1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بغیر کھانے کے اٹھارہ برس کیسے گزرے

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏2 مارچ 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    بغیر کھانے کے اٹھارہ برس کیسے گزرے

    برطانیہ میں مقیم اٹھارہ سالہ محمد میاں کبھی بھی عام کھانا نہیں کھا پائے ہیں۔ اس کی وجہ ہے ان کی آنتوں کی بیماری ہے جو کسی بھی طرح کے سخت کھانے کو ہضم نہیں کرپاتیں۔
    آج کل جب گزشتہ تہواروں کے موسم میں زیادہ کھانوں کے بعد لوگ اب اپنی خوراک کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، محمد میاں نل کا پانی بھی نہیں پی سکتے۔

    محمد میاں کا کہنا ہے ’میرے لیے یا تو پانی ابلا ہوا ہونا چاہیے ورنہ میرا پیٹ اس کو ہضم نہیں کرپاتا۔ میرا ہاضمے کا نظام بے حد حساس ہے۔‘
    محمد میاں کا معدہ بے حد کمزور ہے اور اسی وجہ سے وہ پیدائش کے بعد سے ہی مصنوعی غذائیت پر منحصر ہیں۔
    دن میں وہ ملائم کھانے کی شکل میں پروٹین، کاربوہائڈریٹ، وٹامنز کی خوراک لیتے ہیں۔ رات کو ایک خصوصی ٹیوب کے ذریعے براہ راست کھانا ان کے پیٹ میں پہنچایا جاتا ہے۔
    چند روز پہلے محمد کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ محمد کہتے ہیں ’میرے معدے نے بالکل کام کرنا بند کردیا تھا۔ میں پانی بھی نہیں پی سکتا تھا۔ میری کئی مہینوں تک ایسی ہی حالت رہی۔‘
    محمد کو جو بیماری ہے اسے ’Intestinal pseduo obstruction‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس وقت برطانیہ میں بارہ سے پندر بچے اس بیماری میں مبتلا ہیں۔
    اس بیماری میں آنتیں کھانا ہضم کرنے کا کام بالکل بند کردیتی ہیں۔
    لندن کے گریٹ آرمونڈ سٹریٹ ہسپتال میں محمد کا علاج جاری ہے اور وہاں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے محمد کی یہ حالت اس لیے ہوئی ہے کیونکہ آنتوں کے اندر مخصوص پٹھے نے کام کرنا بند کردیا ہے۔
    محمد اپنی اس بیماری کے مثبت پہلوں کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں ’ کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے زیادہ صحت مند ہوں۔ جب میں سب لوگوں کو جنک فوڈ کھاتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کم از کم میں موٹا نہیں ہونگا۔‘
    کیا محمد کا دل نہیں چاہتا کہ وہ بھی عام لوگوں والا کھانا کھائیں، اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں ’ کھانے کا وقت اس طرح مقرر ہے کہ میں کبھی بھوکا نہیں رہتا ہوں، اور جب میں واقعی بیمار ہوتا ہوں تو میرا کھانا کھانے کا دل ہی نہیں چاہتا ہے۔‘
    اس کے باوجود بھی محمد اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ برس وہ یونیورسٹی جانے کے بارے میں پرامید ہیں۔
    یونیورسٹی کالج لندن انسٹیٹوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ڈاکٹر نکھل تھارپر کا کہنا ہے کہ معدے کی اس طرح کی بیماری کو سمجھنے کی فوری ضرورت ہے۔
    انکا کہنا ہے ’فی الوقت ہم صرف اس بیماری کی علامت پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس بیماری کا جو علاج ہے وہ صرف محمد جیسے مریضوں کو مرنے سے بچائے ہوئے ہے۔ ہمارے پاس اس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔‘
    ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے متاثر بچے ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں۔
    لندن کے گریٹ آرمونڈ سٹریٹ ہسپتال کو اس بیماری کے علاج کا قومی سینٹر مقرر کیا گیا ہے اور اس ہسپتال میں محمد جیسے بچے زیر علاج ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں