1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

باقی سب خیریت ہے

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏2 مارچ 2011۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    انسان اپنے منصوبے بناتے ہیں، زندگی کے آمدہ دنوں کے نقشے کھینچتے اور ان میں رنگ بھرتے ہیں۔ یہ کام حکومتوں کی سطح پر زیادہ شدومد سے ہوتا ہے۔ تاہم ہر حکومت تو اپنے اپنے پروگرام مرتب کرتی ہے مگر امریکہ وہ ملک ہے جو تمام دنیا کے ’’دکھ‘‘ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے سو اس بے چارے کو پوری دنیا کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا پڑتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ ہوا اپنے تئیں اس نے ایک جامع پروگرام بنا رکھا تھا، نام تھا اس کا ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ دراصل اسے دنیا کا موجودہ نقشہ پسند نہیں آیا تھا، وہ کہتا تھا کہ پوری دنیا کی ازسرنو ترتیب ہو گی اور وہ امریکہ کی مرضی کے مطابق ہو گی۔ مسلمان بالعموم اور ان کا سرگرم جہادی طبقہ بالخصوص چوکوں اور چوراہوں میں ببانگ دہل بتایا کرتا تھا کہ اگرچہ امریکہ دنیا کی نیا کا ناخدا بن بیٹھا ہے مگر وہ خدا نہیں کہ دنیا میں اپنا حکم اور اپنی ترتیب لاگو کرے۔ مجاہدین کتاب سے پڑھا کرتے کہ ’’زمین اللہ کی ہے سو ترتیب اور حکم بھی اسی کا چلے گا‘‘ مگر ہمارے عوام اور ان کو کوئی نہ کوئی ’’راہ‘‘ دکھانے والے دانشور یہ ماننے کو تیار نہ ہوتے تھے اور سچی بات ہے کہ اک خاص قرآنی بصیرت کے بغیر یہ ماننا تھا بھی بڑا مشکل! امریکہ معیشت کا دیو تھا اور سرمایہ داری کے اک ایسے نظام کا خالق تھا جس نے پوری دنیا کی دولت کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا، پھر اس پر مستزاد اس کی فوجی اور عسکری طاقت تھی۔ بے پناہ عسکری وسائل کے ساتھ ساتھ وہ ایسے خفیہ آلات بھی رکھتا تھا جو بروبحر ہی نہیں فضائوں تک میں جھانک لیتے تھے۔ روس کے ساتھ اس کا عناد تھا، چنانچہ امریکہ دنیا کو اپنی بڑائی جتانے کے لئے بتایا کرتا کہ آج روسی صدر نے ناشتے میں کیا کیا لیا ہے۔ وہ کہتے تھے اگر کسی دور دراز اور بنجر و ویران علاقے میں کسی پتھر پر کوئی چیونٹی بھی رینگتی ہے تو ہم اپنے خلائی سیاروں کے ذریعے سے اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
    پھر اسی امریکہ نے عراق و افغانستان پہ حملہ کر دیا، شاید یہاں کے حکمرانوں نے امریکی چاکری قبول نہ کی تھی یا یہاں کے وسائل دیکھ کر امریکہ کے منہ میں پانی آ گیا تھا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ امریکہ جیسا ’’مہان‘‘ دہشت گردی پہ اتر آیا تھا اور اکثر مسلم حکمرانوں کے وسائل و حمایت اسے حاصل تھی، گویا چند دن کی بات تھی کہ ان دو باغیوں کو امریکہ سبق سکھاتا، ان کے معدنی ذخائر پہ قبضہ جماتا اور باقی دنیا پر اپنی ہیبت کی دھاک بٹھا دیتا۔ یہ سب کچھ تو یوں سمجھیے پوری طرح طے تھا، جزئیات مکمل تھیں اور پوری دنیا کے دانشور اس پر ایمان رکھتے تھے، ہاں کچھ سر پھرے تھے جو ناصرف امریکہ کی اُن ’’نیک تمنائوں‘‘ کا مذاق اڑاتے بلکہ امریکہ کو باز رہنے ورنہ انجام بد سے دوچار ہونے کی وعید بھی سناتے تھے، تاہم یہ ایک ہلکی آواز تھی۔ دنیا اس پر کان دھرنے اور امریکہ اسے سننے کا روا دار نہ تھا۔ دنیا کے لئے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ امریکہ کے پاس ’’ورلڈ آرڈر‘‘ تھا اور وہ اسے نافذ کرنے کی ٹھان چکا تھا۔ چودھراہٹ کا تاج سر پر اور دنیا بھر کے وسائل اس کے ہاتھ میں تھے، ساتھ دینے والے بازو بہت تھے اور حمایت پر اترے مسلم و غیر مسلم حکمران بھی کم نہ تھے، یعنی ہر طرح میدان صاف اور راستے ہموار تھے سو بالکل اس طرح جس طرح بدر میں ابو جہل اور اس کے ساتھی بہت سی ’’نیک خواہشات‘‘ لئے، راگ و رنگ کے سنگ ہنستے کھیلتے آئے تھے کہ ابھی ان ’’نئی آوازوں‘‘ کو خاموش کرتے، دنیا کو امن کا تمغہ دیتے واپس آ جاتے ہیں۔ یہی سوچ کے پیش قدمی کی تھی امریکہ نے …مگر پھر جانے کیا ہوا کہ نئی آوازوں نے خاموش ہونے میں کچھ وقت لینا شروع کر دیا، پھر یہ وقت دراز ہونے لگا اور پھر تو حد ہی ہو گئی کہ نئی آوازوں نے پست ہونے کے بجائے بلند ہونا اور دنیا بھر میں گونجنا شروع کر دیا، پھر یہ گونج عراق کے ریگ زاروں اور افغانستان کے پہاڑوں سے بے تحاشا نکلنے اور چہارسو پھیلنے لگی۔ اس گونج نے دانشوروں، مرعوب تخمینہ کاروں اور عسکری ماہرین کو حیران کر دیا، چنانچہ وہ اپنی سابقہ ’’دانش‘‘ سے شرمندہ سے رہنے لگے۔ امریکہ جو کل کی سچائی تھا آج کی پسپائی ہو گیا۔ وہ امریکہ جو پاکستان آرمی کے خلاف ’’روگ آرمی‘‘ کے پروپیگنڈے کیا کرتا تھا، اپنی باعزت واپسی کے لئے اسی ’’روگ آرمی‘‘ کے درکا بھکاری ہو گیا۔ وہ امریکہ جس کے ڈالر نے بہت سے حکمرانوں کے معدوں پہ جادو کر رکھا تھا، اپنے ہی عوام کے لئے ناکافی ہونے لگا۔ وہ امریکہ جو کل ایک فون کال پہ مشرف جیسے ’’کمانڈوز‘‘ کو سرنڈر کر لیا کرتا تھا آج اس کا حال یہ ہوا کہ اس کی ساری طاقت و ہمت کے باوجود ادھر سے ’’ہاں‘‘ ہونے کو نہیں آ رہی۔ شاید ریمنڈ کے کیس نے امریکی رعونت کا آخری کس بل بھی نکال کے رکھ دیا ہے۔
    آپ اندازہ تو کیجئے سپر پاور امریکہ کے صدرِ جہاں پنا، خود دنیا کے سامنے آ کر اعلان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں ریمنڈ سفارتکار ہے مگر ہمارے وہ حکمران کہ جن کی لغت میں کم از کم امریکہ کے لئے کبھی ’’ناں‘‘ نہیں ہوتا، وہ مسکراتے ہوئے انکار میں سر ہلا دیتے ہیں۔ توبہ توبہ!! کیا زمانہ آ گیا ہے کہ سپر پاور کو ناں! ’’ورلڈ آرڈر‘‘ کی زلفیں سنوارنے والے امریکہ کو ’’ناں‘‘ پھر تو صاحب یہ امریکی دیوار کیا گری گویا کئی قیامتیں ہی گزر گئیں۔ جناب کیری صاحب آئے، وہ سینٹ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین اور سابقہ صدارتی امیدوار تھے، پاکستان کے محسن بھی تھے کہ کیری لوگر بل وغیرہ کا ان کا کوئی احسان بھی ہم پہ تھا۔ سو وہ بصد شوق اور بہ ہزار ادا آئے مگر ہوا وہی، یعنی…؎
    نکلنا خلا سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
    بہت بے آبرو ہو کے تیرے کوچے سے ہم نکلے
    اب جناب ہیلری کلنٹن نے گئے دنوں کے واسطے دیئے مگر ادھر ہمارے شاہ جی ہیں کہ وہ بڑی رسان سے کہتے ہیں، ’’ہمیشہ نہیں، مگر کبھی کبھی تو سر اٹھا لینا چاہئے‘‘، ہیلری پریشان ہے کہ ارے ظالم تمہیں بھی کیا اب اسی وقت سر اٹھانا یاد آنا تھا؟ یعنی…؎
    کی میرے قتل کے بعد جفا سے توبہ
    ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
    اوبامہ کی سنی نہ گئی، ہیلری کے واسطے وسیلے ناکام رہے۔ اب روزانہ امریکی دفتر خارجہ یہ راگِ درباری چھیڑتا ہے، ’’ریمنڈ سفارتکار ہے، اس کو سفارتی استثنا حاصل ہے‘‘۔
    دنیا حیرت زدہ ہے کہ مٹی کے مادھو اور امریکہ کے معاملے میں بالکل سادھو یہ ہمارے صدر، یہ وزیراعظم اور ہمارے خارجہ امور کے سابقہ وزیر کو ہو کیا گیا ہے کہ ہر طرف سے اک ہی بے نیازانہ مسکراہٹ اور ہر امریکی دبائو پہ کندھے اچکا دینے کی وہی اک معصومانہ حرکت… دنیا سوچتی ہے کہ کیا امریکہ کے پلے کچھ نہیں رہا یا یہ لوگ ذہنی توازن ہی کھو بیٹھے ہیں۔
    قارئین! یہ آج کے حالات کی اک جھلک ہے۔ سچ ہے، یہ لوگ بھی منصوبے بناتے ہیں، ادھر آسمان والے رب کے منصوبے بھی ہوتے ہیں اور پھر سورہ یوسف میں ہے کہ اللہ اپنے منصوبے بروئے کار لانا اور ان کے لئے سازگار حالات پیدا کرنا خوب جانتا ہے، مگر یہ جمہوریت زدہ لوگ نہیں جانتے۔ ’’جمہوریت زدہ‘‘ ہم نے قرآن کے لفظ ’’اکثرہم‘‘ سے لیا ہے کیونکہ اکثریت ہی جمہوریت کا دوسرا نام ہے۔
    بہرحال اب کل کے دنیا کے دادا جی کا آج کا حال یہ ہے کہ عراق و افغانستان کی دلدل میں وہ یوں پھنسا ہے کہ اس کی معیشت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے سارے دوست جنہیں عوامی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے، اس حیران کن انقلاب کی زد پہ ہیں، مصر میں معاملات کی ابتدا میں تو امریکہ نے اپنے دوست حسنی کو بچانے کی کوشش کی مگر اللہ کے بہائے حالات کے دھارے کے سامنے وہ زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے اور بالآخر اپنا وزن عوام کے پلڑے یعنی اپنے ہی خلاف ڈال دیا۔ یہ اک نیا ورلڈ آرڈر ہے جو اگرچہ امریکی ترتیب سے ہم آہنگ نہیں مگر یہ بروئے کار آ رہا ہے۔
    مشرق وسطیٰ کے سانحات، عراق و افغانستان کے حالات اور اب پاکستان کے عجوبہ واقعات نے ناصرف امریکہ بلکہ ساری دنیا کو سمجھا دیا ہے کہ سپر پاور وہ نہیں جو زمین پہ ہے بلکہ یہ پاور کہیں اوپر آسمانوں میں ہوتی ہے۔
    قارئین آیئے آج اپنے حکمرانوں کی بھی تحسین کر لیں کہ آج یہ حرفِ انکار تک آ گئے ہیں۔ اگرچہ عین ممکن ہے کہ عدالت یا ورثاء سے معاملات طے کر کے ہماری حکومت ریمنڈ کا معاملہ امریکی مرضی سے حل کرنے میں کامیاب ہو جائے مگر قارئین پھر بھی مایوسی کی بات نہیں دراصل جہاں تک ہم آ گئے ہیں یہ بھی اتنا کچھ ہے کہ جس کی ابھی کسی کو توقع نہ تھی۔ ان شاء اللہ آزادی اور غیرت کا اگلا سفر اور تیزی سے طے ہو گا۔ بہت کچھ بدلا ہے اور جو رہ گیا ہے وہ بھی ضرور بدل جائے گا۔ بس عوام کو اسی طرح بیدار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ خربوزوں کے کھیت کی رکھوالی پہ بندوق پکڑے بیٹھے ایک شخص سے کسی نووارد نے پوچھا: اس بستی کے لوگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا، نہایت دیانتدار اور امین لوگ ہیں‘‘، مگر تب آپ نے ہاتھ میں بندوق کیوں تھام رکھی ہے؟ نووارد نے پوچھا۔ ’’تاکہ یہ لوگ اپنی شرافت اور دیانت پر قائم رہ سکیں‘‘، اس شخص نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ تو اے قارئین! آپ کے حکمران بھی ’’شریف اور دیانتدار‘‘ ہو چکے ہیں۔ اب یہ آپ کا فرض ہے کہ مقتولین کے ورثاء کے ساتھ کھڑے رہیے، ان کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے رہیے تاکہ ہماری حکومت اپنی شرافت سے ہٹنے نہ پائے اور اب ان شاء اللہ باقی سب خیریت ہے!

    بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔ہفت روزہ جرار

    والسلام ۔۔۔ علی اوڈ راجپوت
    ali oad
     
  2. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: باقی سب خیریت ہے

    قارئین! آپ کے حکمران بھی ’’شریف اور دیانتدار‘‘ ہو چکے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں