1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بتائیں،سکھائیں اور عمل کروائیں ۔۔۔۔۔ نجف زاہرا تقوی

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏1 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بتائیں،سکھائیں اور عمل کروائیں ۔۔۔۔۔ نجف زاہرا تقوی

    گزشتہ دور کی نسبت آج کے بچوں کی تربیت کرنا مشکل ہے
    بچپن کے دور کو سیکھنے کے لیے بہترین مانا جاتا ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے کا ذہن پوری تیزی سے کام کر رہا ہوتا ہے۔یہ جو دیکھتا ہے سیکھ جاتا ہے جو سُنتا ہے بولنے لگتا ہے اور جو کام کسی کو کرتے دیکھے اسی کو عادت بنا لیتا ہے۔اسی لیے بڑے بہن بھائیوں اور خاص طور پر والدین کے لیے کہا جاتا ہے کہ چھوٹے بچے کے سامنے کوئی بھی کام یا بات سوچ سمجھ کر کریں،کیونکہ چھوٹا بچہ اس کا فوری اثر لے گا۔ بچو ں کی تربیت کرنا آسا ن ہوتا تو رب والدین کیلئے اجر کا اعلان نہ کرتا
    موجودہ دور میں بچوں کی تربیت کا طریقہ کار تیزی سے تبدیل ہوا ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ جدید دور اور ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال ہے۔پہلے بچوں کو والدین جو بتا دیتے تھے وہ اسی کو ساری زندگی کیلئے حقیقت مان لیتے تھے جبکہ آج آپ کے منہ سے نکلی ہر بات کے بارے میں بچہ سوال کریگا۔کوئی کام وہ تب تک نہیں کریگا جب تک کوئی ٹھوس وجہ بتا کر اسے مطمئن نہ کر دیا جائے ۔موبائل فونز اور انٹر نیٹ کے باعث بچے اچھی طرح جان چکے ہیں کہ نیند نہ آنے پر جن انہیں پکڑنے نہیں آئے گا۔ایسے میں بچوں کو ادب و آداب اور زندگی گزارنے کے اصول کس طرح سکھائے جائیںآئیے اس بارے میں بات کرتے ہیں۔

    اخلاقیات کا پہلا سبق جو دین نے ہمیں سکھایا ہے وہ سلام میں پہل کرنا ہے۔کسی بھی انسان کو ملتے ہوئے جب آپ مُسکرا کر اس پر سلامتی بھیجتے ہیں تو یہ آپ کی تربیت اور سُلجھی ہوئی شخصیت کی نشاندہی کرتا ہے۔اس لیے بچوں کو بھی چھوٹی عمر سے ہی پہلا سبق جو سکھانا لازم ہے وہ سلام میں پہل کرنا ہے۔آج کل کے بچے اگر سلام نہ کریں تو ماں،باپ اکثر عذر پیش کرتے ہیں کہ مہمانوں کے آگے شرماتا ہے یا بچے کی اس حرکت کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیتے ہیں،لیکن یاد رکھیں آج اگر آپ بچے کو نہیں ٹوکیں گے تو کل اس کی یہی عادت پختہ ہو جائے گی۔یہ وہ عادت ہے جو بچے کی تربیت میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔آپ ہمیشہ اپنے بچوں کو پُر تپاک سلام کریں اور بچے کو کم سے کم 3 بار زور دے کر یہ عمل کرنے کیلئے کہیں۔اگر بچہ باہر سے آتے ہوئے سلام کرنا بھول جاتا ہے تو آپ خود اسے سلام کر کے یاد دہانی کروائیں۔مہمانوں کوسلام نہ کرنے پر بچے کو ڈانٹیں مت لیکن ایسے میں بھی آپ بچے کو خود سلام کرلیں یا اسے پیار سے کہہ دیں کہ بیٹا !مہمانوں کو سلام کریں۔بچے کے ساتھ باہر جائیں تو اس کی عادت پختہ کرنے کیلئے راستے میں ملنے والوں کو بھی خود سلام کریں ،کیونکہ بچہ آپ کی بات چاہے مانے یا نہ مانے لیکن جو آپ کو کرتے دیکھے گا اس پرضرور عمل کرے گا۔

    عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے کھڑے ہوتے ہیں لیکن بچے انہیں دیکھ کر بھی بیٹھے رہتے ہیں اور ان کیلئے جگہ خالی نہیں کرتے۔اس بارے میں بھی بچے کو پیار سے سمجھائیں کہ جو آپ کر رہے ہیں وہ بد تمیزی میں شمار ہوتاہے۔جب بھی کوئی بڑا پاس آئے اور بیٹھنے کی جگہ نہ ہو تو کسی کے کہنے سے پہلے ہی آپ اپنی جگہ خالی کر دیں ، ایسا خود بھی بچوں کو کر کے دکھائیں۔مہمان کیلئے جگہ چھوڑ کر بچے کو دکھائیں گے تو وہ جلد اس عادت کو اپنا لے گا ۔ بظاہر عام سی نظر آنے والی بات بھی اکثر بد تہذیبی میں شمار ہوتی ہے اوردوسروں کیلئے ناگواری کا باعث بنتی ہے۔اکثر لوگ چلنے کے انداز پر خاص غور نہیں کرتے اور اسے نظر اندازکر دیتے ہیں،انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ چلنے کے دوران پیر گھسیٹ کر چلنا یا اس انداز میں چلنا کہ جوتا بہت آواز کرے آس پاس والوں کو آپ کی طرف متوجہ کرتا ہے اور غیر مہذب بھی لگتا ہے۔بچے کو بتائیں کہ پیر کو ہمیشہ ہلکے سے اٹھا کر چلیںا ور چلتے وقت جوتوں کی آواز نہ آئے۔اگر وہ پھر بھی نہ سمجھے تو اسے بار بار ٹوکیں اور چلتے ہوئے یاد کروائیں۔

    ہمارے ہا ں ایک تصور عام ہوتا جا رہا ہے کہ بچے کو بولتے ہوئے چُپ نہیں کروانا ورنہ اس کے اعتماد میں کمی آئیگی۔بولنے کے درمیان میں کسی کی بھی با ت کو ٹوکنا یقینا بُرا عمل ہے اور اگر ایسا بچوں کے ساتھ کیا جائے تو اس سے وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈرنے لگیں گے،لیکن آپ کو انہیں یہ ضرور بتانا ہے کہ با ت کب اور کہاں شروع کرنی ہے،یا محفل میں بیٹھے ہوئے کس طرح برتائو کرنا ہے۔اکثر مائیں یہ غلطی کرتی ہیں کہ وہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون پکڑا کر اپنے ساتھ محفل میں بٹھا لیتی ہیں۔پہلے تو لوگوں کی موجودگی میں بغیر ضرورت فون استعمال کرنا بدتمیز ی ہے جو بچہ کبھی نہیں جان پائے گا جب تک آپ اسے بتائیں گے نہیں ، اور دوسرا وہ محفل کے آداب بھی نہیں سیکھ پائے گا ۔ دوسری بات یہ کہ محفل میں بچوں کے سامنے کسی کی بُرائی کرنے سے گریز کریںورنہ بچے کی نظر میں یہ بھی کوئی بُرائی نہیں رہے گی۔اگر بچہ ضرورت سے زیادہ بڑوں کے درمیان بیٹھنے میں دلچسپی لینے لگے تو کوشش کریں کہ غیر محسوس کُن انداز میں اسے اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کیلئے بھیجا جائے ۔بچوں کو کھانے پینے کے آداب سکھانا بھی اس کی تربیت کا اہم ترین حصہ ہے۔عموماً مہمانوں کے سامنے کوئی بھی لوازمات رکھتے ہی میزبان کے اپنے بچے اس میں ہاتھ مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ماں ،باپ اگر ٹوکنے لگیں تو کوئی نہ کوئی روکنا شروع کر دیتا ہے کہ بچہ ہے کھانے دو وغیرہ،مگر ایسا ہر گز مت ہونے دیں اور بچوں کو سمجھائیں تا کہ بچہ کھانے پینے کے آداب سیکھ سکے۔

    یاد رکھیں! بچو ں کی تربیت کرنا اگر اتنا ہی آسا ن ہوتا تو پھر اللہ کی طرف سے ماں،باپ کیلئے اجر کا اعلا ن نہ کیا جاتا۔بچہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اور والدین کو اسے بھر پور انداز میں نبھانا چاہیے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں