1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از سید شہزاد ناصر, ‏28 مئی 2015۔

  1. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:

    تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
    ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا

    صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
    جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا
    جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
    الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا

    بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
    مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا

    وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
    جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا

    ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

    قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
    لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا

    جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
    آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا

    یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
    ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا

    قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
    کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا

    دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
    محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا

    رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
    نالہ نہیں جو آفتِ اجرام ، نہ ہو گا

    برق آئینہء فرصتِ گلزار ہے اس پر
    آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا

    اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
    ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا

    اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
    بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا

    اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد

    کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں