1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بدلو سوچ۔۔۔۔۔بدلو زندگی ، تحریر : ناصر محمود بیگ

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏16 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بدلو سوچ۔۔۔۔۔بدلو زندگی ، تحریر : ناصر محمود بیگ
    [​IMG]
    سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ’’بتائیں میرا مستقبل کیسا ہوگا ؟‘‘ سقراط نے ایک کاغذ منگوایا اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو، اس نے جو جو سوچا تھا سب لکھ ڈالا۔

    سقراط نے بتا دیا کہ جیسے تمہارے خیالات ہیں اس کے مطابق تمہارا مستقبل ایسا ہو گا ۔معروف مصنف نپولین ہل کہتا ہے:’’دنیا میں اتنا خزانہ زمین میں سے نہیں نکالا گیا،جتنا کہ انسان نے اپنے ذہن، خیالات ،تصورات اورسوچ کے سمندرسے حاصل کیا ‘‘۔

    اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کو بھی سونا بنایا جاسکتا ہے جبکہ منفی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا شخص سونے کو ہاتھ ڈالے تو وہ بھی مٹی بن جائے ۔ا چھا سوچنے والے لوگ مسائل کو حل کرنے کی بہتر اہلیت رکھتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو دوسروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتے کہ ایسے ان سے کوئی نا جائز فائدہ اٹھائے اور ان کو دھوکا دے ۔جن کی اپنی آزاد سوچ ہوتی ہے ان کو غلام نہیں رکھا جا سکتا ۔اور قوموں کی غلامی اصل میں سوچ کی غلامی ہوتی ہے ۔تاریخ کے مشہور آمر حکمران اڈولف ہٹلر نے کہا تھا :’’ہم جیسے حکمرانوں کو لوگوں پر حکومت کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس سوچ اور فکر نہیں ہوتی‘‘۔جان میکسویل نے چالیس سال دنیا کے کامیاب لوگوں پر تحقیق کی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ ایک وصف ان سب میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان سب کا سوچنے کا انداز ایک جیسا ہوتا ہے۔یہ اندازفکر ہی ہے جو کامیاب اور ناکام شخص میں تفریق پیدا کرتا ہے۔میکسویل نے یہ بھی بتایا کہ اچھا سوچنا بھی ایک فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے،اچھے خیالات کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ کو ڈھونڈتے پھریں یاپھرآپ کے ذہن میں خود بخود آجائیںبلکہ آپ کو انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی سوچ بہتر ہوجائے اوراچھے اچھے خیالات آپ کے ذہن میں آئیں تو جان میکسویل کے بتائے ہوئے چند طریقوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔

    ۔(1) برتن میںجو ڈالو گے ،وہی باہر آئے گا

    ایک آفاقی اصول ہے کہ برتن میں سے وہی چیز باہر آئے گی جو اس میں ڈالی گئی ہو گی،یہ نہیں ہو سکتا کہ اس میں ڈالیں پانی اور نکلے شہد۔۔۔۔۔آپ اپنے روز مرہ معمولات میں جو کچھ دیکھیں گے،پڑھیں گے،سنیں گے یا جس قسم کے ماحول میں آپ رہیں گے اسی قسم کے خیالات آپ کے ذہن میں پیدا ہونے لگیں گے۔

    ۔((2جیسی صحبت ویسی سوچ

    مشہور انگریزی مقولہ ہے کہ اگر کسی انسان کے کردار کو پرکھنا ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھ لیں ۔آپ کا اٹھنا بیٹھنا جس قسم کے لوگوں میں ہو گاان کا رنگ آپ کی سوچ پر ضرور چڑھ کر رہے گا۔خوشبو کی دکان پر جائیں گے تو کچھ نہ بھی خریدیں پھر بھی کپڑوں میں خوشبو رچ بس جائے گی۔کوئلے کی دکان پر جائیں گے تو کوئلہ نہیںخریدیں گے تب بھی کپڑوں پر کالک لگ جائے گی۔

    ۔(3)اچھے خیالات کا انتخاب کریں

    انسان کے ذہن میں ہر وقت خیالات آتے اور جاتے رہتے ہیں ان میں کچھ اس کے لیے مفید اور مثبت ہوتے ہیں اور بعض اس کو غلط راستے پر چلا دیتے ہیں۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ خیالات کو اچھی طرح چھان پھٹک کر اپنی عادات اور کردار کا حصہ بنائیں۔

    ۔(4)اپنے اچھے خیالات پر خود بھی عمل کریں

    بہت سے لوگوں نے اوروں کو تو کامیابی کے فارمولے بتائے مگر اپنی زندگی میں ان پر عمل نہ کر سکے۔اس لیے بہت سا اچھا سوچ کر اس پر عمل نہ کرنے سے بہتر ہے کہ تھوڑا سا اچھا سوچ کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔

    ۔(5) سوچ کو جذبات سے آزاد رکھیں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں