1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بدعات اور شعبان المعظم

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از Admin, ‏22 اگست 2008۔

  1. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
  2. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جزاک اللہ
     
  3. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    آپ نے 15 شعبان کے بعد روزے ممنوع ہونے کے متعلق قرآن و حدیث کا کوئی مستند حوالہ نہیں دیا
    نفلی عبادات کب سے منع ہونا شروع ہوگئیں جبکہ ان سے فرائض و واجباتِ دین میں‌کوئی حرج بھی واقع نہ ہو ؟
    ابنِ آدم صاحب۔ پلیز وضاحت فرمائیے۔

    وگرنہ کم از کم میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گی کہ آپکا مقصد صرف لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت سے روکنا ہے۔
     
  4. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ کی مجبوری بجا ہے۔ لیکن اگر کوئی بات لکھی جاتی ہے تو جو لوگ اس سے متفق نہیں ہوتے وہ اپنے عمل میں آزاد ہی ہوتے ہیں کوئی زبردستی تو کسی کو اللہ کی عبادت سے نہیں روک سکتا۔
     
  5. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    آپ نے 15 شعبان کے بعد روزے ممنوع ہونے کے متعلق قرآن و حدیث کا کوئی مستند حوالہ نہیں دیا
    نفلی عبادات کب سے منع ہونا شروع ہوگئیں جبکہ ان سے فرائض و واجباتِ دین میں‌کوئی حرج بھی واقع نہ ہو ؟
    ابنِ آدم صاحب۔ پلیز وضاحت فرمائیے۔
    وگرنہ کم از کم میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گی کہ آپکا مقصد صرف لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت سے روکنا ہے۔
     
  6. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نور صاحبہ اللہ آپ کواور مجھےفتنوں سے اور فتنے پھیلانے سے محفوظ رکھے۔
    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
    "شعبان کے آخر میں روزے مت رکھو"

    اب 14 کے بعد شعبان کا آخری حصہ شروع ہوتا ہے جو 29 یا 30 تک جاتا ہے۔
     
  7. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    آبی بھائی سے گزارش ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس پر اپنا تبصرہ پیش کریں۔۔۔جزاک اللہ۔
     
  8. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    محترم ! اس فرمانِ نبوی :saw: کا حوالہ بھی لکھ دیجئے تاکہ بات متحقق ہوسکے۔
    اور اگلی بات یہ کہ نصف اور آخر میں کافی فرق ہوتا ہے۔
     
  9. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم کاشفی بھائی ! میں نے یہ پوسٹ جس دن لگی تھی اسی دن دیکھ لی تھی اور غالبا میں وہ پہلا شخص ہوں گا اس فورم پر کہ جس نے یہ تھریڈ پڑھا تھا لیکن اس تھریڈ میں مقالہ نگار کی سفاہت کی وجہ سے میں نے اس کو نظر انداز کیا کیونکہ میرا عمومی مزاج ہے کہ میں اس قسم کی جہالت آمیز پوسٹنگ کا جواب نہیں دیا کرتا لیکن اب آپ نے اصرار فرمایا ہے تو اتنا عرض ہے کہ جو مغالظے اس پوسٹ میں بصورت جہل وارد کیئے گئے ہیں ان کا جواب میں کئی مرتبہ دے چکا ہوں اور اپنے مرتب شدہ مقالہ حقیقت بدعت کے سلسلے میں بھی اس قسم کے اعتراضات کا تفصیلا جواب عرض کرچکا ہوں مگر نہ جانے کیوں لوگوں کی یاداشت اتنی کمزور ہے ؟
    اب‌آئیے ایک نظر اس پوسٹ میں جو جو مغالطے دیئے گئے ہیں ان پر ڈالتے ہیں ۔ ۔۔
    نمبر ایک :- پندرھویں شعبان سے تا آخر رمضان روزے منع ہیں ۔ ۔۔۔
    یہ دعوٰی کیا گیا ہے اس پوسٹ میں اور اس پر دلیل پیش نہیں کی گئی اور جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ عام ہے جبکہ دعوٰی خاص ہے ۔ یعنی دعوٰی تو خاص عدد سے متعلق ہے کہ 15 ویں شعبان سے تا آخر شعبان روزے منع ہیں لیکن اس دعوٰی کی دلیل کے بطور ایک بھی حدیث نقل نہیں کی گئی بس اتنا کہہ دیا گیا کہ نصف الشعبان کے بعد کے روزے منع ہیں اور خاص استقبال رمضان کا روزہ بھی منع ہے ۔ ۔ ۔ ۔
    [highlight=#FFFFFF:2g1bwq3q]
    اس مغالطے کا رد اوراس ضمن احادیث کا صحیح مفھوم ۔​
    [/highlight:2g1bwq3q]
    حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو ہاں جس آدمی کی عادت اس دن روزہ رکھنے کی ہو وہ روزہ رکھ سکتا ہے ۔
    (صحیح مسلم کتاب الصیام باب لاتقدموا رمضان بصوم یوم ولا یومین رقم الحدیث 2514)
    یہ ہے اصل روایت کہ جس میں استقبال رمضان کے سلسلے میں ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے اور اس میں صراحت کے ساتھ ایک معین عدد یعنی رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے کو منع کیا گیا ہے ۔ ۔
    فائدہ حدیث :- اس حدیث کے عموم سے پتا چلا کہ استقبال رمضان کے لیے اس سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنا منع ہے اور یہ ممانعت محمول کی جائے گی کراہت تنزیہی پر یعنی اسے مکروہ تنزیہی سمجھا جائے گا نہ کہ مطلق ممانعت کیونکہ اسی حدیث میں اس شخص کے لیے رعایت کا زکر ہے کہ جسے ہر ماہ کہ آخر میں روزہ رکھنے کی عادت ہو۔ رہ گئی مکروہ تنزیہی ہونے کی حکمت تو میرے ناقص ذہن میں تو اسکی یہی وجہ آتی ہے کہ اس سے شعبان کے فورا بعد رمضان کے شروع ہونے کی وجہ سے نفلی اور فرضی روزے کے مابین اشتباہ ہوسکتا ہے (باقی واللہ والرسولہ اعلم) لہزا اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی طور پر شعبان کے آخری ایک یا دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمادیا ۔ ۔ ۔
    اب جو کوئی شخص اس آخری ایام کی ممانعت کو جو کہ اصل میں مکروہ تنزیہی پر محمول ہے کو دلیل بنا کر شعبان کے وسط کے روزے کو بدعت اور ممنوع قرار دے اس کی عقل پر سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔
    وسط شعبان کو نہ روزہ رکھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باز پرس​

    عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تونے شعبان کے وسط کا روزہ رکھا اس شخص نے عرض کی نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ نے فرمایا کہ عید کے بعد ایک یا دو روزے رکھ لینا ۔ ۔۔
    ( صحیح مسلم کتاب الصیام باب صوم شھر الشعبان رقم الحدیث 2649)فائدہ حدیث :- آپ نے دیکھا قارئین کرام کہ ایک شخص نے وسط شعبان یعنی نصف الشعبان کا روزہ نہیں رکھا تو آپ نے اس شخص کو بطور کفارہ عید کے بعد ایک یا دو روزے رکھنے کا حکم دیا اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کہ نصف الشعبان کے روزہ کو بدعت قرار دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
    یہ تو تھی 15 شعبان کے روزہ اور آخر شعبان کے روزوں کی ممانعت کی تحقیق اب آگے چل کر دیکھتے ہیں کہ موصوف مقالہ نگار نے دیگر کیا مغالطے پھیلائے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
    موصوف کے مطابق عوام کا مزاج قصے کہانیاں بن گیا ہے لہزا عوام فضیلت نصف الشعبان کے موضوع اور ضعیف حدیثوں پر عمل کرکے خود کو بدعت کا کا حق دار ٹھرا رہیں ہیں ساتھ ہی موصوف نے پٹاخوں کی ٹھاہ ٹھاہ کا بھی ذکر کردیا ہے اور اس کے عبادت نہ ہونے کی تصریح کی ہے ۔ ۔ ۔ میں پوچھتا ہوں کہ آج تک جب کسی نے پٹاخوں کی ٹھاہ ٹھاہ کو عبادت کہا ہی نہیں تو موصوف کو کیا ضرورت پیش آگئی اس کی بطور عبادت نفی کریں؟ ہاں ضرورت ہے اور کیوں نہ ہو مغالطہ آفرینی جو پھیلانی ہے اور وہ بھی بڑے تکنیکی انداز سے سو ضروری ہوا کہ پہلے ایک چیز کو خود ساختہ طور پر عبادت فرض کر لیا جائے اور پھر اس چیز کو معاشرے میں رائج دیگر شرعی روایات کے ساتھ ملا کہ زکر کرکے اسکے بطور عبادت ہونے کی نفی کی جائے تاکہ اس سے عوام میں جو عمومی نفرت کا تاثر پیدا ہو اسی تاثر کو دیگر مذہبی رسومات پر بھی چسپاں کرکے عامۃ الناس کو ان سے برگشتہ کیا جاسکے ۔ ۔ اور یہ اہل ہوا کا بہت پرانا اور قدیمی طریقہ کار ہے ۔ ۔ ۔
    پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم بارہا عرض کرچکے ہیں کہ کسی بھی شئے کی فضیلت کے باب میں جو احادیث وارد ہوں وہ اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف بھی ہوں تب بھی اجماع محدثین کی وجہ سے باب فضیلت میں قابل عمل ہیں لہذا اس دلیل کی بنا پر شعبان کی 15 رات اور اس کے دن کے روزے کی فضیلت پر مبنی تمام کی تمام احادیث کی سند پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی الا کہ ان میں سے کوئی موضوع روایت نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    پھر آگے جاکر وہی مشھور مغالطہ جو اکثر اہل ہوا دیا کرتے ہیں موصوف مقالہ نگار نے پیش کیا ہے اور اس کا ہم بارہا جواب بھی دے چکے ہیں تفصیل کے لیے ہمارا مرتب شدہ مقالہ حقیقت بدعت دیکھ لیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔
    موصوف لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ مطلق عبادت میں تو کوئی حرج نہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دین میں عبادت وہی جائز ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہو ۔۔ ۔ ۔ ۔
    قارئین کرام اول تو یہ دعوٰی ہی محتاج دلیل ہے اور دوسرے یہ اتنی بھونڈی دلیل ہے کہ موصوف نے نفس عبادت کے لیے صرف نبی کریم اور صحابہ کرام کے عمل کو خاص کرکے اور اس میں حصر فرما کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی احادیث کو بھی عبادت کے ضمرے سے خارج کردیا (معاذ اللہ ) جب تک کہ اس قولی حدیث پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی وقوع کا ثبوت نہ مل جائے ۔ ۔ ۔ لاحول والا قوۃ الا باللہ ۔ ۔ ۔
    ہم بارہا عرض کرچکے کہ دین میں یہ کوئی اصول نہیں کہ ایک چیز پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مذکور نہیں تو وہ چیز کرنا ہی حرام ہو بلکہ حرام وہ ہوگا جسے اللہ پاک یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حرام قرار دیا ہو یعنی آپ نے منع فرمایا ہو اسی لیے اصول ہے کہ ہمیشہ شرع میں ممانعت کی دلیل طلب کی جاتی ہے کہ قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ۔ ۔
    اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ۔ ( سورة الحشر : 59 ، آیت : 7 )۔
    یعنی جو کچھ تمھیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاو یعنی باز رہو اب آپ ہی بتائیے کہ آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ جس کام کو رسول نہ کریں وہ تم بھی نہ کرو بلکہ یہ کہا گیا کہ جس کام سے رسول منع کریں اس سے باز رہو اسی لیے شریعت کا مشھور قاعدہ ہے کہ حرمت کی دلیل لازمی ہے یعنی جو بھی کسی کو کسی کام سے منع کرئے گا اس پر لازم ہے کہ وہ منع کی دلیل نقل کرئے ورنہ خاموش رہے ۔
    [highlight=#FFFFFF:2g1bwq3q]لہزا ثابت ہوا کہ کسی بھی کام کے بدعت ہونے یا منع ہونے کی یہ کوئی دلیل نہیں کہ اس کام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مذکور نہ ہو تو وہ بدعت یا حرام ہوگا [/highlight:2g1bwq3q]۔ ۔
    پھر آگے جاکر موصوف رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ورنہ اگر کوئی نماز میں دو کی بجائے تین سجدے کرلے تو پھر وہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس میں کیا حرج ہے ۔ سجدے زیادہ کرنے سے ثواب زیادہ ہی ہوگا کم نہیں ہوگا یہ اس کی خام خیالی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    موصوف کی پہلی دلیلوں کی طرح یہ عقلی ڈھکوسلہ بھی موصوف کے اصول دین سے انتہائی اور حیرت انگیز طور پر جاہل ہونے کی دلیل ہے اور نری شعبدہ بازی اور مغالطہ آفرینی کی ایک سنگین کوشش ہے اور وہ یوں کہ دین میں جو عبادات منصوص ہیں اور جنکی ہیئت و کیفیت شارع نے بیان کردی ہے ان میں سے کسی چیز میں بھی کمی یا بیشی کرنا جائز نہیں مثلا دین میں ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں اور یہ پانچ کا لفظ اسم عدد ہے جو کہ اس مقام پر خاص ہے اور اپنے مفھوم میں قطعی ہے لہزا نہ اس سے کم فرض نمازیں جائز ہیں اور نہ ہی زیادہ یعنی نہ ہی کوئی آدمی اس مخصوص اسم عدد میں کہ جس کا بیان شارع نے فرمادیا اس میں کمی کرکےچار نمازوں کو فرض کہہ سکتا ہے اور نہ ہی زیادتی کرکے چھ نمازوں کو فرض جان یا مان سکتا ہے اسی طرح مکمل نماز کی ہیئت اور کیفیت شارع نے اپنے قول و فعل سے مقید کردی ہوئی ہے اور ہر ہر نماز کی ہر ہر رکعت میں دو ہی سجدے فرض ہیں اور یہاں اسم عدد 2 ہے جو کہ اپنے مفھوم اور اس پر دلالت میں قطعی ہے لہزا کوئی بھی نماز ہو چاہے فرض یا واجب یا سنت یا نفل اسکی ہر ہر رکعت میں دو ہی سجدے فرض ہیں ان میں کمی یا زیادتی نہیں کی جاسکتی کہ یہ شارع کی طرف سے معین عدد کی دلالت کی وجہ سے مخصوص ہیں ۔ ۔ رہ گیا اس قسم کی مبارک راتوں میں ان عبادات کا تعلق کہ جنکو شارع نے مخصوص نہیں کیا تو ان میں کوئی بھی حرج نہیں یعنی نفلی طور پر بندہ چھ تو کیا چھ ہزار نمازیں بھی پڑھ لے اور انکو نفل ہی جانے تو اسے انکا ثواب ملے گا اور ضرور ملے گا ۔ ۔ ۔۔ وما علینا الا البلاغ
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ عابد عنائیت بھائی !
    آپ نے بہت تحقیق و محنت سے ایک فتنے کا قلع قمع فرما کر مجھ جیسے عامۃ المسلمین کے ایمان کو ڈگمگانے سے بچایا۔
    اللہ تعالی آپکے علم و عرفان میں مزید برکت عطا فرمائے۔آمین
     
  11. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے ۔۔

    جزاک اللہ عابد بھائی

    خوش رہیں
     
  12. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    جزاک اللہ آبی بھائی۔۔۔اللہ رب العزت آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور اسی طرح سےآپ بنی نوع انسان کو اپنے صحیح علم و تحقیق سے فیض یاب کرتے رہیں۔۔۔جزاک اللہ۔
    شکریہ بہت بہت۔۔۔ :dilphool:
     
  13. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    :mashallah: بہت خوب عابد بھائی !
    آپ نے بہت ہی واضح طریقے سے موضوع کے مطابق دین اسلام کا حقیقی احکامات پیش کیے ہیں۔
    اللہ تعالی ہم سب کو سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔ آمین
     
  14. مون لائیٹ
    آف لائن

    مون لائیٹ ممبر

    شمولیت:
    ‏27 دسمبر 2007
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
    بھائی اس میں اتنا شدید اختلاف نہیں ہے ۔


    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
    يصوم شعبان كلہ كان يصوم شعبان إلا قليلا
    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً پورا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے تھے
    صحيح مسلم , كتاب الصيام , باب صيام النبي صلى الله عليه وسلم في غير رمضان واستحباب أن لا يخلي شهرا عن صوم , حديث:2778

    ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
    إذا انتصف شعبان فلا تصوموا
    جب نصف شعبان ہو جائے تو بعد میں روزے نہ رکھو۔
    سنن أبي داود , كتاب الصوم , باب في كراهية ذلك , حديث:2339

    ظاہری طور پر درج بالا دونوں احادیث میں ہر چند کہ تعارض نظر آتا ہے۔ مگر یہ حقیقی تعارض نہیں ہے۔ ذیل میں دو ائمہ دین کی تشریح ملاحظہ فرمائیں تو ان شاءاللہ شبہ دور ہو جائے گا۔
    حافظ ابن حجر العسقلانی رحمة اللہ علیہ "فتح الباری" میں لکھتے ہیں :
    شعبان میں کثرتِ صیام کی فضیلت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرتِ صیام کی سنت
    اور
    شعبان کے نصف ثانی کے روزوں کی ممانعت
    میں کوئی تعارض و تضاد نہیں ہے۔
    اور ان دونوں باتوں میں یوں مطابقت پیدا کرنا ممکن ہے کہ یہ ممانعت اُن لوگوں کے لیے ہے جو عموماً سال بھر کے دوران روزے رکھنے کے عادی نہ ہوں اور کسی وجہ سے شعبان کے نصف ثانی میں (نفلی) روزے شروع کر دیں۔
    جبکہ جو شخص ہر مہینے میں ہر دوسرے دن کا روزہ (یعنی صوم داؤدی) یا ہر ہفتہ میں پیر و جمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو ، اسے شعبان کے نصف ثانی میں روزے رکھنے کی بھی ممانعت نہیں ہوگی۔
    لہذا دونوں طرح کی احادیث کا تعارض ختم ہو گیا۔
    ملا علی قاری حنفی رحمة اللہ علیہ "المرقاة" میں لکھتے ہیں :
    اقتباس:
    نصف شعبان میں روزے رکھنے کی ممانعت کی وجہ دراصل یہ ہے کہ شعبان کے روزے چاہے کتنے ہی فضیلت والے کیوں نہ ہوں مگر ہیں تو نفلی جبکہ آگے رمضان المبارک کے فرض روزوں کا مہینہ ہے لہذا اُس کی تیاری کے لیے قوت جمع کی جائے تاکہ آدمی کہیں کمزوری و ضعف کا شکار نہ ہو جائے اور کہیں ماہ رمضان کے فرض روزوں میں قضا کی نوبت نہ آ جائے۔
    http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?p=84264#post84264
     
  15. جنید آذر
    آف لائن

    جنید آذر ممبر

    شمولیت:
    ‏9 فروری 2016
    پیغامات:
    17
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں