وہی میری کم نصیبی ، وہی تیری بے نیازی میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی میں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟ یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوزو ساز رومی ، کبھی پیچ و تاب رازی وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی نہ زباں کوئی غزل کی ، نہ زباں سے باخبر میں کوئی دلکشا صدا ہو ، عجمی ہو یا کہ تازی نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا یہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی کوئی کارواں سے ٹوٹا ، کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی ٭ ٭ ٭ ٭
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوزو ساز رومی ، کبھی پیچ و تاب رازی واہ واہ پیر و مرشد کا کیا خوب کلام شریک کیا شراکت کا شکریہ سلامت رہیں
دنیا میں بہت سی شخصیات اپنے علم و ہنر اور کردار و عمل کی وجہ سے درخشاں ستاروں میں شمار ہوتی ہیں مگر علامہ محمد اقبال واحد شخصیت ہیں جنھیں کہکشاوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ ان کی سوچ کی پرواز، ان کی عمیق نظر اور کائنات کے سربستہ رازوں سے علم شناسی اور قرآن و سنت کی تعلیمات اس قدر جامع اور صادق ہیں کہ تاقیامت بھی ان کا فیض جاری رہے گا اور کسی عالم اور فاضل کی تحریر و تقریر پراثر نہیں ہوسکتی جب تک اس میں علامہ کے اشعار کا تڑکہ نہ لگا ہو۔ اللہ تعالی علامہ صاحب کے درجات بلند فرمائیں۔۔۔
واہ جناب کیا خوب کلام پیش کیا ہے۔۔۔۔۔۔ دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل! تو نِرا صاحبِ ادراک نہیں ہے وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن پُرکار و سخن ساز ہے، نم ناک نہیں ہے کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی اُن کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے کب تک رہے محکومی انجم میں مری خاک یا میں نہیں یا گردشِ افلاک نہیں ہے بجلی ہوں، نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری میرے لئے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے عالم ہے فقط مومنِ جاں باز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے!