کل رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کال موصول ہوئی، اکثر کالز آتی ہیں لیکن بسا اوقات نیند کے غلبے کی وجہ سے پتا ہی نہیں لگ پاتیں یا پھر سستی کی وجہ سے ہم خود اٹینڈ نہیں کرتے۔ کل والی کال بہت اہم تھی۔ رات پونے چار بجے کا وقت تھا۔سوچا اس کال کو بھی "مسڈ" کردوں، صبح اٹھ کر "خود" کال کرلونگا، لیکن کال کرنے والے نے ہی ہمت دی اور اہمیت کا ایک خاص اندازہ دلایا۔اٹھا ، تیاری پکڑی، مصلیٰ بچھایا۔ تہجد کی نیت کی۔ سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسا مزہ آیا کہ بیان سے باہر ہے۔ پھر خود بخود سُوۡرَۃُ الضُّحٰی پر ہونٹ چلنے لگے۔ وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾ قسم ہے وقت چاشت کی، وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی ۙ﴿۲﴾ قسم ہے رات کی جب پرسکون ہوجائے (مجھے ایسا لگا جیسے اللہ اسی وقت کی قسم کھا رہے ہوں، میرے ارد گرد رات کی تاریکی انتہائی پرسکون تھی) مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾ تیرے پروردگار نے نہ تجھے چھوڑا اور نہ تجھ سے بیزار ہوا (یہ آیت نازل تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلیئے ہوئی تھی لیکن مجھے ایسا لگا اس وقت اللہ مجھ سے مخاطب ہوں، میں گذشتہ کچھ دنوں سے بہت فرسٹریشن کا شکار تھا، ایسا لگتا تھا جیسے اللہ میری دعائیں نہیں سُن رہا، وہ مجھ سے ناراض ہے، اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ آیۃ پڑھتے ہوئے میں پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔) وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی ؕ﴿۴﴾ تحقیق بعد کا دور تیرے لیئے بہتر ہے پہلے والے دور سے۔ (یہاں اللہ نے مجھے تسلی دی کہ دنیاوی معاملات میں بظاہر بہتری نہ دِکھنا کوئی مسئلہ نہٰیں ہے کیونکہ آنے والا دور اچھا ہے۔) وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾ عنقریب تیرا پروردگار تجھے عطا کریگا تو تو خوش ہوجائیگا۔ (میں ابھی ہی سے خوش ہوگیا کہ میرے رب کا وعدہ ہوگیا تو سمجھو بس مِل گیا) اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ۪﴿۶﴾ کیا اس نے تجھے یتیم پایا تو ٹھکانہ نہ دیا؟ (بلا شبہ دیا، میں دس سال کا تھا جب میرے والد کا انتقال کینسر کے مرض میں ہوا۔ آج چودہ سال گزر گئے ہیں ، الحمد للہ میرے اللہ نے مجھے بہترین حال میں رکھا ہوا ہے۔) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ اور تجھے پایا تھا متلاشی تو تجھے راہ نہ دکھائی؟ (بلاشبہ دکھائی ،والد کے انتقال کے بعد ہمارے پورے گھرانے میں مذہب کی طرف رجحان پیدا ہوا، جس پر میں کہتا ہوں کہ یہ مہنگا سودا نہیں ہے ) وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾ اور تجھے پایا تھا محتاج تو تجھے غنی نہ کیا؟ (ضرور کیا، والد کے انتقال کے بعد ہمارے مالی حالات بہتر نہ تھے لیکن پھر اللہ نے بہتری دی، اب اللہ کا کرم بہت سوں سے بہتر ہیں) فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕ﴿۹﴾ تو جو یتیم ہو اُسے دبانا مت! (یعنی اللہ مجھ سے یتیموں کی کفالت کا کام لینگے ان شاء اللہ) وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ﴿ؕ۱۰﴾ اور سوالی کو جِھڑکنا مت! (ایسا لگا جیسے اللہ کہہ رہے ہوں ، سوالی کو جِھڑکنے سے پہلے سوچ لینا کہ اگر ہم نے تمہیں جھڑک دیا تو کیا ہوگا؟) وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪۱۱﴾ اور اپنے رب کی نعمت بیان کرو! (یہاں ایسا لگا جیسے اللہ کہہ رہے ہوں اس کیفیت کو لوگوں کو بتاؤ، کہ اللہ باتیں کرنے کیلیئے منتظر بیٹھا ہے۔ وہ تو کال بھی کرتا ہے۔ ہم لوگ ریسیو نہیں کرتے۔ یہ باتیں وہ ہم سب سے بیک وقت کرسکتا ہے، اور بہت سوں سے کرتا بھی ہے۔ جو رات میں اللہ کے سامنے جھولی پھیلاتے ہیں تو دن میں وہ ان کو سب سے غنی کردیتا ہے۔ اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تو نے مجھے اتنے قیمتی مکالمے کے لئے چُنا۔ تحریر: نامعلوم
انتہائی خوبصورت اور دل کو چھو لینے والی مکالمہ نما تحریر۔ منفرد و متاثر کن انداز۔ بے شک اللہ کے ذکر اور اس کی یاد اور اس کی رضا کو تسلیم کرنے میں ہی سکون ہے۔ جزاک اللہ واصف حسین بھائی میشی وش
اس تحریر کو پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔دل پر اثر کرنے والی ایک پرتاثیر تحریر۔۔اندازِ بیاں بھی بہت خوبصورت ایسا مکالمہ ۔۔اللہ تو بے شک ہم سے روز کرتا ہے مگر ہم ہی گناہگار ہیں۔ بہت بہت اچھی اور عمدہ تحریر کا اشتراک کیا واصف بھائی ۔۔جزاک اللہ خیر
واقعی بہت منفرد انداز میں اس کو بیان کیا ہے جو واقعی اثر رکھتا ہے ۔۔ "اور بے شک دلوں کو سکون و اطمینان تو اللہ کے ذکر سے ملتا ہے"