1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک ہاتھ سے مصافحہ شریعت کی رو سے

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏25 مارچ 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس وقت میر اہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا ( اس طرح سکھایا ) جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھا یا کرتے تھے۔
    ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا احادیث صحیحہ صریحہ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہایت صاف طور پر ثابت ہے اس کے ثبوت میں ذرا بھی شک نہیں ہے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا جس طرح اس زمانہ کے اندرحنفیہ میں رائج ہے نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور نہ کسی صحابی کے اثر سے اور نہ کسی تابعی کے قول وفعل سے اور ائمہ اربعہ ( امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم ) سے بھی کسی امام کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا، اس کا فتویٰ دینا بسند منقول نہیں.
    حنفیہ کے نزدیک جو نہایت مستند اور معتبر کتابیں ہیں جن پر مذہب حنفی کی بنا ہے، ان میں بھی دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کا مسنون یا مستحب ہو نا نہیں لکھا ہے۔
     
  2. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک ہاتھ سے مصافحہ شریعت کی رو سے

    اللہ ہمیں قرآن و سنت پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
     
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک ہاتھ سے مصافحہ شریعت کی رو سے

    امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اچھائی پر عمل پیرا رہے اور اس کی دوسروں کو ترغیب دے اور برائی سے خود محفوظ رہے اور دوسروں کو اس کی دعوت دے۔

    یہ کام کیونکہ انبیاء نے انجام دیا ، پس اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے احکامات دوسروں تک پہنچائیں تاکہ دنیا محفوظ و مامون بن جائے۔

    اچھائی کے کام، ابتداء میں چھوٹے چھوٹے ادا کرنے آسان لگتے ہیں اور بعدمیں بڑے بڑے اچھے کام بھی انسان کی سکت میں ممکن ہوجاتے ہیں۔

    اس کے برعکس برائی کیلئے پہلے بڑے بڑے کاموں سے دور ہٹیئے اور بعد میں چھوٹے چھوٹے برائی کے اعمال سے پناہ مانگیئے۔

    جب ہم برائی اور بھلائی کیلئے مندرجہ بالا معیار کو اختیار کریں گے تو ہمیں مصافحہ والے سوالوں کی شاید ضرورت نہ ہو، کہ اللہ سبحانہ و تعالی اس کی راہ پہ چلنے والوں کے دلوں میں ایمان کی دولت پھونک دیتے ہیں۔

    میں نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے، ضروری نہیں کہ آپ لوگ مجھ سے متفق ہوں۔

    اللہ سبحانہ و تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ اور ہمارے پیارے ملک کو مشکلات سے نجات دلائیں اور تمام خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اپنے پسندیدہ افراد کو زمام اقتدار سونپیں۔
    آمین۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک ہاتھ سے مصافحہ شریعت کی رو سے

    محترم قارئین ۔
    اگر آپ غور فرمائیں تو محترم زبیر احمد نے ایک ہاتھ سے جو مصافحہ کی جو حدیث بطور دلیل یہاں رقم کی ہے گوکہ اسکا عربی متن یہاں‌درج نہیں فرمایا ۔لیکن اسکے ترجمے سے بھی عیاں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیوں یعنی دونوں ہاتھ مبارک کے درمیاں صحابی کا ہاتھ تھا۔
    یعنی دونوں ہاتھوں سے مصافحہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
     
  5. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: ایک ہاتھ سے مصافحہ شریعت کی رو سے

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ
    اسلام دینِ ادب ہے۔ دینِ اخلاق ہے۔ دینِ اسلام میں ہر ادب، ہر اخلاق، ہر تہذیب اپنی اعلی و ارفع صورت میں موجود ہے۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں بادی النظر میں بھی تکبرو رعونت کا شائبہ ملتا ہے۔ جبکہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے میں‌کمال ادب، خوش اخلاقی اور خوش تہذیبی نمایاں ہوتی ہے۔ خیر آئیے شرعی نقطہ نظر سے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں۔

    دین اسلام کی اعلی و ارفع کامل تعلیمات اور آدابِ اسلام میں ایک سلام کرنا اور مصافحہ کرنا بھی ہے ،حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نےآپس میں سلام کو عام کر نے کا حکم دیا ہے اور اس کو محبت کا زریعہ فرما یا ہے اور –
    حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کانت المصافحۃ فی اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہم مصافحہ کیا کرتے تھے(صحیح بخاری2/926)
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا:ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفرلھماقبل ان یتفرقا- جب دو مسلمان ملاقات کرتے اور مصافحہ کرتے ہیں ۔تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔(رواہ احمدوالترمذی وابن ماجہ)
    اتنی بات واضح ہو گئي کہ مصافحہ کر نا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کا طریقہ رہا ہے ، اسی لیۓ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں جو بذات خود محبت ، الفت اور اتفاق و اتحاد کا پیغام ہے اور مصافحہ بھی کرتے ہیں ،سلام اور مصافحہ کر نے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے –
    ماضی قریب میں ایک مخصوص طرز فکر کے غیر مقلدین مبلغین نے جہاں دین اسلام میں دیگر متعدد مسلمات کو بدعت و گمراہی کی زد میں‌ رکھ کر امت مسلمہ کے اندر بےشمار اختلافات کو جنم دیا اسی طبقے نے مصافحہ کے طریقہ کو بھی فی زمانہ وجہ اختلاف بنا ڈالا ۔ مصافحہ مسلمان اظہار محبت کے لیۓ کیاکرتے تھے ،امت کو بدعت و گمراہی کے جال مین‌پھنسانے والے بعض نادان مبلغین سے و یہ الفت وہ محبت بھی دیکھی نہ گئی چنانچہ اس مصافحہ پر بھی بےبنیاد اختلافات کو ہوا دے ڈالی
    حالانکہ اہل اسلام میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ متوارث و متواتر تاریخ اسلام کا حصہ رہا ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ وہ تابعین علیھم الرضوان کا یہی معمول تھا –
    حضرت امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا :باب المصافحۃ، اس میں حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    علمنی النبی صلی اللہ علیھ وسلم التشھدوکفی بین کفیھ۔(صحیح بخاری2/926)
    مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشھد سکھایا،اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا-
    امام بخاری رح نے اس روایت کو مصافحہ کے باب میں نقل کیا تاکہ مصافحہ کا سنت طریقہ ثابت ہوسکے۔ ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وضاحت کے لیۓباب الاخذبالیدین یعنی دونوں ہاتوں سے مصافحہ کا باب علیحدہ قائم فرماکراس میں صحابہ کرام کے بعد حضرات تابعین کے عمل کو واضح کرتے ہوۓ فرما یا:حضرت حماد رض نے حضرت ابن مبارک رح سے دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا - (2/9)
    اس کے بعد امام بخاری علیہ الرحمہ نےاسی حديث ابن مسعود کو دوبارہ اس باب کے تحت بھی نقل کیاتاکہ دو ہاتھ سے مصافحہ کر نے میں کویئ شبہ باقی نہ رہے اور اس کا سنت رسول صل اللہ علیہ وسلم مزید واضح ہوجائے
    دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کا یہی سنت طریقہ امت مسلمہ میں ہمیشہ جاری و ساری متوارث رہا ہے-
    حتی کہ برصغیر پا ک و ہند میں انگریزکی آمد سے پہلے کسی اسلامی کتب میں دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کوبدعت اور خلاف سنت نہیں کہا گیا۔بلکہ اس دور میں واقعہ یہ ہوا کہ مسلمان جب آپس میں ملتے تودو ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے،لیکن انگریز جب ایک دوسرے سے ملتے توایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے،ان کے اس طریقے کو پہلے انگریزوں کے غلاموں نے اپنا یا اور فوج و تعلیمی اداروں میں ایک ہاتھ سے مصافحہ کا رواج شروع ہوا ۔ اسی رواج کی تقلید میں غیر مقلدین حضرات بھی صرف ایک ہاتھ یعنی دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنا شروع ہوگئے ۔ اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ مسلمانوں کے متوارث اور مسلمہ سنت طریقہ یعنی دو ہاتھ سے مصافحہ کو بدعت اور خلاف سنت قرار دیدیا
    اتنی معروف سنت اور اسلامی طریقے کو مٹانے کا نام احیاء سنت رکھا گیا،اس طرح سلام اور مصافحہ جو آجتک مسلمانوں میں محبت اور الفت کا ذریعہ تھاوہ بھی اختلاف اور نزاع کا ذریعہ بن کے رہ گیا
    اس سلسلے میں جب غیر مقلد حضرات سے دلیل کے مطالبے ہوۓتو کہنے لگےکہ بعض احادیث سلام میں اخذ بالید اخذ بیدہ کے الفاظ ملتے ہیں اور یہ واحد ہے جس سے معلوم ہواکہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیۓ- اہل علم، اوربالخصوص علم حدیث کو سمجھنے والے اہل سنت والجماعت یہ سن کران غیر مقلدین حضرات کی حدیث دانی پر سخت حیران ہوۓ،کیونکہ انسان کے جسم میں جو ایک سے زائد اعضا ہیں ان کے لیۓ بھی بطور جنس ہر زبان میں واحد کا صیغہ بولا جاتا ہے
    اس اصول کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے " میں آپ کے گھر میں قدم نہیں رکھوں گا" ۔۔ یا "فلاں کا قدم بابرکت ہے" یا "اس کی کامیابی کے پیچھے فلاں کا ہاتھ ہے" یا "فلاں مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا" تو کیا ایسی مثال سے یہ سمجھ لیا جائے کہ قدم سے مراد صرف ایک ہی پاؤں ہے ؟ یا ایک ہی ہاتھ ہے یا ایک ہی آنکھ ہے؟؟؟
    صاف ظاہر ہے بولنے میں ایک قدم بولا جاتا ہے ،مگر مراد دونوں قدم لیۓ جاتے ہيں
    ہوسکتا ہے کوئی کہہ دے یہ تو جناب آپ نے اردو کے ضرب المثال جملے لکھ دیے جبکہ عربی یا حدیث میں ایسا نہیں۔
    تو آئیے ہم صحیح حدیث پاک سے ہی اسکا جائزہ لے لیتے ہیں ۔
    معروف حدیث ہے کہ حضور اکرم ‎صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:المسلم من سلم المسلمون من لسا نھ ویدہ :مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے –
    یہاں پر بھی ید واحد یعنی ایک ہاتھ ہی کا صیغہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف ایک ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچاۓ اور دوسرے ہاتھ سے بے شک تکلیف پہنچایئ جاسکتی ہے –
    بعینہ تمام اہل اسلام نے مصافحہ کے باب میں لفظ ید سے جنس ید مراد لے کر دو ہاتھوں سے ہی مصافحہ کو سنت قرار دیا ہے -
    امام بخاری علیہ الرحمہ اپنی تاریخ میں فرما تے ہیں: حدثنی اصحابناوغیرہ عن اسماعیل بن زید وجاءہ ابن مبارک بمکۃ وصافحھ بکلتا یدیہ ۔ (حاشیہ بخاری2/926)
    اسماعیل بن ابراھیم رح فرماتے ہیں کہ میں نے حماد بن زید رح کو دیکھا کہ ان کے پاس عبداللہ بن مبارک رح مکہ مکرمہ میں تشریف لاۓتو آپ نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا –
    یاد رہے کہ یہ دونوں بزرگ اپنے زمانے میں اماالمحدثین تھے – -
    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے فرما یا:قد بایعتک میں نے تجھے بیعت کیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ صرف کلام سے بیعت فرما یاہاتھ پکڑکر بیعت نہیں فرما یا – علامہ قسطلانی ارشاد الساری شرح بخاری اور علامہ عینی عمدۃ القاری شرح بخاری اس کی شرح فرماتے ہیں :ائ لا بالیدکما کان یبایع الرجال بالمصافحۃ بالیدین۔
    یعنی ہاتھ سے بیعت نہیں فرمایا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو بیعت کرتے وقت دونوں ہاتھ سے مصافحہ کیا کرتے تھے-
    اللہ پاک ہم تمام مسلمانوں کو سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل طور پر سمجھنے اور عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
     
  6. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک ہاتھ سے مصافحہ شریعت کی رو سے

    خوارج کے پیروکاروں کی چال ہر معاملے میں الٹی ہے ، انکے اس طرز فکر سے ہمیشہ امت مسلمہ میں اتحاد واتفاق کی بجائے انتشار و افتراق کے نئے نئے باب کھلتے ہیں ۔ یہ کج فہم و کج فکر لوگ سواد اعظم اہل سنت پر ہر دم شرک و بدعت کے ناجائز فتوے لگاتے ہیں ، مگر درحقیقت اس لعنت میں خود گرفتار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے ، آمین۔
     
  7. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک ہاتھ سے مصافحہ شریعت کی رو سے

    زبیر احمد جی
    کیا خوب ترجمہ کیا ہے آپ نے حدیثِ مبارکہ کا
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس وقت میر اہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا ( اس طرح سکھایا ) جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھا یا کرتے تھے۔
    اور اس کی تفصیل لکھتے وقت اپنی اصلیت پہ آگئے
    یعنی آپ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق اگر صحابی کا ہاتھ حضور ﷺ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان ہو گیا تو وہ آثارِ صحابہ ہو گیاآثارِ نبیﷺ نہ ہوا۔
    جناب سنت نبی کی ہوتی ہے یا صحابہ کی ؟
    دوسری بات !آپ نے میرے پوچھنے پہ بتایا ہے کہ میں حنفی ہوں۔
    جبکہ یہاں آپ مکمل طؤر پہ احناف کے خلاف لکھ رہے ہیں اور غلط لکھ رہے ہیں
    یہاں آپ اپنا مسلک ظاہر کر چکے ہیں کہ آپ سفلی ہیں۔ اور عبدالوہاب نجدی کے پیرو کار ہیں
    جناب یہاں بھی آپ نے منافقت سے کام لیا ۔
    آپ بتائیں اگر دین کے معاملہ میں کوئی مبلغ مسلسل جھوٹ سے کام لے رہا ہو تو اس کی بیان کردہ احادیثِ مبرکہ اور آیاتِ مبارکہ کے تراجم اور مواقع کاکؤن بیوقوف اعتبار کرے
    جگہ جگہ جھوٹ کا سہارا لینا ایک جھوٹے اور منافق آدمی کا کام ہے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. مسلم صہیب
    آف لائن

    مسلم صہیب مہمان

    بسم الله الرحمن الرحیم
    تمام مسلمین کو السلام علیکم
    یہاں ابن مسعود سے مروی حدیث کی میں وضاحت کردوں جسے دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے والے دلیل بناتے ہیں کہ
    ''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔'' (بخاری۹۲۶/۲)
    اس حدیث کا ملاقات کے وقت مصافحہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد سکھا رہے تھے اور تعلیم کے وقت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔ اگر اس مصافحہ ملاقات پر محمول کریں تو اس کی صورت یہ بنے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا یعنی تین ہاتھ کا مصافحہ ۔تو ایسے اگر ہم ان سے مصافحہ کریں تو یہ اس مصافحہ کو نا پسند کرتے ہیں یعنی یہ دو ہاتھ کریں اور ہم ایک ہاتھ سے .۔ ان مقلدین پر سخت تعجب ہے کہ جو مصافحہ صحیح احادیث سے ثابت ہے وہ انہیں پسند نہیں اور جو مصافحہ یعنی چار ہاتھوں کا ثابت نہیں اس پر اصرار کرتے ہیں۔ اس حدیث سے قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے دو ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں سے ملے ہوئے تھے۔
    اگر بفرضِ محال اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ دونوں طرف سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ہے اور ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کَفِّی اسم جنس سے ان کی دونوں ہتھیلیاں مراد لی جائیں تو اس صورت میں کَفِّیْ بَیْنَ کَفَّیْہِ کا مطلب یہ ہو گا کہ میری دو ہتھیلیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھیں اور جو لوگ دو ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں ، ان کی یہ صورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس حدیث سے ان کا استدلال باطل ہے۔
    مصافحہ ایک ہاتھ سے ہی اسلام میں ہے ۔
    حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ بَکْرٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جُنُبٌ فَأَخَذَ بِيَدِي فَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّی قَعَدَ فَانْسَلَلْتُ فَأَتَيْتُ الرَّحْلَ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ وَهُوَ قَاعِدٌ فَقَالَ أَيْنَ کُنْتَ يَا أَبَا هِرٍّ فَقُلْتُ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أَبَا هِرٍّ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَنْجُسُ
    صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 285
    عیاش، عبدالاعلی، حمید، بکر، ابورافع، ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مل گئے، اس وقت میں جنبی تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ چلا، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جگہ بیٹھ گئے، تو میں آہستہ سے نکل گیا اور اپنے مقام پر جا کر غسل کیا، پھر آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ تم کہاں (چلے گئے) تھے؟ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ دیا (کہ میں ناپاک تھا، نہانے گیا تھا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سبحان اللہ! مومن نجس نہیں ہوتا۔
    اس میں بھی واحد کا صیغہ ہی ہے . یعنی ہاتھ پکڑ لیا .
    تو اس میں ہمیں صحیح بات کو لینا چاہیے نہ کہ اپنے باپ دادا کے طریقہ کو ۔ ہمیں اسلام پر عمل کرنا ہے ۔ الله تعالیٰ ہمیں سمجھ دے ۔
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ویسے تو حیرت کی بات ہے کہ امت مسلمہ کو درپیش اپنی بقا کے مسائل بھول کر ہم سب اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو موضوعِ تکرار بنائے بیٹھے ہیں۔
    لیکن اوپر والی دونوں احادیث پڑھ کر مجھے تو کہیں بھی مسلم صہیب بھائی کا استدلال درست ہوتا دکھائی نہیں دیا کہ صحابی کا ہاتھ حضور اکرم کی ہتھیلیوں مبارکہ کے درمیان ہے تو اس سے "دونوں ہاتھوں سے مصافحہ " کی دلیل انہیں نظر نہیں آئی۔
    اور دوسری حدیث پاک میں صرف "فاخذ بیدی" لکھا ہے ساتھ "فمشیت معہ" یعنی ہاتھ پکڑ کر ساتھ چلنا لکھا ہے جس سے ظاہر ہے کہ مصافحہ سے زیادہ ہاتھ پکڑ کر کچھ دور چلنا ہے اس سے ایک ہاتھ کے مصافحے کی دلیل کہاں سے نکل آئی ؟ ہاتھ پکڑ کر چلتے رہنا اور بات ہے۔۔ اور ملاقات پر چند سیکنڈ کے لیے مصافحہ کرنا اور بات ہے۔
    واللہ ورسولہ صل اللہ علیہ وسلم اعلم۔
    اور پھر یہ بھی فرما دیں کہ اگر دونوں ہاتھوں سے کوئی مصافحہ کرلے تو کونسا گناہ ہوگیا یا کس حدیث میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ؟ جس کی بنا پر آپ یہاں دلائل کے انبار لگا رہے ہیں ؟
    خدارا امت مسلمہ کو درپیش بڑے بڑے مسائل پر غور و فکر کریں پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور تباہی پھیر رہا ہے۔ شام لیبیا عراق یمن فلسطین کشمیر کے مسلمانوں پر کیا گذر رہی ہے؟ اور ہم جیسے نام نہاد ملا ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر اتنے چھوٹے چھوٹے معاملات پر علمیت جھاڑے جا رہے ہٰیں۔ اللہ کریم ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    سو فی صد درست بات ہے اس وقت امت مسلمہ پر بہت مشکل وقت ہے اور ہم ابھی بھی کوا حرام ہے یا مکروہ کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں
     
    نعیم اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں