1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک سعادتوں بھرے سفر کی روداد ۔ Part-5

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏21 مئی 2011۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    --- گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔
    مسجد قبا ء
    مدینہ منورہ میں قیام کے دوران ہمیں عالم اسلام کی پہلی مسجد ، مسجد قباء کی زیارت اور وہاں نوافل ادا کرنے کی سعادت ملی۔ اس مسجد میں نماز پڑھنے کا درجہ فرمانِ نبوی :drood: کے مطابق ایک مقبول عمرہ کی ادائیگی کے برابر ہے۔ سبحان اللہ ۔ قربان جائیں آقا کریم :drood: ! آپ کی شفقت و رحمت پر ۔ غلاموں کے لیے اجروثواب کے کیسے کیسے اسباب مہیا فرما رکھے ہیں۔ یہاں ایک دوست نے وہ مقام بھی دکھایا جہاں ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ آمد پر اس جگہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی سے نیچے تشریف لائے تھے اور یہاں نماز ادا کی ۔
    مسجد قبلتین
    دوستوں کو یقینا معلوم ہوگا کہ ہجرت مدینہ کے بعد طویل عرصہ تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ یہودیوں کے طعنوں سے قلبِ رسول اکرم :drood: پر بوجھ ہوا اور آپ نے دورانِ نماز ہی لب ہلائے بغیر صرف آسمان کی طرف دیکھا ۔ اللہ تعالی کو اپنے محبوب :drood: کے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اتنی دیر بھی گوارہ نہ ہوئی کہ نماز مکمل ہو۔ بلکہ اسی دوران وحی بھیجی اور فرمایا ۔ قد نریٰ تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلة تر ضھا کے ذریعے فرمایا کہ اے محبوب ۔ جدھر تیری رضا و خواہش ہے ہم ادھر ہی قبلہ بنا دیں گے۔ اور فرمانِ الہی کے نزول پر سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم دورانِ نماز ہی عین مخالف سمت میں‌ پھر کر کعبۃ اللہ کی طرف رخ کردیا۔ اصحابِ کرام رضوان اللہ عنہم نے اپنے آقا و مولا کی پیروی و اتباع کا حق ادا کرتے ہوئے انہی قدموں پر حضور:drood: کے پیچھے اپنا رخ تبدیل کرلیا۔
    جبلِ احد
    یہاں سے جبلِ اُحدروانہ ہوئے ۔ یہ وہ پہاڑ ہے جس سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اظہارِ محبت فرمایا اور اس پہاڑ کو جنتی فرمایا۔ جبلِ اُحد بھی محبتِ رسول :drood: میں اتنی فنائیت تو حاصل کر گیا کہ اپنی شکل کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمِ گرامی "محمد" کے مطابق ڈھال لیا۔ انٹرنیٹ پر سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر میں جبل احدنام محمد بناتا نظر آتا ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
    سیدالشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے مزار اقدس پر حاضری کے دوران دین اسلام کے لیے انکی عظیم قربانی اور انکی دردناک شہادت پر قلبِ مصطفی :drood: کی مغمومی کی یاد نے آنکھیں نم کردیں۔ فتح مکہ کے بعد جب ہندہ مسلمان ہوگئی تو حضور اکرم :drood: نے اسے اپنے سامنے آنے سے منع فرمایا تھا کہ اسکو دیکھ کر آقا :drood: کو اپنے پیارے چچا کی دلدوز شہادت کی یاد آجاتی تھی ۔
    سرکارِ دوعالم :drood: اکثر شہدائے اُحد کے مزارات پر تشریف لاتے تھے۔ یہاں مسجد شہداء واقع ہے غالبا یہیں پر حضور اکرم :drood: نے وصال سے کچھ عرصہ قبل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے ساتھ ایک جلسہ کا اہتمام فرمایا اور منبر پر کھڑ ےہوکر ارشاد فرما یا جس کا مفہوم ہے کہ "اب مجھے یہ خوف نہیں رہا کہ تم (میری امت ) میرے بعد شرک میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ البتہ اتنا خوف ہے دنیا پرستی میں مبتلا ہوجاؤ گے۔"۔
    جبلِ اُحد میں وہ درّہ یا گھاٹی موجود ہے جہاں پر آپ :drood: نے بطور سپہ سالار 70صحابہ کا ایک دستہ مقرر فرمایا تھا جو بعد ازاں قبل از وقت وہاں سے ہٹ گئے اور مسلمانوں کو وقتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ۔ اسی بھگدڑ میں محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے ۔ سرکارِ دوعالم :drood: پہاڑ کے ایک زیریں مقام پر آرام فرما ہوئے ۔ جہاں سے آج بھی وہی منفرد مہک آتی ہے۔ وہاں سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہ کی معیت میں جبل احد میں کوئی 30-35 میٹر بلند ایک "کھوہ" میں کچھ دیر سستانے کے لیے رکے۔
    ہم نے اس جگہ کا تذکرہ سن رکھا تھا اور اس "کھوہ" کی زیارت کا اشتیاق تھا چنانچہ ہم اپنے آقا کریم :drood: کی منفرد خوشبو کی تلاش میں شوق و لگن کی منزلیں طے کرتے اس مقام تک پہنچ گئے۔ راستہ پتھریلا ہے اور یہاں پر چھوڑی گئی بکریوں کا فضلہ جابجا نظر آتا ہے۔ ہمیں افسوس ہوا کہ اتنی مقدس جگہ کے ادب واحترام کا سرکاری سطح پر کوئی اہتمام نہیں۔ لیکن اوپر اس کھوہ کے دہانے پر پہنچ کر دیکھا کہ یہ جگہ انتہائی صاف ستھری تھی اور کسی بکری یا جانور نے یہاں بےادبی کی جسارت نہیں‌کی۔ یہ جگہ بھی نسبتا بلند ہے اور ایک وقت میں صرف ایک آدمی اس کھوہ کے اندر بیٹھ سکتا ہے۔ کھوہ کے اندر داخل ہونے پر ایک طرف ایک پتھر ایک نشست سی بنائے ہوئے ہے۔ عین اسی مقام سے وہی منفرد بہشتی خوشبو کے ہلّے سانسوں کو معطر کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں میرے آقا حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی حالت میں کچھ دیر قیام فرمایا تھا ۔ جسم مبارک یہاں پر مس ہوا تھا اور حضور اکرم یہاں اس انداز میں تشریف فرما ہوئے تھے کہ اگر انسان اس پتھر پر بیٹھ کر سر پیچھے کر لے تو باہر پورے میدانِ اُحد سے چھپا جاسکتا ہے اور اگر سر کو تھوڑا سا باہر نکالا جائے تو پورے میدان کا نقشہ سامنے نظر آتا ہے۔
    یہاں پہنچ کرایک بار پھر آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے کہ آقا کریم :drood: ہم گنہگاروں تک دین اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے کیسی کیسی مشقتوں ، مصیبتوں اور تکلیفوں سے گذرے۔ پھولوں سے زیادہ نرم و نازک جسم اطہر پر کیسے کیسے زخم کھائے اور قدسیوں سے افضل نورانی جسد اطہر کو کن کن مشکلات میں ڈالا ۔ محض اس لیے کہ اللہ کی مخلوق کی بہتری ہوجائے۔ بعد میں آنے والوں کو جینے کا مقصد مل جائے اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں میسر آسکیں۔ ایک آج ہم ہیں کہ اسی کریم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوئے جاتے ہیں۔ نہ انکی ذات سے وہ کامل محبت اور انکی تعلیمات پر کامل عمل ۔ کاش ہم خوابِِ غفلت سے بیدار ہوجائیں۔
    جی میں خواہش جاگی کہ کاش ہم بھی اس مبارک دور میں زندہ ہوتے ۔ حضور پاک :drood: کے غلاموں میں شامل ہوتے اور کافروں سے لڑتے پھرتے۔ محبوب آقا :drood: کی خاطر جان دے دیتے۔ بےاختیار ڈاکٹر طاہر القادری کا لکھا نعتیہ کلام لبوں‌پر مچل گیا

    تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
    پھر کبھی میں، تجھے مِلا ہوتا
    لڑتا پھرتا میں دشمنوں سے تِرے
    تیری خاطر میں مرگیا ہوتا
    ذرہ ہوتا جو تیری راہوں کا
    تیرے تلووں کو چومتا ہوتا
    ہوتا طاہر تیرے فقیروں میں
    تیری دہلیز پر پڑا ہوتا

    خوشبوئے محبوبِ خدا :drood: سے قلب و روح کو مسحور کیے ہم نیچے اترے۔دل میں انہی کی یادیں۔ لب پہ انہی کی باتیں‌سجائے ہم اگلی منزل کی جانب چل پڑے۔
    مقامِ خندق
    غزوہ خندق کے مقام پر حاضری دی۔ جہاں پر غزوہ کی مناسبت سے کافی مساجد تھیں۔ غالبا سات مساجد تھیں۔ اب حکومت نے ان سب مساجد کو شہید کرکے انکو ایک بڑی مسجد میں تبدیل کرکے اسکا نام "مساجد سبعہ" رکھ دیا ہے۔ البتہ دائیں طرف مسجد "سلمان فارسی" ابھی بھی پرانی ہیت میں قائم ہے۔
    نیچے بس پارکنگ کے مقام پر کبھی "مسجد بلال" ہوا کرتی تھی جسے حکومت نے گرا کر بس پارکنگ بنا دیا ۔ مجھے فورا یہ خیال آیا کہ مسجد شہید کرکے اسکی جگہ پارکنگ کا کوئی اور عمارت بنانے کی جسارت اگر پاکستان میں کوئی کرلے تو "اسلام کے مجاہدوں" کے ہاتھوں اسکی موت یقینی ہے۔ لیکن سعودی عرب میں چونکہ معاملہ ریال کا ہے جس سے جیکٹ برداروں کے مدرسے چلتے ہیں۔ سو یہاں سب کچھ درست ہے کسی کو کچھ بولنے کی جرآت بھی نہیں ہوتی۔
    جنت البقیع
    جنت البقیع میں مزارات کی شناخت ایک اہم مسئلہ ہے لیکن بحمداللہ تعالی ہمارے میزبان بھائی نے ہماری بہت رہنمائی فرمائی۔ یہاں جن مزارات کی زیارت اور حاضری نصیب ہوئی ۔ ان میں سیدۃ النساء اہل الجنۃ راحتِ قلبِ مصطفی :drood: سیدہ فاطمہ الزاہرا رضی اللہ عنہا ، انکی ہمشیرگان سیدہ ام کلثوم، سیدہ زینب اورسیدہ رقیہ رضی اللہ عنہم کے مزارات ۔ سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ ۔ آقا :drood: دو پھوپھی جان۔ حضور اکرم :drood: کے ننھے بیٹے سیدنا ابراھیم رضی اللہ عنہ ، غزوہء احد سے زخمی ہوکر مدینہ آنے والے صحابہ جو بعد ازاں یہاں شہید ہوئے۔ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا۔ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مزارات قابلِ ذکر ہیں۔
    اہل مدینہ کے ہاں‌محفلِ میلاد میں حاضری
    ایک دوست کے توسط سے مدینہ شریف کے مقامی عاشقانِ رسول :drood: کی ایک مبارک محفل میلاد میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ سب سےپہلے سورہ یٰسین شریف کا ختم ہوا۔ پھر تلاوت کے بعد عربی میں نعت خوانی کی گئی ۔ درسِ حدیث ہوا اور پھر کھڑ ےہو کر سرکارِ کائنات کی بارگاہ میں ہدیہ درودوسلام "یانبی سلام علیک" پیش کیا گیا۔ خصوصی دعا کے بعد حاضرین میں لنگر تقسیم کیا گیا۔ مدنی پلاؤ بہت ہی مزیدار تھا۔ اور اس سے بھی بڑ ھ کر ہمیں یہ خوشی تھی کہ حضور :drood:کے دیس میں انکے ذکر کی محفل میں شرکت ہوگئی ۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ مدینہ شریف میں بہت سی ایسی محافل ہفتہ وار بنیادوں‌پر جاری ہیں: الحمدللہ ۔
    صدائیں درودوں کی آتی رہیں گے۔ جنہیں سن کے دل شاد ہوتا رہے گا
    خدا رکھے آباد اہلِ عشق کو ۔ محمد :drood: کا میلاد ہوتا رہے گا۔

    سچ بات ہے کہ حجاز مقدس کی حاضری و عبادت ایسی نعمت ہے جسے جتنا زیادہ حاصل کرلیا جائے ۔ مزید کی تمنا دل میں مزید ہوتی چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالی اور اسکے حبیب :drood: کے نورانی دربار میں یہی دعا ہے کہ ہر صاحبِ آرزو مسلمان کو ان مقامات کی حاضری نصیب ہو اور بار بار نصیب ہو۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔

    والسلام علیکم
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک سعادتوں بھرے سفر کی روداد ۔ Part-5

    [​IMG]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں