1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بادشاہ کو اونچا کیوں سنائی دیتا ہے؟

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏13 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بادشاہ کو اونچا کیوں سنائی دیتا ہے؟

    حکایت ہے کہ شیطان کچھ خچروں پر کچھ سامان لادے جا رہا تھا کہ اس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سامنا ہو گیا۔ پوچھا: کہاں جا رہے ہو اور ان خچروں پر کیا ہے؟ کچھ سامان ہے، بیچنے جا رہا ہوں، شیطان نے جواب دیا۔ پہلے خچر پر کیا ہے؟ شیطان بے جھجک بولا: اس میں ظلم ہے۔ پوچھا گیا: یہ کون خریدے گا؟ ''بادشاہ‘‘ شیطان نے جواب دیا۔ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: دوسرے خچر پر کیا ہے؟ اس پر دھوکا ہے اور اسے تاجر خریدیں گے۔ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام پوچھتے رہے اورشیطان جواب دیتا رہا۔ تیسرے خچر پر تکبر ہے اور اس کے زیادہ تر خریدار زمیندار ہوتے ہیں۔ چوتھے خچر پر حسد رکھا ہے اور اس کو عالم اور پادری ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں...یہ واقعہ مولانا دمیری کی معروف کتاب ''حیات الحیوان‘‘ میں درج ہے۔ نجانے کیوں گزشتہ ایک ہفتے سے کتاب کا یہ صفحہ بار بار میرے سامنے آکر سینہ کوبی کر رہا ہے۔ نجانے کیوں ہر گھڑی الجھنوں کے در کھل رہے ہیں۔ نجانے کیوں مایوسی اور بے بسی بے پناہ ہو رہی ہے۔ نجانے کیوں؟
    حضر ت عیسیٰ ؑ کا شیطان سے یہ مکالمہ انسان کے باطن کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ آدمی ظلم ایسے ہی نہیں کماتا، انسان ایسے ہی دھوکا، فریب اور جعل سازی نہیں کرتا، ایسے ہی تکبر اور گھمنڈ کے بلند و بالا مینار پر نہیں چڑھتا، ایسے ہی حسد اور نفرت کی بھٹی میں نہیں جلتا اور ایسے ہی جھوٹ اور مکر کی گندی چادر نہیں اوڑھتا۔ کوئی طاقت ہے‘ جو اُسے اِس طرف مائل کرتی ہے۔ کوئی قوت ہے جو اس کے ارادوں کو روند ڈالتی ہے، جو انسان سے انسانیت اور آدمی سے آدمیت چھین لیتی ہے۔ جب بھی کوئی شخص اس مقام کو پا لیتا ہے تو وہ ضدی بھی ہو جاتا ہے اور نرگسیت کا شکار بھی۔ وہ خود کو عقلِ کل بھی سمجھتا ہے اور عزت وتکریم کا حقدار بھی۔ پھر انسان سوچتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ ارادہ الگ باندھتا ہے اور عمل الگ۔ پھر وہ سرکش ہواؤں کی چیخیں سن کر بھی مطمئن رہتا ہے اور انسانوں کی دھاڑیں بھی اسے موم نہیں کر پاتیں۔ بے حسی غیر مرئی طاقت کی طرح اس کے اندر گھل جاتی ہے اور انسان شکست ویاس کے احساس میں جلتا بھی ہے اور امید کی تخم ریزی کر کے جیتا بھی۔ اس کے ہاں دلفریب ایام اور وحشت ناک راتوں کا فرق ختم ہو جاتاہے۔ وہ خود فریبی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر لمحہ اپنی ذات کو آدمیت کی معراج پر دیکھتا ہے۔
    اس بات پر غور کریں کہ شیطان نے کیوں کہا کہ ظلم کے خریدار بادشاہ ہوتے ہیں؟ ظلم صرف یہ نہیں ہوتا کہ آپ ناحق کسی کی جان لے لیں، کسی یتیم کا مال ہتھیا لیں اور کسی بیوہ کی جائیداد پر قبضہ کر لیں۔ رعایا کی داد رسی نہ کرنا بھی ظلم ہے، روتے کے آنسو نہ پونچھنا بھی بے حسی ہے، وقت پر انصاف نہ کرنا بھی انسانیت کا قتل ہے۔ وعدہ خلافی بھی حق تلفی کی سیڑھی پر پہلا قدم ہے۔ کمزور اور مظلوم سے ضد لگانا بھی سینہ زوری ہے۔ اپنے فرائض سے غافل ہونا بھی عوام کا استحصال ہے۔ تاریخِ انسانی کے مطالعے سے ایک بات عیاں ہے کہ مذکورہ بالا سارے کام بادشاہوں کے من پسند مشغلے رہے ہیں۔ ظلم انہیں تسکین دیتا ہے اور ناانصافی راحت بخشتی ہے۔ عوام کی چاہت وقتی ہوتی ہے اور انانیت مستقل۔ فنا کی ساعتیں انہیں بدل سکتی ہیں نہ ماؤں کی چیخ و پکار، بلکتے بچے نہ سسکتی بہنیں۔ بادشاہ رعایا کی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں مگر اپنی عزتِ نفس نہیں۔ ظلم کو فوری گلے لگا لیتے ہیں مگر مظلوم کو نہیں۔ عوام دھرنے دیں یا لانگ مارچ کریں، جلسوں کا انعقاد کریں یا جلوسوں کا۔ بھوک ہڑتال کریں یا خود سوزی۔ بادشاہ ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہیں وہ کبھی کسی کے آگے 'بلیک میل‘ نہیں ہوتے۔ وہ کبھی دہائی دیتے عوام کو دلاسا دینے میں پہل نہیں کرتے۔ عباس تابش ؔنے ایک شعر میں سارے عقدے ہی کھول دیے۔
    دہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے
    کہ بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے
    دیکھا جائے تو سارے صاحبِ اختیار لوگ بادشاہ ہی ہوتے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی سلطنت ہوتی ہے اور اپنی اپنی رعایا۔ کہیں بادشاہت نے جمہور کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے تو کہیں آمریت کا۔ کہیں عوام اپنے بادشاہ کا انتخاب خود کرتے ہیں اور کہیں طاقت کے زور پر عوام پر بادشاہ مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ان بادشاہوں کا طریقۂ انتخاب الگ ہوتا ہے مگر یہ سب عوام کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ آج سے نہیں‘ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔ قدیم بادشاہوں کے ہاں بھی یہی رِیت تھی اور جدید بادشاہوں کے بھی ایسے ہی رواج ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ جمہوریت نے بادشاہ کا نام بدل دیا ہے مگر طور طریقے نہیں۔ اختیارات بدل دیے مگر ان کا استعمال نہیں۔ قانون دے دیا مگر اقدار نہیں۔ دماغ دے دیا مگر دل نہیں۔ فہم چھین لیا مگر جنون نہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ ظلم وصیت در وصیت بادشاہوں میں چلا آ رہا ہے۔ یہ کل بھی تھا، یہ آج بھی ہے۔
    بادشاہ یونانی ہوں یا رومن، ایرانی ہوں یا ہندوستانی، تارتاری ہوں یا افغان۔ ان سب میںجو ایک بات مشترک تھی۔ وہ یہ کہ سب اپنی سلطنت کے لیے ہمہ وقت ظلم کرنے پر آمادہ رہتے۔ کوئی کھوپڑیوں کے مینار بناتا تو کوئی لہو سے تلوار سرخ رکھتا۔ کوئی اصول تھے نہ ضابطے۔ سب سے سستا عوام کا خون تھا یا بادشاہ کا ظلم۔ سب سے مہنگا عوام سے انصاف تھا یا بادشاہ کے منہ سے نکلی بات۔ کوئی جائے اور دلّی، بغداد اور روم کے باسیوں سے پوچھے کہ بادشاہ کا ظلم کیا ہوتا ہے۔ امیر تیمور ہو یا ہلاکو خان، مغل ہوں یا سکھ، مرہٹے ہوں یا راجپوت، خلجی ہوں یا لودھی۔ سب ظلم کے خریدار تھے۔ لاشیں اور خون دیکھ کر ان کی زندگیاں مہکتی تھیں۔صرف اتنا ہی نہیں‘ پول پاٹ جو ماضی قریب کا کمبوڈین حکمران تھا‘ اتنا ظالم تھا کہ سائنس دانوں، اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کو پھانسیاں دے کر قہقہے لگاتا تھا۔ اس کے دور میں بیس لاکھ افراد موت کے منہ میں گئے مگر اُسے کسی ناحق قتل پر کبھی شرمندگی نہ ہوئی۔ لیو پولڈ دوم بلجیم کا بادشاہ تھا۔ وہ ہمیشہ عوام کی منشا کے خلاف جاتا۔ اس نے کانگو پر حملہ کرکے لگ بھگ ایک کروڑ لوگوں کو قتل کیا۔ وہ خون کی ''مہک‘‘ کا دیوانہ تھا۔ ہیراڈ اعظم یہ اتنا سفاک شخص تھا کہ اپنی جان بچانے کے لیے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرواتا۔ اس بدبخت فلسطینی بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوبھی شہید کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ لوگوں کو دکھی اور روتا دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ اس بے لذت تسکین کو حاصل کرنے کے لیے اس نے اپنے تین بیٹے، بیویاں، ساس اور باقی رشتہ دار بھی قتل کیے۔ چنگیز خان ظلم اور بریریت کا دوسرا نام تھا۔ وہ جہاں جاتا عوام پر ظلم ڈھاتا، لائبریریوں اور شفا خانوں کو آگ لگا دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔ کہا جاتا ہے اس کی سلطنت میں چار کروڑ کے قریب لوگ جنگوں کی نذر ہوئے۔ وہ موت کا سوداگر تھا۔ کلیگولا رومن بادشاہ تھا۔ یہ انتہائی جنونی اور وحشی تھا۔ عوام کو بھوک اور افلاس سے مارتا مگر خود عیاشی کرتا۔ اتنا بے حس تھا کہ رات کے کھانے کے وقت ایک زندہ شخص کو آرے سے چیرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ظلم اس کی محبوبہ تھی۔
    اقتدار ایک نشہ ہے جو بھلے سے بھلے حکمران کو بھی سنگدل بنا دیتا ہے۔ سارے حکمران یاد رکھیں اللہ کریم کا وعدہ ہے ''کوئی نہیں اٹھایا جائے گا جب تک اس کا باطن بے نقاب نہیں ہوتا‘‘۔ آج دنیا بھرمیں جمہور کا راج ہے۔ اس نظام سے امید باندھی جا سکتی ہے کہ آج نہیں کل‘ ظلم کی داستان میں موڑ ضرور آئے گا۔ ہمیں کسی طور امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، امید ہی وہ طاقت ہے جو زمین پر جنت کی تخلیق کرتی ہے اور زندگی کو حسین اور شیریں خواب میں تبدیل کر تی ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں