1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

برصغیر میں اولین شاہی تعمیرات

Discussion in 'متفرقات' started by intelligent086, Jan 9, 2020.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    برصغیر میں اولین شاہی تعمیرات
    upload_2020-1-9_2-17-52.jpeg
    محبوب اللہ مجیب
    اگر مغل فنِ تعمیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ فنِ تعمیر کی یہ کہانی جو مغل دور حکومت نے برصغیر میں چھیڑی، اس کے نقوش پہلے ہی تیار ہو چکے تھے کیونکہ عربوں کے ہندوستان سے تعلقات آٹھویں صدی عیسوی ہی میں استوار ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی حکومت میں سندھ اور ملتان دونوں کو شامل کر لیا تھا۔ عربوں کے ان تعلقات سے ملتان اور سندھ دونوں کے طرزتعمیر میں ایک خاص تبدیلی واقع ہوئی۔ اس سے پہلے یہاں کی عمارتوں میں چمکدار قسم کے کھپرے استعمال کرنے کا رواج نہ تھا۔ انہوںنے اپنی عمارتوں میں چکنے چمکدار اور روغنی کھپرے استعمال کر کے تعمیراتی صلاحیت کو جلا دی اور یہاں کے طرزِ تعمیر کو ایک نیا موڑ عطا کیا۔ بارہویں صدی کے اواخر میں جب قطب الدین ایبک ہندوستان کا وائسرائے تھا، اس نے دہلی میں ایک مسجد ’’قطب مسجد‘‘ کے نام سے تعمیر کرائی۔ اس کے بعد جب پورے طور سے اس کی حکومت کا استحکام ہو گیا تو اس نے یہاں قطب مینار جیسی بلندوبالا عمارت تعمیر کرائی۔ غلام خاندان، خلجی خاندان، تغلق خاندان، سید خاندان اور لودھی خاندان کی بنوائی ہوئی عمارتوں نے مغل فنِ تعمیر کے لیے ایک صحت مند خمیر تیار کیا، جس کو بنیاد بنا کر مغلوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ یہ ہے وہ ہلکا سا پس منظر جس کی آغوش میں مغل فن تعمیر کی ابتدا ہوئی۔ ابراہیم لودھی کو شکست دے کر بابر ہندوستان کا بادشاہ بنا اور اس طرح مغل فنِ تعمیر کی ابتدا ہوئی۔ بابر کے دورحکومت میں جو کچھ بھی چھوٹا موٹا تعمیری کام ہوا، وہ چاہے عمارتوں کی شکل میں ہو، باغات کی شکل میں ہو یا مسجد کی شکل میں، وہ مغل فن تعمیر کا ابتدائی نمونہ تھا۔ اس کے نقوش زیادہ تیکھے اور جان دار نہیں تھے۔ پھر اس کے انداز دن بہ دن گہرے اور تیکھے ہوتے تھے اور آخر میں جا کر اس نے سب سے الگ ہو کر اپنا ایک مخصوص کردار اور علامت اختیار کر لی اور مغل فنِ تعمیر کی تکمیل کا کام اکبر اور شاہ جہاں تک کے دور میں ہوا۔ مغلوں کے آنے سے پہلے دہلی سلطنت زوال کی طرف رخ کیے ہوئے تھی، اس سیاسی انتشار اور خلفشار میں اور اس آئے دن کے انقلاب میں سلاطین دہلی کی اختراعی قوت کو دھکا سا لگا۔ مرکزیت علاقوں میں منتشر ہو گئی۔ دہلی سلطنت سے الگ ہٹ کر تعمیراتی کام صوبوں میں زور پکڑ گیا اور اس طرح مرکز نے فن تعمیر میںکوئی قابل قدر اضافہ نہ کیا، ہاں علاقوں اور صوبوں میں فن تعمیر کے بعض اعلیٰ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں، مثلاً شرقی بادشاہوں کی بنوائی ہوئی جون پور کی کچھ عمارتیں (جیسے اٹالہ مسجد)۔ ان حالات میں مغل دور حکومت کی ابتدا ہوئی۔ تمام مشکلات کو جھیل کر جب بابر نے منزل کو پالیا اور منزل پر پہنچ کر جب اس نے اطمینان کا سانس لیا تو موت نے اسے صدا دے دی۔ اس طور سے بابر نے اپنے پیچھے بہت سے نامکمل کام اور بہت سے ادھورے خواب چھوڑے۔ تزکِ بابری میں بابر نے خود لکھا ہے کہ ’’میں نے عمارتوں کی تعمیر کے لیے ایک کثیر رقم خرچ کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘ تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بابر نے پانی پت کے میدان (کابلی باغ) میں ایک مسجد بھی فوجی سپاہیوں کے نماز ادا کرنے کے لیے بنوائی تھی اور ساتھ ہی دوسری مسجد سنبھل (دہلی) کے مقام پر بنوائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کابل میں بنے ہوئے ایک باغ کی طرح دوسرا باغ دہلی میں ’’آرام باغ‘‘ کے نام سے بنوایا، جس کا نشان مٹ گیا۔ بابر کے ان کاموں کی تائید اس کی لڑی گلبدن بیگم کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے:’’(بابر) نے خواجہ قاسم معمار کو حکم دیا کہ اگر ہماری بوائیں کوئی مکان اپنے محل میں بنوانا چاہیں تو بڑا کام ہوتے ہوئے بھی اسے فوراً ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ آگرہ میں دریا کے اس پار کئی عمارتیں بنوانے کا حکم دیا۔ حرم اور باغ کے بیچ میں اپنی خلوتِ خاص کے لیے ایک پتھر کا محل بنوایا اور دیوان خانہ میں بھی ایک محل تعمیر کروایا۔ مکان کے وسط میں ایک باؤلی اور چاروں برجوں میں چار کمرے بنوائے۔ دریا کے کنارے چار صحن والا مکان تعمیر کرایا۔ دھول پور میں پتھر کے ایک حصے میں ایک چوکھٹی باؤلی 10 گز لمبی اور چوڑی بنانے کا حکم دیا‘‘ باپ کی موت کے فوراً بعد ہی جو سیاسی ہنگامہ ہوا اور انتشار پھیلا، اس میں ہمایوں کو فرصت ہی نہ ملی کہ وہ ان عمارتوں کی بقا کی طرف توجہ دے سکے۔شیر شاہ سوری نے آخری کار اس کو شکست دے دی۔ اب تو حکومت کے بھی لالے پڑ گئے اور وہ ہندوستان چھوڑ کر ایران چلا گیا۔ عالموں اور مؤرخوں کا کہنا ہے کہ ہمایوں کو اس بھاگ دوڑ میں جتنی بھی پریشانی ہوئی ہو، مغل تاریخ اور مغل فنِ تعمیر کو اس سے بہت ہی فائدہ پہنچا۔ فائدہ اس سلسلے میں کہ ایرانی روایات اور ایرانی علامتیں جو مغل تہذیب کا جزو بننے کے لیے ایک مدت سے کسی انجانی شخصیت کا انتظار کر رہی تھیں، وہ ہمایوں کے ہاتھ یہاں پہنچیں۔ اس سخت دور میں اور اس انتشاری فضا اور ماحول میں بھی ہمایوں نے اپنے باپ بابر کی تعمیری روایت کی جوت کو جلائے رکھا۔ فتح آباد اور حصار میں ہمایوں نے دو الگ الگ مسجدیں بھی تعمیر کرائیں لیکن وہ زمانے کی بے مہری کا شکار ہو گئیں۔ ان سب سے قابل توجہ تعمیر ہمایوں کا مقبرہ ہے، جو اس کے مرنے کے آٹھ سال بعد مکمل ہوا۔ یہ مقبرہ ہمایوں کی بیوی نے اپنی زیرنگرانی تعمیر کرایا۔ مزید برآں یہ مقبرہ برصغیر کے روایتی فن تعمیر کے روپ میں ایرانی طرزِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ تاج محل کو اگر ہم ایک وفادار عاشق کا خراج کہتے ہیں تو ہمایوں کے مقبرہ کو ہمیں وفادار بیوی حاجی بیگم کی محبوبانہ پیشکش کہنا پڑے گا۔ اس سے پہلے مقبرہ کے چاروں طرف چاردیواری بنانے کا رواج نہ تھا۔ مثال کے طور پر فیروز شاہ کا مقبرہ اور مبارک شاہ کا مقبرہ۔ لیکن ہمایوں کے مقبرہ نے اس طریقۂ تعمیر کی بنیاد رکھی۔ بلکہ اس کے باہر پیڑ اور پودے لگانے کی ابتدا ہوئی۔ مقبرہ کے چاروں طرف گھری ہوئی اس وسیع و بسیط چاردیواری میں جا بجا دروازے قائم کیے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مقبرہ دیکھنے والوں کے ہجوم کو مدنظر رکھ کر اپنے بہت سے دروازے بنائے گئے۔ مقبرہ کے اندر روشنی کا انتظام اس طرح کیا گیا کہ جابجا روشن دان قائم کیے گئے تاکہ روشنی آتی رہے اور ساتھ ہوا بھی آئے۔ ہمایوں کے مقبرہ کے گنبد کی ساخت وسط ایشیا میں بننے والے گنبدوں جیسی ہے۔ ۔۔​
     

Share This Page