السلام علیکم۔ واہ راشد بھائی ۔ بہت ہی اچھا مضمون ہے۔ تحمل ، بردباری اور برداشت ایک ایسی اخلاقی خوبی ہے جس کا حکم ہمیں اسلامی تعلیمات میں بھی جابجا ملتا ہے۔ سید الانبیاء حضور اکرم :saw: پر کوڑا پھینکا جاتا اور آپ نے کبھی جواب میں لفظ تک نہ کہا۔ ہم جن کی شفاعت کی دعائیں اپنے پیاروں کے لیے مانگتے نہیں تھکتے۔ ان کے اسوہ پر چلنے کی کوشش بھی کر لیں تو ہم واقعی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ کوئی غیر مسلم گالیاں دے رہا تھا اور سیدنا ابوبکر خاموش رہے۔ حضور اکرم :saw: مسکراتے رہے ۔ آخر حضرت ابوبکر کا پیمانہء صبر لبریز ہوا اور انہوں نے بھی اسے جواب دے دیا ۔ اس پر حضور اکرم :saw: نے مسکرانا بند کر دیا اور اسکی وجہ بیان فرمائی ۔ " اے ابوبکر ! جب تک تو گالیاںسن کر خاموش تھا اور جواب نہیں دے رہا تھا، اللہ تعالی کا ایک فرشتہ آسمانوں سے اتر کر اس دشمن کو جواب دے رہا تھا ۔ لیکن جب تو نے خود زبان کھول لی تو وہ فرشتہ واپس چلا گیا ۔ " ہم لوگ حسینیت کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے۔ خود امام حسین کا سبق کیا تھا ؟ اللہ تعالی نے انہیں اختیارات و تصرفات کے خزانے عطا فرمائے تھے ۔ اگر چاہتے تو فرات انکے قدموں میں بہنے لگتا، اگر چاہتے تو آسمان بارشیں برسا دیتا، اگر حضرت اسمائیل :as: کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم نکل سکتا ہے تو علی اصغر کی ماںکی دعا سے بھی کئی زم زم نکل سکتے تھے۔ لیکن سیدنا امام حسین کی سیرت اور شہادت نے پیغام کیا دیا ؟ صبر ! کاش ہم مسلمان اپنے کردار کو بھی اپنے بزرگوں کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ آمین والسلام
پسند کرنے کا شکریہ ایسے کالم بہت کم دیکھے ہیں جوہمارے لوگوں کی اصلاح کرسکیں۔ زیادہ تر کالم ایسے ہیں جن میں لیڈروں کی شان میں قصیدے، ماضی کے لیڈروں پر تنقید لیکن اگر وہ وفات پاگئے ہیں اور ان کی برسی آجائے توان کی تعریف اور شخصیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے یا پھر وہ ایسے ہوتے ہیں جنہیں عوام پڑھنا نہیں چاہتی۔ انہیںصرف صحافی حضرات ہی پڑھتے ہیں۔ جاوید چوہدری کے کالموں میں خوبی ہے کہ وہ معلومات سے بھرپور ہوتے ہیں یا اصلاحی ہوتے ہیں۔ کسی لیڈر کی شان میںکوئی قصیدہ نہیں ہوتا۔ میری تو اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ جاوید چوہدری کو کبھی نذیر ناجی نہ بنائے۔