1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک نکاتی ایجنڈا

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏10 مارچ 2011۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بنارس سے نیپال کی جانب روانہ ہوں تو گنگا کے کنارے ایک شہر غازی پور آتا ہے۔ یوں تو یہ شہر برصغیر کے عام شہروں کی طرح قصباتی فضا رکھتا ہے، لیکن چونکہ یہاں سے راستہ نیپال کی جانب مڑتا ہے اس لئے یہاں گاڑیوں اور ٹرکوں کی آمدورفت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس شہر کے ایک جانب ایک نسبتاً غیر آباد باغ میں زرد پتھروں سے ایک گول گنبد نما مقبرہ ہے جس کے چاروں جانب پتھروں کے ستون ہیں۔ مقبرہ ہر طرف سے کھلا ہے اس لئے اس کے اندر سنگ مر مر کی بلند و بالا قبر صاف نظر آتی ہے۔ قبر کا تعویذ خاصہ اونچا ہے اور سامنے کے جانب مرنے والے کی تصویر کنندہ ہے جس کے ایک جانب غم سے نڈھال برطانوی اور دوسری جانب افسردہ ہندوستانی سپاہی کھڑا ہے۔ تصویر کے نیچے اس شخص کے کارناموں کی تفصیل درج ہے۔ یہ شخص برصغیر میں برطانوی راج کا اصل بانی تصور کیا جاتا ہے، لارڈ کارنیویلس۔ آج سے چار سال قبل میں اس کی قبر کی ویرانی لیکن پرہیبت تعمیر کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ دنیا بھر کے مورخین اسے برطانوی راج کا بانی کیوں تصور کرتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تو نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر تیس سال پہلے ہی بنگال اور اس کے اردگرد کئی علاقوں پر اپنے قدم جما چکی تھی۔ مدراس بھی ان کی زیرسلطنت تھا۔ یہاں سے لوٹ کا مال برطانیہ جاتا تھا اور وہاں صنعتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ پھر ایک ایسے شخص کو جو 19 اکتوبر 1781ء میں امریکہ کی آزادی کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو چکا تھا اسے ہندوستان کے حالات ٹھیک کرنے کے لئے کیوں اور کس ایجنڈے کے تحت بھیجا گیا۔
    برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی یوں تو علاقوں پر علاقے فتح کرتی جا رہی تھی لیکن ان میں ایک مرض وبا کی طرح پھیل گیا تھا، جس نے اسے تباہی کے کنارے لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ یہ ناسور بددیانتی اور کرپشن کی بیماری تھی۔ یہ بیماری ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس قانون کی وجہ سے تھی کہ وہ اپنے تمام ملازمین کو بہت قلیل تنخواہیں دیتی تھی لیکن انہیں اجازت تھی کہ وہ گزر اوقات کے لئے کوئی دوسرا کاروبار بھی کر سکتے تھے۔ اس کام کے لئے انہیں کمپنی کے جہازوں میں اپنا تجارتی سامان برطانیہ یا یورپ بھیجنے کی بھی اجازت تھی۔ اس سب کے باوجود بھی کمپنی منافع کماتی تھی۔ لیکن کرپشن کو اگر ایک راستہ مل جائے تو پھر وہ بڑے سے بڑے بند کو بھی توڑ دیتی ہے۔ کمپنی کے ملازمین سرکاری مالیہ اور ٹیکس کی آمدنی چوری کرتے اور اس کو اپنے کاروبار میں لگا کر اشیاء برطانیہ بھیجتے۔ ہوتے ہوتے یہ معاملہ یہاں تک بڑھا کہ کمپنی خسارے میں جانے لگی۔ اس کی آمدنی سے کم ہوتی گئی اور علاقے فتح کرنے، جنگیں کرنے کے لئے بھی ان کے پاس رقم کم ہونے لگی۔ خطرہ یہاں تک بڑھ گیا کہ برطانیہ سوچنے لگا کہیں برصغیر کے لوگ اپنے پرانے حاکموں کے زیراثر یہ علاقے دوبارہ واپس نہ لے لیں۔ میسور کے حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان سے خطرہ بہت ہی زیادہ تھا جس کی مدد کے لئے فرانس آمادہ تھا۔ ابھی امریکہ کی آزادی کی فوجوں کو فرانس کی مدد اور پھر برطانیہ کی شکست کا زخم تازہ تھا۔ کمپنی کے سدھرنے کی کوئی تدبیر نہ تھی۔ ایک طرف کرپشن تھی اور دوسری جانب اس بددیانت مافیا نے اپنے رشتے داروں اور بیٹوں بھتیجوں کو بھی کمپنی میں بھرتی کروا دیا تھا جس سے صورت حال مزید گھمبیر ہو گئی تھی۔ ادھر برطانیہ میں کپڑے کی ملوں کا جال بچھ چکا تھا اور ہندوستان کے مال کی کھپت ختم ہو گئی تھی۔ یوں کمپنی دن بدن نقصان میں جا رہی تھی لیکن اس کے ملازمین روز بروز امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے تھے۔
    ایسے میں فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو واپس بلا لیا جائے اور پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کے خواب کو ترک کر دیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے آزمائش کے طور پر لارڈ کارنیویلس کو ایک نکاتی ایجنڈا دے کر بھیجا گیا کہ تم نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے کرپشن اور بددیانتی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یوں 1784ء میں وہ اس ایک نکاتی ایجنڈے کو لے کر ہندوستان پہنچا۔ اس نے یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے دو کام کئے۔ پہلے کام پر اسے تاج برطانیہ سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے کمپنی کے ملازمین کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ اس قدر کہ ایک عام کارکن بھی عزت کی زندگی گزار سکے۔ برطانوی حکومت نے مخالفت کی تو جواب دیا اگر میرے اس اقدام سے حالات بہتر نہ ہوئے تو میری جائیداد بیچ کر نقصان پورا کر لیا جائے۔ دوسرا قدم اس نے یہ اٹھایا کہ اپنے آپ پر کسی بھی قسم کے کاروبار پر پابندی لگا دی اور پھر کمپنی کے سارے ملازمین کو بھی اس حکم کا پابند کر دیا۔ تیسرا کام یہ کیا کہ اس نے اپنے تمام رشتے داروں، دوستوں، عزیزوں کو کمپنی سے نکال دیا اور پھر کمپنی کے کسی عہدیدار کا کوئی رشتے دار بھی وہاں نہ رہنے دیا۔ اس نے کمپنی میں ازسرنو میرٹ کی بنیاد پر لوگ بھرتی کئے اور ترقی کے لئے میرٹ کو بنیاد بنایا۔ اس زمانے میں کمپنی میں ملازمت کے لئے پرنس آف ویلز لوگوں کو سفارشی رقعے دیا کرتا تھا جنہیں Letter of good grace کہا جاتا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ یا ایم این اے سفارشی رقعے دیتے ہیں۔ اس نے ان تمام سفارشی خطوں کو مسترد کر دیا۔ اس سارے نظام کو مضبوط کرنے کے لئے اس نے ایک قانون پاس کیا، جس کے تحت انصاف کرنے، مالیہ وصول کرنے، لگان لگانے کے لئے کمپنی کے افسران کے صوابدیدی اختیارات ختم کر دیئے۔ زبانوں کے ایک ماہر ولیم جونز کو بلایا اور موجودہ اسلامی اور ہندو قوانین کا ترجمہ کروا کر ان کی بنیاد پر ایک تعزیرات ہند کا قانون بنایا۔ پہلے سرکاری زمینیں افسران لوگوں کو بھاری رشوت لے کر دیتے تھے اور لگان بھی مرضی سے وصول کرتے تھے۔ اس نے ایسے تمام کاشتکاروں کو اس شرط پر ملکیتی حقوق دے دیئے کہ وہ اپنی مرضی سے ٹیکس دیا کریں گے اور ان کی جائیداد موروثی طور پر ان کی اولاد کو منتقل ہو گی۔ اس پر حکومت برطانیہ نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ لوگوں کو دس سال کے لئے مالک بنائو لیکن وہ نہ مانا اور کہا کہ ملکیتی حقوق ہی کسی نظام کو چلانے میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں۔ اس نے ایک ایسی افسروں کی فوج بنائی جو ایماندار لوگوں کے لئے منصف اور خدمتگار تھے اور جو ان کاموں کے لئے نوکری میں آنے سے پہلے حلف اٹھاتے تھے۔ یہیں سے انڈین سول سروس کا آغاز ہوا۔ اس کے ان اصولوں کی بنیاد پر خود برطانیہ میں بھی سول سروس کو ازسرنو مرتب کیا گیا تھا۔ صرف یہ چند اقدامات تھے جس کی وجہ سے اس کا ایک نکاتی ایجنڈا صرف چند سالوں میں کامیابی سے ہمکنار ہو گیا اور شکست خوردہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے میسور کے ٹیپو سلطان جیسی شخصیت کو بھی شکست دے دی۔
    کارنیویلس کی قبر پر لکھے ہوئے کتبے اور تاریخ کو پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ طاقتور ترین برطانوی حکومت جس کی سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا اسے بھی اگر کرپشن کی دیمک لگ جائے تو اس کی سرحدی سمٹنے لگتی ہیں اور اس کے زوال کے دن گنے جاتے ہیں۔ ایسے میں اسے کسی قسم کی اصلاحات کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے کوئی نظام نہیں بچا سکتا، اسے کوئی جمہوریت سہارا نہیں دے سکتی جب تک صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل نہ کیا جائے، کرپشن اور بددیانتی کا خاتمہ۔

    (بشکریہ: ایکسپریس)
    کالم نگار۔۔۔۔اوریان مقبول جان

    والسلام ,,,,علی اوڈراجپوت
    ali oadrajput
    __________________
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک نکاتی ایجنڈا

    اوریا مقبول جان اچھی کالم نگار ہیں میں ان کے کالم شوق سے پڑھتا ہوں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں