طور پر ساری کائنات، اللہ کی عبادت سے ایک لمحے کیلئے بھی غافل نہیں ہوسکتی، اور اگر غافل ہو جائے تو ایک لمحے کیلئے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔
    قرآن مجید میں اس’’ بندگی‘ ‘کو کہیں ’’عبادت‘ ‘سے تعبیر کیا گیا ہے، کہیں تسبیح و تقدیس سے، کہیں سجود سے، اور کہیں قنوت سے۔ چنانچہ جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں: ترجمہ ’’ میں نے جِن اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات 51:56)۔

    ایک اور مقام پر آیا،ترجمہ ــ’’آسمانوں اور زمین میں جس قدر مخلوقات ہیں اور جو خدا کے پاس حاضر ہیں سب اسی کے ہیں اور اس کی عبادت سے سرتابی نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں۔ رات دن اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور کبھی اس سے کاہلی نہیں کرتے۔‘‘(انبیاء 21: 19-20) پھر فرمایا ، ترجمہ ’’آسمانوں اور زمین میں جو چیز بھی ہے اللہ ہی کی تسبیح کر رہی ہے، اُس بادشاہ کی جو پاک، غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔‘‘ (الجمعہ 62:1)۔
    ایک اور مقام پر آیا، ترجمہ ’’کیا تو نہیں دیکھتا کہ جس قدر مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو پرندے پر پھیلائے اُڑ رہے ہیں سب اللہ ہی کی تسبیح کر رہے ہیں، سب اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں اور زمین و آسمان کی حکومت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور سب کو اسی کی طرف جانا ہے۔‘‘(النور24: 41-42) پھر فرمایا ،ترجمہ ’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب اسی کی تسبیح کر رہے ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے گیت نہ گاتی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔‘‘(بنی اسرائیل 17:44) ایک اور مقام پر آیا، ترجمہ ’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ سب اسی کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘(الروم30:26 ) پھر فرمان ہے ، ترجمہ ’’سورج اور چاند ایک حساب سے چکر لگا رہے ہیں، اور درخت اور تارے سجدے میں ہیں۔‘‘(الرحمن 55:5-6)۔
    ترجمہ ’’ کیا لوگوں نے خدا کی مخلوق میں سے کسی چیز کی طرف بھی نظر نہیں کی جن کے سائے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں؟ گویا اللہ کے آگے سربسجود ہیں اور اظہار عجز کر رہے ہیں۔ اور جتنے جاندار اور ملائکہ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور اپنے رب سے جو بالاتر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔‘‘ (النحل 16:48-50) ایک اور مقام پر آیا،ترجمہ ’’کیا تو نہیں دیکھتا کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، اور چاند اور سورج اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے نیک آدمی اور بہت سے وہ بھی جو اپنی نافرمانی کی وجہ سے مستحقِ عذاب ہو چکے ہیں سب کے سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔ ‘‘ (الحج22: 18) پھر فرمایا، ترجمہ ’’زمین اور آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں سب طوعاً و کرہاً اللہ ہی کو سجدہ کر رہی ہیں۔ ‘‘ (الرعد13:15)۔
    یہ عبادت، یہ سجود، یہ تسبیح، یہ قنوت، تمام جان دار اور بے جان، ذی شعور اور بے شعور چیزوں پر یکساں حاوی ہے، اور انسان بھی اس پر اسی طرح مجبور ہے، جس طرح مٹی کا ایک ذرہ، پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کا ایک تنکا۔ انسان خواہ خدا کا قائل ہو یا منکر، خدا کو سجدہ کرتا ہو یا پتھر کو، خدا کی پوجا کرتا ہو یا غیر خدا کی، جب وہ قانون فطرت پر چل رہا ہے اور اس قانون کے تحت ہی زندہ ہے تو لامحالہ وہ بغیر جانے بوجھے، بلا عمد و اختیار، طوعاً و کرہاً خدا ہی کی عبادت کر رہا ہے، اسی کے سامنے سربسجود ہے اور اسی کی تسبیح میں لگا ہوا ہے۔ اس کا چلنا پھرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب اسی کی عبادت ہے۔ چاہے وہ اپنے اختیار سے کسی اور کی پوجا کر رہا ہو اور اپنی زبان سے کسی اور کی بندگی و اطاعت کر رہا ہو، مگر اس کا رونگٹا رونگٹا اسی خدا کی عبادت میں مشغول ہے، جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس کا خون اسی کی عبادت میں چکر لگا رہا ہے، اس کا قلب اسی کی عبادت میں متحرک ہے، اس کے اعضاء اسی کی عبادت میں کام کر رہے ہیں، اور اس کی وہ زبان بھی جس سے وہ خدا کو جھٹلاتا اور غیروں کی حمد و ثنا ء کرتا ہے دراصل اسی کی عبادت میں چل رہی ہے۔

    بندگی کا صلہ:اس عبادت کا صلہ یا اجر خدا کی طرف سے کیا ملتا ہے؟ فیضانِ وجود ، رزق اور قوت بقاء۔ جتنی چیزیں خدا کے قانون پر چلتی ہیں اور اس کی بندگی کرتی ہیں، وہ زندہ اور باقی رہتی ہیں اور انہیں وہ وسیلۂ بقا ء عطا کیا جاتا ہے، جسے ہم اپنی زبان میں’’رزق‘‘کہتے ہیں اور جو چیزیں اسکے قانون سے انحراف کرتی ہیں ان پر فساد مسلط ہوجاتا ہے، ان کا رزق بند ہو جاتا ہے اور وہ فیضانِ وجود سے محروم ہو جاتی ہیں۔ یہ معاملہ کائنات کی ہر چیز کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس میں شجر و حجر، حیوان و انسان، کا فرو شاکر کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ ایک اور مقام پر فرمایا،ترجمہ ’’کوئی چیز زمین پر چلنے والی ایسی نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ اللہ ہرایک کے ٹھکانے سے بھی واقف ہے اور اس کے سونپے جانے کی جگہ بھی جانتا ہے۔‘‘ (ھود11:6) ۔
    ترجمہ ’’لوگو اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو زمین اور آسمان سے تم کو رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تم کدھربھٹکائے جارہے ہو؟‘‘ (فاطر 35:3)پھر ایک اور مقام پر فرمایا، ترجمہ ’’وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے مطیع و مسخر بنا دیا۔ پس تم اس کی پہنائیوں پر چلو اور پھر اس کا رزق کھائو۔‘‘(الملک 67:15) ترجمہ ’’ کون ہے جو مخلوقات کو اوّل بار پیدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ اور تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔‘‘ (النمل 27: 64)ترجمہ ’’ کیا یہ لوگ پرندوں کو نہیں دیکھتے جو ان کے اوپر پَر پھیلاتے اور سکیڑتے ہوئے اڑ رہے ہیں؟ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں جو ان کو سنبھالے ہوئے ہو۔ وہ ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے والا ہے۔ اور یہ رحمٰن کے سوا اور کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرتا ہے ؟ مگر کافر ہیں کہ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر اللہ اپنا رزق بند کر دے تو کون ہے جو تم کو رزق دے سکتا ہے؟ مگر کافر سرکشی اور سرتابی پر جمے ہوئے ہیں۔‘‘ (الملک 67: 19-21)اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح انسان اس بندگی میں دوسری اشیاء کے ساتھ مساوی ہے، اسی طرح اس بندگی کے اجر اور معاوضے میں بھی وہ ان کے ساتھ مساوی رکھا گیا ہے۔ انعام کی صورتوں کا فرق جو کچھ بھی ہے، دراصل استعداد اور حاجتوں کے فرق پر مبنی ہے لیکن صورتوں سے قطع نظر کرکے اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایک درخت، ایک جانور، ایک چڑیا، ایک گھاس کی پتی کی احتیاج و استعداد کے مطابق اللہ اسکی دیکھ بھال، خبر گیری، امداد و اعانت اور رزق رسانی کر رہا ہے اسی طرح انسان کی احتیاج و استعداد کے مطابق اس پر بھی انعام فرماتا ہے۔اس بارے میں انسان کو کوئی فضیلت ہے تو محض وہ صورتِ انعام کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقیقت ِ انعام کے اعتبار سے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں