1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

برف کب پگھلے گی؟

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از احتشام محمود صدیقی, ‏7 مارچ 2014۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    تمام تر ہچکچاہٹوں اور نا امیدیوں کے بعد جیسا کہ ظاہر تھا ہم ایک ایسی صورت حال میں پھنس چکے ہیں کہ اب ہمیں معلوم ہی نہیں کہ آگے کیا ہوگا- اگر یہ امید تھی کہ منتخب قیادت آگے آئے گی تو وہ اس میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے- آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قسمت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنھیں ہم بار بار مسترد کرچکے ہیں-

    اگر کوئی چیز واضح ہے تو وہ انتہائی دائیں بازو کا موقف ہے- منور حسن اور پروفیسر ابراہیم (جماعت اسلامی)، مولوی سمیع الحق (جے یو آئی-ایس)، اور مولوی کفایت اللہ (جے یو آئی-ایف) میں کونسی بات مشترک ہے؟ ان کی جماعتیں کبھی بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر پاکستان پر حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں؛ اس کے علاوہ بھی وہ ایسے مکتبہ فکر کی حامل ہیں جو ملک کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتا-

    اس کے علاوہ ان میں اور کونسی بات مشترک ہے؟ یہ کہ وہ سب کے سب اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ پاکستانی افواج پر دہشت گردوں کے حملوں کو، جس میں عورتوں اور بچوں سمیت سیویلین شامل ہیں، ہماری فوجوں کی کارروائیوں کے مماثل جائز قرار دیا جائے جنھیں تمام قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف، خاص طور پر دہشت گردوں کے خلاف، ریاست کی رٹ قائم کرنے کا اختیارحاصل ہے- ان میں سے بعض تو ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کو شہید کہتے ہیں جبکہ ہمارےجان دینے والے سپاہیوں کو وہ یہ درجہ دینے کے لئے تیار نہیں-

    ان کا اصرار ہے کہ ہر قیمت پر دہشت گردوں سے بات کی جائے- ان کے پرجوش رہنما، میڈیا اور اخباروں میں، خاص طور پر ٹیلی ویژن پر (میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے اسلامی جمعیت طلباء کے سابقہ کارکن جو آجکل کلین شیو ارمانی کے سوٹوں میں نظر آتے ہیں) ایسے جوش و خروش سے ان کے نظریات کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یقین نہیں آتا-

    وہ چاہتے ہیں کہ"امن کی خاطر"، اس خون اور ہلاکتوں کو نظرانداز کردیا جائے جو طالبان مسلسل تواتر کے ساتھ پاکستانیوں کی زندگیوں پرلاد رہے ہیں- طالبان کی حمایت کرنے والے خدا کے یہ بندے پاکستانیوں سے بار بار کہتے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں وہ مزید تباہیوں کے لئے تیار رہیں-

    ان کا مقصد واضح ہے- اچھی طرح سے جانتے ہوئے کہ انھیں بیلٹ باکس پر کتنی محبت، چاہت اور حمایت حاصل ہوگی، ان 'علماء' نے اپنے مطلب کی شریعت نافذ کرنے کے مختلف طریقے ڈھونڈھ نکالے ہیں- ہاں، دہشت گردوں کی بندوقوں کی نالیوں سے- یہ اور بات ہے کہ اسے ذرا سی مہذب شکل دیدی گئی ہے: مذاکرات؟

    اگرچہ ٹی ٹی پی بڑی چالاکی سے اپنے مطلب کے وقت، مسئلہ سے دامن بچا جاتی ہے- ان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی حالیہ پریس کانفرنس کے بعد اب مجھے بالکل شبہ نہیں رہا کہ القاعدہ سے متاثر شوریٰ کی قیادت اصل میں کیا چاہتی ہے- وہ چاہتے ہیں کہ پہلے قبائلی علاقوں میں انکے برانڈ کا مذہب نافذ کیا جائے اور اسکے بعد اسے باقی 'امارات' کے علاقے میں پھیلایا جائے-

    اس دھمکی کے خلاف ہماری منتخب حکومت کا رد عمل کیا ہے، بار بار موقف کی تبدیلی؟ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی حالیہ پریس کانفرنس میں دی جانے والی بریفنگ، اس بے عملی کو ظاہر کرتی ہے جو حکومت کے رد عمل کی خصوصیت ہے جسکی وجہ انتہا پسند قدامت پسند عناصر ہیں جو کلیدی عہدوں پر فائز ہیں، جن میں سے ایک خود وزیر موصوف ہیں-

    ان گستاخانہ، مضحکہ خیز حملوں کے خلاف، جو ملک بھر میں اسی شدت کے ساتھ جاری ہیں، جس میں خاص طور پر ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے عوام کے غم و غصہ پر روشنی ڈالتے ہوئے نثار علی خاں نے شائد یہ کہا ہو کہ مذاکرات ان حالات میں جاری نہیں رہ سکتے لیکن اسی سانس میں انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ صرف'مذاکرات ' ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہیں-

    کوئی بھی وزیر داخلہ کے موقف سے کلی طور پر اختلاف نہیں کرسکتا- ہم میں سے اکثرلوگوں کا خیال ہے کہ طویل مدت کے لئے اس بحران کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے- لیکن سوال ہے کب اور کن حالات میں-فی الحال تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی وجہ شدید خوف ہے- اور ٹی ٹی پی نے اس کی بو سونگھ لی ہے-

    اگر چہ یہ فقرہ گھسا پٹا ہی لگے گا لیکن مذاکرات کو طاقت کی پوزیشن سے کیا جانا چاہیے- یہ نقطہ نظر اس وقت اور بھی زیادہ مناسب ہو گا جب ریاست دہشت گردوں سے مذاکرات کر رہی ہو- یہ صحیح ہے کہ معاشرہ کے با اثر حلقوں میں دہشت گردوں کی نظریاتی حمایت، معاملات کو پیچیدہ کردیتی ہے- لیکن دہشت گرد کمزوری کی کسی بھی علامت سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، جیسا کہ ہمارے فوجیوں کی ہلاکت سے ظاہر ہے-

    اس بھنور سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ بنانے سے پہلے ہمیں اس بات کو یاد کرنا ہوگا کہ آخر ہم اس حالت تک پہنچے کیسےاورہمیں کس نے یہاں تک پہنچایا- ہماری دفاعی فوجوں نے اور ہمارے انٹیلیجنس اداروں نے جہادی آئیڈیالوجی کو برسوں تک استعمال کیا جسکے تباہ کن نتائج نکلے، جس کا مقصد 'قومی سلامتی'کا حصول تھا- ضیاء کے دور کے آغاز سے لیکر 9/11 تک یہ پالیسی جاری رہی-

    جب ہائی جیک کئے ہوئے طیارے ورلڈ ٹریڈ سنٹر (اور دیگر ٹارگٹس) سے جا ٹکرائے تو یوں لگا جیسے ہمارے فوجی رہنما کوئی تھپڑ کھا کر جاگ پڑے- انھوں نے خوف کی حالت میں کچھ فیصلے کئے لیکن برسوں تک ایک پالیسی پر چلتے رہنے کی وجہ سے پاگل پن کا ایک حلقہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے اس جہاز کا رخ موڑنا مشکل ہوگیا ہے، اور ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرنے کے باوجود، اس مثالی برف کے تودہ کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے-

    حالیہ برسوں میں اپنے خون سے اسکی قیمت چکانے کے بعد یوں لگتا ہے کہ انھیں اپنی گزشتہ غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے- اگر یہ صحیح ہے تو ہماری حکومت اور ہم سب پر لازم ہے کہ ہم مادر وطن کا حق ادا کرنے اور اپنا فرض بجا لانے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں- صرف یہی وہ منظم قوت ہے جس میں اتنی طاقت ہے کہ اس دیو کو کیفر کردار تک پہنچائے جسے خود اسی نے پیدا کیا تھا-

    ہاں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی پولیس کی دہشت گردی سے لڑنے اور ان کی انٹیلیجنس کی قوت میں اضافہ کریں تا کہ وہ ہمارے شہروں کی حفاظت کر سکیں- اس کام کو فوراً اور سرگرمی سے کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ غور و فکر کے ساتھ جیسا کہ وزیر اعظم اور فوج نے سعودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ میں کیا ہے لیکن جسے ظاہر نہیں کیا گیا ہے-

    اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ آیا مشرق وسظیٰ کی ایک مجنونانہ اور بھیانک جنگ میں کسی فریق کا ساتھ دینا مناسب ہے یا نہیں- لیکن یہ بات بحث سے بالاتر ہے کہ اپنے وطن کے ساتھ وزیر اعظم کا فرض اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہونا چاہیے جو وطن سے دور ان کا وطن ہے- ہمیں یقین ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اس کو ثابت کرینگے-

    تحریر عباس ناصر۔۔۔۔۔ ڈان ۔

    وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے۔ مگر ہمارے لیڈرز کو صرف باتیں اور پریس کانفرنس کرنا اور تقاریر بس، 1971 بھول چکے ہیں کوئی مستقبل کا منصوبہ نہیں ۔
    [​IMG]
     
    Last edited: ‏7 مارچ 2014
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جس کھیل کا ذکر ہورہا ہے یہ سبھی کردار، کسی نہ کسی طرح اس کھیل کا حصہ رہے ہیں۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    پتہ نہیں اور کتنی شہادتیں ہونی ہیں ۔یا ہماری موجود قیادت کس بات کا ا نتظار کر رہی ہے ۔یا شاید ہماری قیادت بھی ماضی میں اسی ٹیم کا حصہ رہی ہے یا اب بھی ہے ۔لیکن یوں مرنے سے بہتر ہے کہ اپنے حق کے لئے لڑ کر مریں
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    حکومتیں عالمی تناظر میں اپنا کام کرتی ہیں۔
    کبھی کبھی دشمن کو بظاہر گلے لگانا ضروری ہوتا ہے
    اور کبھی دوست سے دشمنی کا سا سلوک کرنا دانشمندی کا تقاضہ ہوتا ہے
    مگر زیرک اور عقلمند سیاست دان وہی ہوتے ہیں تو وقتی نقصان کے بدلے طویل المدت ملکی مفادات کا تحفظ کریں۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن ان لوگوں نے تو لوٹ مار شروع کی ہوئی ہے یہ ملک کی بہتری کے لئے سوچتے تو ملک کو بحران سے نکالتے یہ تو ملک کو اور بحران کی طرف لے جارہے ہیں ۔اور ملک کی سیکورٹی کی طرف انکی کوئی توجہ ہی نہیں ہے ۔
     
    ملک بلال اور احتشام محمود صدیقی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    موجودہ کرپٹ نظام میں روایتی سیاستدان کبھی بھی اس ملک کو بہتر مستقبل نہیں دے سکتے۔ افسوس اس قوم پر ہے جو ہر بار انہی آزمودہ کارتوسوں کی جھولی میں چند ٹکوں کے عوض اپنی وفاداریاں ڈال دیتی ہے۔
    موجودہ نظام کے ذریعے کروڑوں روپے کی انویسٹمنٹ کرکے پارلیمنٹ میں پہنچنے والے سیاستدان سوائے
    " اپنی تجوریاں بھرو اور دن پورے کرو"
    اور کوئی پالیسی نہیں رکھتے۔ یہ وہی کچھ کرتے اور کہتے ہیں جو واشنگٹن ، ریاض و امارات سے آتا ہے
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں