1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک سعادتوں بھرے سفر کی روداد - part-2

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏17 مئی 2011۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    گذشتہ سے پیوستہ ۔
    السلام علیکم ۔
    ادائیگی عمرہ کے بعد گو کہ دل حرمِ پاک کے درودیوار سے نکلنے کو نہیں چاہ رہا تھا ۔ لیکن ہوائی جہاز کے طویل سفر اور اسکے فورا بعد عمرہ و سعی کے بعد کچھ آرام ضروری تھا ۔ پھر ویسے بھی اگلے دس دنوں کے نظاروں سے فیضیاب ہونے کے لیے جسم کا صحت مند رہنا لازم تھا۔ سو کچھ دیر کے لیے ہوٹل چلے گئے ۔ چند گھنٹے آرام کے بعد جمعۃ المبارک کےلیے پھر حرم پاک پہنچے۔جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے بعد بازارِ مکہ گھومنے چلے گئے۔ مختلف دکانوں اور ہوٹلوں سے ہوتے ہوئے یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ دکانوں پرمتعین تقریبا ہر ورکر خواہ عربی، چائینز ، مصری یا افریقی ہو وہ کچھ نہ کچھ اردو ضرور بولتا ہے۔ کم از کم آرٹیکل کی قیمت ۔ سستا پن اور دیگر چند خوبیاں تو اردو میں بیان کرتا ہے اور بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے مفلس یا کنجوس کے طعنے بھی دیتا ہے۔ مکہ کے باسیوں کا رویہ کچھ کھردرا اور نادوستانہ سا محسوس ہوا ۔ لیکن انہیں‌مقدس سرزمین کا باسی ہونے کا اعزاز بہرحال حاصل تھا سو ہم بھی ہنس کر نظر انداز کردیتے۔
    اگلے روز علی الصبح زیارات پر جانے کا پروگرام بنا۔ میدانِ عرفات کی وسعت دیکھ کر بےاختیار دھیان روزِ محشر کی طرف چلاجاتا ہے کہ یہی وہ میدان ہے جہاں پر اللہ پاک نے ساری انسانیت کو جمع فرمانا ہے۔ یہ میدان قدرتِ الہی سے اس دن وسیع ترین ہوکر سارے عالمِ انسانیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لے گا۔ حکومت نے یہاں حاجیوں کے قیام کے لیے بڑے وسیع انتظامات بھی کررکھے ہیں۔
    میدانِ عرفات سے آگے جبلِ رحمت ہے جہاں پر اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی اور ہمارے جدِ امجد سیدنا آدم علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی تھی ۔ عین پہاڑی کے اوپر ایک ستون کے ذریعے اس مقام کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جہاں کبھی سیدنا آدم علیہ السلام کی طویل آہ و زاری اور التجاؤں کے بعد وسیلہء مصطفی :drood: سے انکی دعا قبول ہوئی ۔ہمیں بھی اس مقام پر پہنچنے اور یہاں اپنے دل کی دعائیں و التجائیں بارگاہِ الہی میں پیش کرنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ تعالی ۔
    منیٰ ، مزدلفہ کے میدانوں کی زیارت کرتے ہوئے وہاں ہونے والے تعمیراتی کام کو دیکھنے کا موقع ملا۔ بالخصوص ٹرین کا نیا ٹریک بِچھتا دیکھا جو کہ جدہ سے مکہ معظمہ حرمِ پاک اور وہاں سے عرفات و مزدلفہ تک حاجیوں کی نقل مکانی میں‌سہولت کے لیے بنایا جارہا ہے۔ یقینا اس سے حجاجِ کرام کو سفر میں مزید سہولت و آسانی میسر آئےگی۔ غالبا ہمارے عربی ڈرائیور نے بتایا کہ سعودی حکومت کا اندازہ ہے کہ 2020تک ایک بلین افراد ہر سال حج کی سعات سے بہرہ مند ہوسکیں گے۔
    غارِ حرا
    ڈرائیور ہمیں جبل نور کے دامن تک لا کر چھوڑ گیا جس کے اوپر غارِ حرا واقع ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر نظر ڈالنے سے بظاہر یہ سفر انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ ہمارے ساتھ دو بزرگ افراد بھی تھے ۔اور پھر سعودی حکومت کی مہربانیوں سے وہاں غار حرا کے راستے میں کچھ ایسے بورڈ بھی نصب تھے کہ جن سے یہ ثابت ہوکہ اوپر غار کی طرف پرُمشقت سفر فضول و بےفائدہ ہے ۔یہ کوئی عبادت نہیں بلکہ بدعت ہے وغیرہ وغیرہ ۔
    لیکن نقوشِ قدمینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش کا جذبہ سینے میں بسائے متوالوں کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ لہذا ہمارے قدم بےاختیار پہاڑ کی چوٹی کی جانب اٹھتے چلے گئے۔ خدا بھلا کرے چند نامعلوم عاشقوں کا جنہوں نے زائرین کی سہولت کے لیے اس راستے پھر اپنی مدد آپ کے تحت سیڑھی نما پتھر نصب کردیے ہیں اور اوپر جابجا عارضی آرام گاہ بنا دی جس سے یہ سفرذرا آسان ہوگیا۔ ہم بھی دو بزرگ افراد کی ہمراہی میں رفتہ رفتہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر انکشاف ہوا کہ یہ غار پہاڑ کی چوٹی پر نہیں بلکہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد پہاڑی کی مغربی سمت میں غالبا ساٹھ ستر میٹر پھرنیچے جاکرمغرب کی سمت میں‌واقع ہے۔مزید یہ کہ غارِ حرا براہ راست پہاڑ کے اندر نہیں بلکہ پہاڑ کے پہلو میں چھوٹے سے خیمے کی شکل میں نظر آتی ہے ۔غارتک پہنچنے کے لیے رستہ ایسا ہے (یا اب بنا دیا گیا ہے) کہ ایک وقت میں ایک آدمی بڑی مشکل سے پھنس پھنسا کر گذرتا ہوا وہاں تک پہنچ پاتا ہے۔ البتہ غارقدرے کشادہ ہے جس کی چوڑائی تقریبا دومیٹر اور گہرائی تقریبا ڈھائی یا تین میٹر ہوگی ۔ غار حرا ایسے رُخ پر واقعہ ہے کہ سورج کی دھوپ اندر داخل نہیں ہوتی ۔
    ہم بارہ افراد جب غار حرا پہنچ گئے تو وہاں نوافل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ غارِ حرا کے اندر بیٹھے ہوئے چشمِ تصور میں قدمینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کا احساس دل ودماغ پر چھا گیا۔ غار کے اندر عجیب طرح کی مہک چھائی رہتی ہے۔ ہر ہر پتھر چومتے ہوئے دھیان بار بار ان لمحات کی طرف جارہا تھا جب آقا کریم :drood: کبھی عشقِ الہی میں محو ہوکر یہاں چالیس چالیس روز عبادت فرمایا کرتے ۔ تو کبھی رو رو کر اپنی گنہگار امت کے لیے دعائیں کیا کرتے۔ آنکھیں اور لب کبھی غار کی دیواروں کوچومتے تو کبھی فرش کو بوسہ دیتے کہ کہیں میرے مصطفی کریم :drood: کے نقشِ قدم کا لمس مل جائے ۔
    عین اسی دوران کسی سمت سے "کونین دے والی دا گھر بار بڑا سوہنا" کی صدا بلند ہوئی ۔ آنسو تو پہلے ہی رواں ہونے کو بےتاب بیٹھے تھے۔ بس نعت کی آواز سنتے ہی سیلِ رواں بہہ نکلا۔ وہی غار کے دہانے پر سب دوست بیٹھ گئے اور نعت سننے لگے۔ پھر دوستوں کےا صرار پہ مجھے بھی بارگاہ نبوی :drood: میں‌ہدیہ عقیدت پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ نعت کے الفاظ کچھ یوں تھے۔
    مدینہ کی وہ من بھاتی فضائیں یاد آتی ہیں
    وہ صحرا کے نظارے، وہ ہوائیں یاد آتی ہیں
    جو اپنی امتِ عاصی کی بخشش کے لیے مانگیں
    حرا کے غار کی وہ التجائیں ، یاد آتی ہیں ​
    اس موقع پر ہر ساتھی کی آنکھیں یادِ رسول :drood: میں نم تھیں۔ دل ان یادوں کو جذب کررہے تھے۔ سانسیں ان ہواؤں کو اپنے اندر سمیٹ رہی تھیں ۔ آنکھیں ہر ہر منظر کو اپنے اندر محفوط کرلینا چاہتی تھیں کیونکہ یہاں میرے کریم آقا :drood: کے وجودِ مسعود کے لمس کا احساس زندہ تھا۔ اسی دوران ایک ترکی بھائی نے ذکرِ الہی شروع کردیا۔ پھر وہیں کھڑے کھڑے بارگاہِ تاجدارِ کائنات :drood: میں ہدیہء درودوسلام کے بعد نم نم آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے اجتماعی دعا کی گئی ۔ ہم سمجھے محفل اختتام کو پہنچی ۔ لیکن اچانک ایک بہن نے بسکٹ کا ڈبہ نکالا اور بطور تبرک تقسیم کرنا شروع کردیا۔ قربان جائیں اے آقا کریم :drood: ! آپ کی کرم نوازیوں کے کہ آپ نے اس مقدس مقام پر بھی اپنی محفل کو اپنے غلاموں کے ذریعے بھرپور انداز میں منعقد کروایا ۔
    تصورِ حبیب خدا :drood: میں غرق دل و دماغ کے ساتھ غارِ حرا سے نیچے اتر کر ہوٹل پہنچے۔
    اسی شام پیارے بھائی سید عبدالرحمن صاحب سے مختصر ملاقات ہوئی ۔ گو کہ بالمشافہ پہلی ملاقات تھی لیکن ہماری اردو کے توسط سے یوں لگا جیسے ہم برسوں سے باہم شناسا ہیں۔ سید بھائی اپنی تحریرسے بھی زیادہ نفیس اور شفیق انسان ہیں۔ مسکراہٹ بھرے چہرا اور نرم و ملائم لہجہ ان سے ملنے والوں کو انکے بہت قریب کردیتا ہے ۔ افسوس کہ گھنٹہ بھر سے زیادہ ان سے ملاقات نہ ہوسکی کیونکہ ہمیں ایک اور عمرہ کی ادائیگی حرم پاک کی حدود سے باہر مسجد عائشہ جانا تھا جہاں سے دوبارہ عمرہ کی نیت کرکے واپس مکہ مکرمہ میں داخل ہونا ضروری تھا۔ سو سید بھائی سے اجازت لے کر ہم مسجد عائشہ روانہ ہوئے۔ اور مزید ایک عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ۔
    اتوار 8مئی 2011 کی صبح ہم نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جائے ولادتِ رسول معظم :drood: کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۔ اس سمت جاتے ہوئے دائیں جانب پہاڑی کے عین اوپر شاہ فیملی کے لیے بنائے گئے محل کے اختتام پر دو کھڑکیاں نظر آتی ہیں۔ بتایا گیا کہ یہ وہ کھڑی کی نشانی ہے جہاں سے ایک بڑھیا آقا کریم :drood: کے گلی سے گذرنے پر ان پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی ۔ اور حضور اکرم :drood: سر مبارک جھاڑ کر آگے گذرجایا کرتے تھے۔ ایک روز جب بڑھیا نے علالت کے سبب کوڑا نہ پھینکا تو آپ :drood: کرم فرماتے ہوئے اسکی عیادت کو چلے گئے۔
    مجھے فورا ایک فکر نے دامن گیر کرلیا کہ آج ہم کیسے مسلمان بن گئے ہیں جو اپنے نبی پاک :drood: کی عطا کردہ عفو و درگذر، خوش اخلاقی، امن و محبت سے بھرپور سماجی و معاشرتی اسباق پر عمل کرنے کی بجائے دنیا بھر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے اور دہشت گردی کو فروغ دے کر اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں‌کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں اور اپنے انہی مذموم مقاصد کو اسلام کا نام دیتے ہیں۔
    وہاں سے جنت المعلیٰ میں حاضری دی ۔ جہاں ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سمیت کئی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کے مزارات مبارک ہیں۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا کے مزار پر حاضری کا شرف ملا۔ وہاں بھی ایک دیوانہ بارگاہِ اہلبیت اطہار میں ہدیہ عقیدت پیش کررہا تھا ۔ سو اسکی معیت میں منقبت سننے کا موقع ملا۔ وہاں ہم نے ایک بزرگ دیکھے جو اپنی پگڑی سے زائرین کے بیٹھنے والی جگہ کو صاف کرتے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتے۔ اتنی دیر میں زائرین کی آمدورفت سے دوسرا حصہ پھر گندہ ہوجاتا اور وہ پھر سے صفائی شروع کردیتے۔ کسی کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے یہی کام سعادت سمجھ کر کیے جارہے ہیں۔ ہمیں ان باباجی کی خوش نصیبی پر رشک آیا جنہیں ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے در کی خاکروبی میسر آگئی ۔ سبحان اللہ ۔
    اور اس سے اگلے سفر کے دل مزید بےتاب ہونا شروع ہوگیا ۔ کیوں کہ اب ہمیں شہرِ محبوب :drood: یعنی مدینہ طیبہ روانگی کا بےچینی سے انتظار تھا ۔

    ۔۔ جاری ہے ۔۔
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک سعادتوں بھرے سفر کی روداد - part-2

    سبحان اللہ جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں