1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بنتے، برستے بادل

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 اگست 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بنتے، برستے بادل
    [​IMG]
    یسرا خان

    آسمان پر بادلوں کی آمد کئی باربارش کا پیغام ہوتی ہے۔ ہمارے اوپر بلندی پر منڈلاتے یہ بادل بہت خوبصورت لگتے ہیں۔ خصوصاً بچوں کو جب ان میں بلی، کچھوا یا کوئی دوسری صورت دکھائی دیتی ہے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ البتہ مون سون میں بارش زیادہ ہو اور نکاسی کا انتظام ناقص تو مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیںجیسا کہ حال ہی میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گرم ہوا کے ذریعے پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے فضا میں اٹھتے ہیںاور بلند ی پر ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ یہ مل کر بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بادلوں کے سفید دکھائی دینے کا سبب سورج کی روشنی کا انعکاس ہے۔ سیاہ بادل پانی سے زیادہ بھر چکے ہوتے ہیں اس لیے ان سے روشنی منعکس نہیں ہوتی۔ نیزبہت زیادہ بادل اکٹھے ہو جائیں تو ان کا سایہ دوسرے بادلوں پر پڑتا ہے جس سے وہ گہرے نظر آنے لگتے ہیں۔ روئی کی طرح اڑتے بادلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہلکے پھلکے ہوں گے، مگر ہوتے نہیں۔ ایک اوسط دَل بادل (cumulus ) کا وزن لاکھوں کلوگرام ہو سکتا ہے جبکہ طوفانی بادلوں کا وزن کروڑوں کلوگرام تک ہو جاتا ہے جو فضا میں منڈلا رہا ہوتا ہے۔ ہے نا حیران کن! کچھ بادل برفیلے بھی ہوتے ہیں۔ یہ برف کے ٹکڑوں سے بنے اور زیادہ بلندی پر واقع ہوتے ہیں۔ یہ بسا اوقات بالوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔ ہمارے اردگرد پائی جانے والی دھند بھی بادلوں کی ایک شکل ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بادل بارش برساتے ہیں لیکن وہ زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس مظہر کو ’’وِرگا‘‘ کہا جاتا۔ اس کے سبب ایک خوبصورت منظر دیکھنے کو مل سکتا ہے جس میں آسمان رنگین ہو جاتا ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے بھی بادل وجود میں آتے ہیں۔ مثلاً جب ہوائی جہاز گرم اور مرطوب ہوا خارج کرتے ہیں تو بلند فضا کی انتہائی ٹھنڈی ہوا میں بادلوں کی لکیر سی بنتی جاتی ہے۔ البتہ یہ جلد ہی غائب ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ تحقیق سٹین فورڈ یونیورسٹی میں ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ہوائی جہازوں کے اخراج اور اس سے منسلک بادلوں کی تشکیل کا عمل دنیا کے درجۂ حرارت میں 0.03 سے 0.006 سینٹی گریڈ اضافے کا باعث بنا ہے۔ یہ 1850ء، جب سے درجۂ حرارت کا ریکارڈ رکھا گیا ہے، عالمی حدت میں اضافے کا چار سے آٹھ فیصد بنتا ہے۔ کچھ بادل اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اس کا تجربہ 2007ء میں پیراگلائیڈنگ کی جرمن چیمپئن ایواوسنیرسکا کو ہوا۔ وہ ابرِ مطیر (Cumulonimbus ) میں گلائیڈنگ کر رہی تھی کہ 32 ہزار فٹ کی بلندی تک کھنچی چلی گئی۔ اس بلندی پر کم آکسیجن ہونے کے باعث وہ بے ہوش ہو گئی اور تقریباً 23ہزار فٹ کی بلند پر اسے ہوش آیا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں