1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بلوچستان کا مسئلہ اور حکومتی لاپرواہی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از علی عمران, ‏31 جولائی 2009۔

  1. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    حالیہ دنوں میں بلوچستان کا مسئلہ جس شد و مد سے اٹھایا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے جیسے یہ وہی 1971 والی تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور جس طرح بلوچ حکمران ٹی وی ٹاک شوز میں آ کر شور مچاتے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے بلوچستان بس چند دن ہی پاکستان کے ساتھ رہے گا۔
    عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ تمام ایسے لوگ ہیں جنہیں خود بلوچستان کے حالات کے بارے میں مکمل علم نہیں۔ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ کبھی ڈیرہ بگٹی یا دوسرے علاقوں میں گئے ہیں تو ان کا جواب ہمیشہ نہیں کی صورت میں نکلتا ہے۔اور یہی حالت ہمارے میڈیا کی ہے کہ میڈیا پر شور تو مچایا جاتا ہے لیکن اصل صورتِ حال دکھانے کے لئے ان میں سے بھی کوئی وہاں جانے کو تیار نہیں ہوتا۔
    مجھے حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا یہ لوگ تو بس دولت کے حصول کے لئے ایوانوں میں آتے ہیں۔مجھے آج ان محبِ وطن بلوچ عوام کا ذکر کر نا ہے جنہیں کوئی ٹی وی ٹاک شوز میں نہیں دکھاتا جن کی کوئی نہیں سنتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
    مجھے بلوچستان کے ایک ایسے خاندان کا ذکر کرنا ہے جو انہیں شورش زدہ علاقوں میں رہتا ہے۔ یہ خاندان بھی بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ خاندان اتنا محبِ وطن ہےکہ پاکستان کی خاطر اپنے خاندان کے بہت سے لوگوں کی قربانی دے چکا ہے مگر آج بھی پاکستان کے لئے مزید قربانیاں دینے کو تیار ہے۔
    میری اس خاندان کے ایک فرد سے کوئٹہ میں ملاقات ہوئی۔اس شخص کا نام زین بلوچ ہے اور وہ کوئٹہ کے ایک کالج میں بی۔اے کا طالبِ علم ہے۔میری جب اس سے ملاقات ہوئی اور اس نے مجھے اپنا نام زین بلوچ بتایا اور تعلق بلوچستان کے شورش زدہ علاقے کشمور سے بتایا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں وہاں کے حالات سے شاید اس سے زیادہ واقفیت رکھتا تھا اس کی سوچ جاننے کے لئے اس سے باتیں شروع کر دیں۔
    میں نے اس سے پوچھا کہ وہاں تو پاکستان کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں۔پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے؟
    تو کہنے لگا ہاں یہ سچ ہے مگر یہ صرف چند لوگ ہی کر رہے ہیں اور انہیں انڈیا سے ایسا کرنے کے پیسے ملتے ہیں۔وہاں صرف پنجابیوں کی ہی نہیں ایسے بلوچ لوگوں کو بھی مار دیا جاتا ہے جو پاکستان کے حق میں ہوتے ہیں۔مگر وہ عام بلوچ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس ان لوگوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔
    میں نے پوچھا تو کیا تمام بلوچ ان کے ساتھ نہیں؟
    تو کہنے لگا نہیں بس وڈیرے اور سردار ہی یہ سب کچھ کروا رہے ہیں تاکہ انہیں حکومت سے بڑی بڑی مراعات ملیں۔جبکہ بلوچ عوام کو تو یہ وڈیرے اورسردار ان کی مجبوریوں کی بنا پر استعمال کر رہے ہیں۔ہم نے اپنے کالج میں بلوچ دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستان گروپ بنایا ہے۔جس میں بگٹی بھی شامل ہیں اور مری بھی،ہمارا خیال ہے کہ ہم پاکستان میں زیادہ آزاد ہیں۔اگر ہم انڈیا کے ساتھ مل گئے یا امریکہ کے ساتھ تو ہمارے وسائل تو پھر بھی وہ لے جائیں گے۔تب تو ہمیں کتوں سے بھی زیادہ بدتر زندگیاں بسر کرنی پڑیں گی۔مگر ہمارے دوسرے لوگ کمزور ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں کیونکہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
    میں نے کہا لیکن یہی سردار واویلا کرتے ہیں کہ بلوچستان ہاتھ سے نکل رہا ہے تمام بلوچ پاکستان کے خلاف ہو چکے ہیں؟
    تو اس نے کہا کہ اصل فساد کی جڑ ہی یہ بلوچ سردار ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے بلوچ عوام آج بھی پاکستان کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔اگر حکومت پاکستان عام بلوچ کو طاقت ور کر دے تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم ہر بیرونی طاقت کے دانت توڑ سکتے ہیں۔ وہاں کچھ سردار خود کو طاقت ور ثابت کرنے کے لئے بلوچ عوام کو استعمال کر کے تخریب کاری کرتے ہیں اور بلوچ عوام بے چارے ان طاقت ور سرداروں کے سامنے کچھ نہیں کر سکتے اگر وہ ان کی بات نہ مانیں تو ان کے خاندانوں کو مار دیا جاتا ہے اس لئے انہیں مجبورا یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔خود میرے خاندان کے کئی افراد کو اس جرم میں مار دیا گیا کہ ہم پاکستانی ہیں۔لیکن کیا وہ ہمیں مار کر پاکستان کو ہمارے دلوں سے نکال دیں گے؟۔نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ سچ ہے کہ انہیں انڈیا سے امداد ملتی ہے اور ان کے پاس اسلحہ بھی جدید ہے اور ہم کمزور مگر ہم مزاحمت کریں گے۔حکومت ہمارے ہاتھ مضبوط کرے عام بلوچ کو ہر سہولت دے تو پھر دیکھے کہ پاکستان کے لئے بلوچ کیا کچھ کر سکتا ہے۔مگر ہماری بات کوئی نہیں سنتا بس ایسے لوگوں کو سامنے لایا جاتا ہے جو واویلہ کرتے ہیں لیکن پھر وہی لوگ اسمبلیوں میں بیٹھ کر بڑی بڑی مراعات لے رہے ہوتے ہیں۔
    میں نے کہا اگر حکومت بات کرنا چاہے تو کن سے کرے؟۔کیا ان وڈیروں سے یا ان لوگوں سے جو تخریب کاری کر رہے ہیں؟۔
    تو اس نے کہا کہ بات وڈیروں سے نہیں ہونی چاہیے۔حکومت ان لوگوں سے بات کرے جو ان وڈیروں کے آگے بے بس ہیں۔انہیں تحفظ فراہم کرے انہیں اچھا مستقبل دے اب وعدوں کی بجائے صرف عمل کیا جائے۔تو یہ وڈیرے لاکھ انڈیا سے پیسے لے لیں بلوچ عوام کو لاکھ ڈرا دھمکا لیں ان کی ایک نہیں چلےگی۔
    اس سے بات کرتے ہوئے میرے خیالات مزید مضبوط ہوئے کہ بلوچ عوام واقعی بہت محبِ وطن ہیں اور ایسے محبِ وطن لوگوں کو صرف ان کے حقوق ہی نہیں اس سے بھی زیادہ کچھ ملنا چاہیے۔مگر حکمران تو بس اپنی ہی مستیوں میں گم ہیں۔ یہ لوگ بندوق بردار کو دیکھ کر بات کرتے ہیں عام آدمی کو مضبوط نہیں کرتے کہ وہ ان بندوق بردار ہاتھوں کے خوف سے باہر نکل کر ان کے ہاتھوں سے بندوق چھین لے۔
    بلوچستان کے تمام تخریب کار افغانستان میں فیملیوں سمیت مقیم ہیں۔اگر یہ لوگ پاکستان میں تخریب کاری کرنے سے انکار کرتے ہیں تو وہاں ان کی فیملیوں کو مار دیا جاتا ہے۔جبکہ کئی پکڑے جانے والے لوگ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ وہ وڈیرے کے ہاتھوں مجبور ہیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو یا تو انہیں کسی کیس میں پکڑوا دیا جاتا ہے یا ان کے گھر والوں کو مار دیا جاتا ہے۔
    اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم ہرگز یہ نہیں کہ سکتے کہ یہ 1971 والے حالات ہیں۔بلکہ صرف یہ کہنا چاہیے کہ حکومت کی کمزوری کی وجہ سے عام آدمی کو اتنا کمزور کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنا دفاع کر ہی نہیں سکتے۔یوں چند غنڈے ان لوگوں کو بندوق کے زور پر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
    پاک فوج کی جانب سے ایک بہت اچھا فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب بلوچ عوام کی ایک بڑی تعداد کو نہ صرف فوج میں بلکہ ایف۔سی اور دوسرے سکیورٹی اداروں میں بھرتی کیا جائے گا۔پاک فوج میں پہلے بھی بلوچ رجمنٹ اور دوسری رجمنٹس میں بلوچ سپاہی اور افسران پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔مزید بلوچ سپاہیوں کے آنے سے نہ صرف پاکستان کا دفاع مضبوط ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقوں میں بہترین طریقے سے امن کے قیام کے لئے بھی کوششیں کر سکیں گے۔
    اب اگر ساتھ میں حکومت بھی عملی اقدامات کرتے ہوئے عام بلوچ کو تعلیم،صحت،اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرے تو بہت جلد بلوچستان میں ان ملک دشمن عناصر کی کمر توڑی جا سکتی ہے۔
     
  2. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    حکومت کو آئے ہوئے ڈیرھ سال گزر گیا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت نے کوئی اچھا اقدام نہیں اٹھایا۔

    اگر ماضی کی طرف دیکھا جائے تو بلوچوں کے حق میں سب سے زیادہ پنجابی بولتے ہیں۔
    نواز شریف اپنے دور میں بلوچوں کو قومی دھارے میں لے آئے تھے۔
    آج بھی شاہ زین بگٹی نواز شریف، عمران خان، جماعت اسلامی کے ساتھ اکثر ملاقات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ سب بلوچستان کے حق میں بول رہے ہیں۔

    جبکہ بلوچستان کو سب سے زیادہ نقصان سندھیوں نے پہنچایا ہے۔ پرویز مشرف سندھی مہاجر ہیں، ذوالفقار بھٹو، زرداری سندھی ہیں۔

    پی پی انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ پی پی کو جان لینا چاہئے کہ بلوچستان اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے سونے کی چڑیا ہے۔ اگر خدانخواستہ بلوچستان علیحدہ ہوگیا تو گوادر بندرگاہ اور تیل وگیس کے ذخائر پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور پھر بھارت بلوچستان میں‌داخل ہوکر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرتا رہے گا۔
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    آپ کی باتیں پڑھ کر دل دہل جاتا ہے ، مگر سچ یہی ہے ،ہم بے حد ظالم اور سفاک ہیں ، اپنی نسلوں اور اپنی قربانیوں کو تہہ تیغ کر رہے ہیں ،
    صرف اور صرف سطحی سیاست کرکے ہم اپنے ملک کی ہر شاخ پر کلہاڑا چلا رہے ہیں کہ بطور ایندھن ہمارے باورچی خانہ کے کام آئے،
    یاد رہنا چاہیے "ہماری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں"اگر یہی ہمارا وطیرہ رہا، کاش ہم فصلی بٹیروں سے جان چھڑوا لیں ،
     
  4. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بے جی میری باتیں اس لئے تلخ اور دل دہلا دینے والی ہوتی ہیں کیونکہ میں حقیقت بیان کرتا ہوں۔جب تک چیز آنکھوں سے نہ دیکھ لوں آگے بیان نہیں کرتا۔
    میں نے القلم پر ایک مضمون لکھا تھا اوبامہ مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس میں لکھا تھا کہ یہودی لابی انہیں قتل کرنے کے لئے متحرک ہو چکی ہے۔اور اس کام کو بھی القاعدہ پر ڈال کر مسلمانوں پر مزید ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں گے۔اور یہ بھی کہ اگر امریکی انٹیلیجنس اس سازش کا توڑ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ ان کی بڑی جیت ہو گی۔کیونکہ امریکی انٹیلیجنس میں بھی یہودی لابی کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔
    اور آج میری اس بات کی تصدیق سی۔آئی۔اے کی رپورٹ نے کر دی کہ اوبامہ کو روزانہ 30 سے زیادہ قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔اور یونہی ایک دن اس دھمکی کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔
    خدا خیر کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دنیا جہاں بھی چلی جائے ہم لوگ جتنے بھی نکمے ہو جائیں مگر پاکستان کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہمارے بزرگوں کا خون اتنا بے رنگ نہیں تھا کہ وہ صرف 60 سالوں میں مدہم پڑ جائے۔۔۔۔۔یہ انشاء اللہ تا قیامت پھیکا نہیں پڑے گا۔اس لیے لوگوں کو مایوسی کی بجائے امید کے ساتھ پاکستان کے لئے جدو جہد کرنی چاہیے۔ان بے حس اور بے غیرت لوگوں کو دیوار سے دے مارنا ہو گا جو پاکستان کو بیرونِ ملک سے گالیاں دلوا کر بھی امداد کا کشکول لے کر خوشی سے بھنگڑے ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
    اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    عمران بھائی
    میں‌آپ کو ایک مثال دوں گا باقی خود سمجھ جائیں
    ایک شخص نے دن رات محنت کرکے بے شمار دولت، فیکٹریاں بنائیں اس کے مرنے کے بعد اس کی ساری جائیداد اس کے بچوں کے پاس چلی گئی۔ ان بچوں نے ساری دولت، فیکٹریاں عیاشی میں‌گنوادی اور کنگال ہوکربیٹھ گئے

    ہماری مثال بھی ایسی ہی ہے ہمارے بزرگوں نے پاکستان دیا اور ہم نے اسے کرپشن، لاقانونیت اور عیاشیوں کی نذر کردی۔ اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے تو آج ترقی یافتہ ہوتے۔

    ہم آدھا پاکستان تو اپنی کرتوتوں کی وجہ سے گنوا چکے ہیں باقی جو بچا ہے اسے سنبھالنا بوجھ لگ رہا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں