1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بلدیاتی اداروں کی روح کو ختم کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔ کنور دلشاد

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏4 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بلدیاتی اداروں کی روح کو ختم کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔ کنور دلشاد

    چیف جسٹس آف پاکستان نے مقامی حکومتوں کے بارے میں درست نشاندہی کی ہے کہ بلدیاتی اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت کو دینا آرٹیکل 140 اے کی خلاف ورزی ہے اور مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی چوائس نہیں آئینی ضرورت ہے۔ انہوں نے متعلقہ فریقوں اور رہنماؤں کو یہ بات بھی یاد دلائی کہ اختیارات کی بات کرتے ہوئے ذمہ داری اور احتساب کے پہلوؤں کو بہرطور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ۔اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ہمارے ہاں اداروں میں رابطے کا فقدان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کی روح کو یا تو سمجھا ہی نہیں جاتا یا دانستہ نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ وفاق میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے صوبائی سطح پر کسی ایک یا زائد مقامات سے یہ شکایات سامنے آتی رہتی ہے کہ وہ صوبوں کے اختیارات اور خود مختاری کا پوری طرح احترام نہیں کرتی۔ یہ گلہ بھی کیا جاتاہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں یا تو مقامی حکومتوں کے انتخابات سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں یا انہیں اختیارات دینے سے گریزاں رہتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس سے آئینی و انتظامی امور میں رہنمائی لیتے ہوئے کئی معاملات میں مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔ بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کا نظام دنیا میں جمہوریت کی نرسری کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ جس میں عام لوگوں کو اپنی بستی یا محلے کے لوگوں کو بطور نمائندہ منتخب کرنے میں آسانی رہتی ہے ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس نظام کو ایک خاص کائونٹی یا یونٹ میں پانی‘ سیوریج‘ صفائی‘ تعلیم‘صحت اور دوسری شہری سہولتوں کے اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں مقامی پولیس بھی شہری حکومت سے منسلک ہوتی ہے۔ وفاق‘ صوبوں اور مقامی حکومتوں کے ارکان اپنی اپنی حدود میں رہ کر آئین میں تحریر کردہ ذمہ داریاں ربط و ضبط سے ادا کریں تو یہی سسٹم ٹھیک چلتا رہتا ہے۔
    پاکستان میں مقامی حکومت کا نظام خاصا پرانا ہے‘ اس کی جڑیں تو قدیم سماج میں بھی موجود تھیں‘ مگر جدید مقامی حکومتیں بھی برطانوی دور سے چلی آ رہی ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں کی میونسپل کارپوریشنزکی تشکیل گزشتہ صدی میں ہوئی تھی ‘تاہم ان میں ارتقا قیامِ پاکستان کے بعد ہوا۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق نے انہیں ترتیب بھی دیا اور پروان بھی چڑھایا جبکہ صدر پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کا مثالی نظام قوم کو دیا‘ جسے صدر آصف علی زرداری نے وفاقی سطح پر اور شہباز شریف نے پنجاب میں مفلوج کردیا ۔لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے ہمارے ملک کا تجربہ تھوڑا منفرد ہے کہ جزوی معنوں میں تو آئین پاکستان اس سسٹم کو تحفظ فراہم کرتا ہے‘ تاہم اس کے تسلسل کی کوئی آئینی ضمانت نہیں ہے‘ لہٰذا جب غیر جمہوری حکمران آتے رہے تو انہوں نے لوکل گورنمنٹ کو پروان چڑھانے کی شعوری کوششیں کیں کیونکہ ہمارا لوکل گورنمنٹ سسٹم نہ صرف عوام کو کثیر تعداد میں متحرک کرتا ہے بلکہ ملک میں نئی سیاسی لیڈر شپ کا تعارف بھی کرواتا ہے ۔لوکل گورنمنٹ ہمارے ملک میں چھ ادوار سے گزری ہے‘ ہر دور میں ہمارے تجربات مختلف رہے‘ تاہم لوکل گورنمنٹ اداروں کا بنیادی فریم ورک ایک ہی رہا ہے۔عوام کی رہنمائی کے لیے مختصر پس منظر یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 32 میں جو کہا گیا ہے اُس کی رو سے مقامی حکومتیں منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوں گی۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق اس نظام کے لیے قانون سازی کرنے کا کہا گیا ہے۔
    پنجاب میں لوکل گورنمنٹ الیکشن رولز نافذ کر دیے گئے ہیں‘ ماضی کے لوکل گورنمنٹ انتخابات مخلوط طرز پر ہوتے رہے ہیں‘ اب کی بار ایسا ہوگا تو یہ کیسے ممکن ہوگا؟ انتخابی فہرست میں غیرمسلم شامل ہیں‘ اس لیے مردم شماری اور حلقہ بندی میں بھی غیر مسلم آبادی کی نشاندہی درکار ہوگی جو فی الحال الیکشن کمیشن کے پاس نہیں ہے‘ مگر الیکشن رولز میں الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ نادرا کی مدد سے غیر مسلم ووٹرز کی نشاندہی کرنا ہوگی‘ کیونکہ غیر مسلم ووٹرز غیر مسلم امیدوار کو ووٹ ڈالے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ غیرمسلم اپنے حلقہ میں جنرل سربراہ خاتون اور محنت کش نمائندے کو منتخب کرے گا تو اسے دو بیلٹ پیپرز ملیں گے‘ مگرالیکشن ایکٹ 2017 ء میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے اور الیکشن کمیشن اپنے رولز بنانے میں خود مختار ہے ‘تاہم بعد میں یہ ہونا چاہیے کہ ہر ووٹر اپنے حلقے کے غیر مسلم نمائندے بھی منتخب کرے۔ اس میں کیا حرج ہے ‘آخر ووٹر اپنے حلقہ میں خاتون کونسلر اور مزدور کسان کو بھی تو منتخب کرتا ہے ۔غیر مسلم کو منتخب کرنے سے الگ فہرستوں کی ضرورت ختم ہو جائے گی ‘اس طرح نامزدگی کی فیس کم کرنے کی ضرورت ہے اور انتخابی اخراجات کی حد پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔
    بین الاقوامی جمہوری طریقہ کار کے مطابق اچھی حکمرانی کی اہم شرط ایک نمائندہ‘ مؤثر اور فعال مقامی حکومت میں شہریوں کی شرکت یقینی بنانا ہے جومالی‘ سیاسی اور انتظامی طور پر بااختیار ہونے کے ساتھ متحرک بھی ہونی چاہیے۔ میں نے دنیا بھر میں مختلف حکومتوں کے مختلف نظام کا جائزہ لیتے ہوئے نومبر 2018 ء میں وزیراعظم عمران خان کو ایک جامع رپورٹ پیش کی تھی اور اگست 2019 ء میں گورنر پنجاب کی صدارت میں کانفرنس کے انعقاد کے دوران یہی تجاویز پیش کی تھیں‘ لیکن پنجاب کی بیورو کریسی‘ جو بلدیاتی نظام کے بارے میں قانون سازی کرتی رہی ‘ نے الیکشن کمیشن کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اس طرح نیبر ہڈ کونسل اور ویلیج پنچایت کے انتخابات کے لیے حلقہ بندی کا عمل شروع ہو گیا۔ الیکشن کمیشن نے 18 ستمبر کو ابتدائی حلقہ بندیوں کا اعلان کرنا تھا اور اعتراضات کی شنوائی کے بعد 18 اکتوبر کو حتمی اعلان ہو جاتا ‘مگر 17 ستمبر کو پنجاب حکومت نے درخواست کی کہ حلقہ بندیوں کے لیے پنجاب حکومت نے کابینہ سے منظوری حاصل نہیں کی ہے لہٰذا حلقہ بندیوں کا اعلان ابھی مؤخر کر دیا جائے۔ اس طرح الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کو ریفرنس بھیجوا دیا کہ پنجاب گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے ابہام کو دور کیا جائے۔ اس طرح بادی النظر میں لوکل گورنمنٹ الیکشن ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ۔ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک بھی خبروں میں گردش کر رہی ہے‘ جبکہ مردم شماری کے جائزہ کی استدعا کی وجہ سے سندھ میں لوکل گورنمنٹ کے لیے حلقہ بندیوں کا عمل بھی تاخیر کا شکار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
    اب آخر میں موٹر وے زیادتی کیس کے حوالے سے میرے کالم پر متعلقہ حکام کی جانب سے پیش کی گئی وضاحت: موٹروے زیادتی کیس ملزمان کی عدم گرفتاری پر سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے پنجاب پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ اس حوالے سے میں نے موٹروے پولیس کے رویے کے بارے میں اپنے کالم میں تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس بارے میں موٹروے پولیس کے ترجمان محمود علی کھوکھر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اس رات متاثرہ خاتون نے موٹروے کی ہیلپ لائن 130 پر رابطہ کرتے ہوئے اہلکار کو بتایا تھا کہ ان کی گاڑی پٹرول ختم ہونے کی وجہ سے ویرانے میں کھڑی ہے ‘متعلقہ حکام نے خاتون کی ضرورت کے لیے پٹرول کا بندوبست کرنے کے لیے دیگر متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا اور لوکیشن کی نشاندہی کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو پٹرول کا بندوبست کرنے کے لیے استدعا کی اور خاتون کو بھی آگاہ کردیا۔متاثرہ خاتون نے موٹر وے پولیس کے اہلکار کا شکریہ ادا کیا اور یہ تمام گفتگو موٹروے پولیس کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ میری رائے کے مطابق جس ادارے نے پٹرول پہنچانا تھا وہ کافی فاصلے پر تھا اور وقت پر نہ پہنچنے کی وجہ سے حادثہ رونما ہوا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں