1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

این جی اوز کا کردار

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از وقاص قائم, ‏19 مئی 2009۔

  1. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
  2. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    [align=center]پرانی فوج ، نیا محاذ
    [/align]
    تناظیم برائے حقوق نسواں کا کردار​
    زمین کے جس خطے میں ہم رہتے ہیں اس میں ایک طویل عرصے سے کچھ شور وغل سا مچا ہے اور عام طور پر یہ شور نسوانیت سے وابستہ ہوتا ہے۔ اسی عرصے کے دوران ہمیں حقوقِ نسواں کے لئے کام کرنے والی تناظیم بھی معاشرے میں کچھ بڑھتی چڑھتی نظر آتی ہیں۔ابھی قریب بھی ایک ایسا ہی شور برپا تھا جس میں سترہ سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی روداد تھی۔اسی مسئلے پر ثمر من اللہ اور اس جیسے اور کئی حقوق نسواں کے علمبرداروں نے حق کا عَلم تھاما اور کمر بند ہوگئے لڑکی کو انصاف دلانے پر اور حقیقتاً یہی ہمیں اسلام بھی سکھاتا ہے کہ جہاں کسی برائی کو دیکھو تو اسکے خلاف کھڑے ہوجاوٴ۔اور خدائے تعالیٰ نے اس نیک کام کو سرانجام دینے کی توفیق ان این جی اوز کو عطا فرمائی ۔ اور ان تناظیم نے اس کارِخیر کا حق پورا پورا ادا کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے ایک ہنگامہ برپاکردیا اور اس خبر کو ناصرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اتنا اجاگر کیا کہ اب کسی کہ پاس بات کرنے کے لئے کچھ نہ بچا سوائے اس ایک بات کے۔ اور آخر کیوں نہ ہو معاملہ ایک لڑکی کو انصاف دلانے کا ہے ۔ مگر سمجھ نہیں آتا کہ کیوں یہ شور گاؤں دیہاتوں میں بسنے والی ان عورتوں کے لئے نہیں جنہیں وڈیروں اور جاگیرداروں نے اپنی ملکیت بنا لیا ہو۔ کیوں ڈاکٹر شازیہ کو انصاف دلانے والا کوئی نہیں ملااس لئے کہ اس کے ساتھ جرم کا ارتکاب کرنے والا فوجی کیپٹن تھا؟ کیوں ان غریب عورتوں کے گھروں میں جھانک کر کوئی تنظیم برائے حقوق نسواں نہیں دیکھتی جو بھوک سے مجبور ہوکر اپنے لختِ جگر کو بیچ دیتی ہیں۔کیوں ان بچیوں کی داد رسی کوئی نہیں کرتا جو ایک مدت سے صرف جہیز جیسی لعنت کے سبب اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں ۔ ان تمام سوالات کے جوا بات جاننے کیلئے ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ یہ این جی اوز کیوں بنائی جاتی ہیں اور انہیں کون بناتا ہے۔
    بیسوی صدی عیسوی میں جب انگریز سامراج نے دنیا پر پھیلے ہوئے اپنے پروں کو سمیٹنا شروع کیا تو اسلام دشمن تمام عناصر کو اس بات کی فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں یہ سوئے ہوئے مسلمان پھر سے نہ جاگ جائیں اور احیائے اسلام کے موذی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔کیو ں کہ ابھی تک تو انہیں اس موذی مرض سے بچانے کے لئے ہمارا اپنا کارندہ ان پر مسلط تھا جس نے احیائے اسلام کی تمام تحریکوں کو بخوبی کچلا۔اب مسلمانوں کو اسی موذی مرض سے بچانے کے لئے انہوں نے چند ایسے اقدامات کئے جن سے مسلمانوں پر حملہ کئے بغیر ان کی تباہی عمل میں لائی جاسکے۔اور مسلمانوں کو انفرادیت سے لیکر اجتماعیت تک اپنا غلام رکھنے کیلئے سعی شروع کردی ۔کسی بھی قوم کی بقاء کا دارومدار جن بنیادوں پر ہوتا ہے ان میں سے ایک اہم بنیاد اس کا معاشرتی نظام ہوتا ہے ۔اور اس معاشرتی نظام کو تباہ کرنے کیلئے انہوں نے ان بنیادوں کو جان لیا جو مسلم معاشرت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہیں۔اب ذرا اس ریڑھ کی ہڈی کو دیوار کی مثال سے سمجھئے۔
    کسی بھی دیوار کی بنیادی اکائی اینٹ ہوتی ہے ۔ان اینٹوں کو آپس میں جوڑنے کے لئے جو مواد استعمال ہوتا ہے وہ سیمنٹ کہلاتا ہے۔ یہی دو ،وہ اشیاء ہیں جن پر اس دیوار کی مضبوطی کا دارومدار ہوتا ہے۔اب اگرکوئی دیوار کمزور اینٹوں سے بنائی جائے تو درمیان کا مواد کتنا ہی خالص کیوں نہ ہو دیوار کو تھام نہیں سکتا اور عنقریب یہ دیوار زمین بوس ہوجائے گی۔ گویا کہ کسی بھی دیوار کو زمین بوس کرنے کا یہ آسان سا نسخہ ہے کہ اس کی تعمیر کمزور بنیادوں پر کی جائے۔کسی بھی معاشرے کی دیوار کی بنیادی اکائی (اینٹ ) گھر ہوتا ہے ۔اور اس گھر کی مضبوطی کا انحصار شوہر بیوی کے رشتے پر ہے۔اب اگر کسی معاشرے کا شیرازہ بکھیرنا ہوتو اس اینٹ یعنی شوہر بیوی کے رشتے کو کمزور کردیا جائے۔رفتہ رفتہ یہ دیوار خود ہی تباہی کی طرف بڑھتی چلے جائے گی۔اسی مقصد کے حصول کیلئے مسلم معاشرے میں این جی اوز اور تناظیم برائے حقوق نسواں کا قیام شروع کیا گیا۔ان این جی اوز کے قیام کا مقصد ان اہداف کو پورا کرنا ہوتا ہے جن سے مسلم معاشرے کی اینٹ ہلائی جاسکے ۔انہی این جی اوز کے چند مقاصد اور انکے نقصانات درج ذیل ہیں۔
    ۱ عورت کو مرد کے برابر لا کر کھڑا کردیا جائے تاکہ معاشرے سے متعلق اسلام کی بنیادی تعلیم "الرجال قوٰمون علی النساء"کی نفی کی جا سکے اور عورت اپنی ہر خواہش کے لئے خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز لڑ سکے۔
    ۲ عورت کو بھی پروفیشنل بنایا جائے تاکہ وہ اپنی تمام تر توجہ اپنے پروفیشنل مستقبل پر مرکوزکر سکے اور وہ اپنے بنیادی فریضے یعنی اولاد کی پیدائش اور بعد ازاں انکی پرورش کی پابند نہ رہے اور یوں آنے والی نسل پیدا ہونے سے پہلے ہی روحانی اور اخلاقی موت مر جائے۔
    ۳ معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کا پرچار کیا جائے، بے پردگی کو عام کیا جائے تاکہ مردوں کیلئے انکی تسکین کا سامان انکے گھر کے بجائے بازار ہوجائیں جہاں وہ بے پردہ اور بیہودہ مناظر سے لطف اندوز ہوسکے ۔ اس طرح شوہر کا اپنی بیوی کی طرف رجحان ذیادہ نہ رہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بیوی بھی شوہر سے محبت کرنے کے بجائے مجبوراً اس کے ساتھ زندگی بسر کرے گی ۔
    ۴ مخلوط معاشرے کے وجود کے قیام کی جدوجہد کرنا جس میں دفاتر ، تعلیمی اداروں اور دیگر سطح پر مخلوط معاشرت کو سرہانا۔
    انہیں مقاصد کے حصول کیلئے ہمارے معاشرے میں بھی اقدامات کیے گئے جن میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کر دیتے ہیں۔
    ۱ میڈیا کی آزادی کے نام پر غیر مہذب ملبوسات میں خواتین کو دکھانا،ہندوستانی فلموں کی نمائش پردہ ،داڑھی اور دیگر اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا گیا۔
    ۲ اشتہارات چاہے وہ اخبارات میں ہو یا ہورڈنگزپر خواتین کی موجودگی کو لازمی رکھنا۔
    ۳ دفاتر میں خواتین کو روزگار کے مواقع ذیادہ فراہم کرنا بنسبت مردوں کے ۔
    ۴ حقوق نسواں بل کا پاس ہونا۔
    ۵ بسنت ، ویلینٹائن اور اس جیسے دوسرے تہواروں کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بھرپورطور پر منانا تاکہ مرد و زن کا اختلاط ہو۔
    ۶ روشن خیالی کے نام پر اسلام سے بغاوت کی نئی ریت ڈالی گئی۔
    اور اس جیسے کئی اور اقدامات جن سے اس بات کا صاف پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی تباہی کے لئے ہر گھر کواس کے مقصد یعنی آنے والی نسل کی تربیت سے دور کیا جارہا ہے۔یہ این جی اوز دراصل نچلے طبقے کی مظلوم خواتین کو انکے حقوق دلوانے کے لئے نہیں بلکہ معاشرے کے امیر طبقے کو بے حیائی اور فحاشی کے مزید موقع فراہم کرنے کے لئے ہوتی ہیں اور انکی عیاشیوں کو انسانی حقوق کے نام پر قانونی قرار دیتی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ حقوق نسوا ں پر اٹھنے والا تازہ ترین واقعہ میں تو کوئی اثر و رسوخ رکھنے والا شخص ملوث نہیں تو معاملہ یہ ہے کہ ان این جی اوز کا ہدف نہ ہی امیر ہیں اور نہ ہی غریب،نہ ہی معاشرت ہے اور نہ معیشت بلکہ ان کا ہدف تو صرف اسلام ہے۔ اسی لئے جہا ں اسلام کی سربلندی کی بات ہوتی ہے وہاں ان کو انسانی حقوق پامال ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اگر حقیقت نہ بھی ہو تو حالیہ معاملے جیسا کو ئی مصنوعی واقعہ بن جاتا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کے خلاف پروپگینڈا کیا جاسکے۔ یہی کچھ ہوا سوات میں ۔ جب نفاذ شریعت کا کامیاب معاہدہ ہوا تو دنیا کے سامنے اسلام کو بربریت ثابت کرنے کے لئے گھڑ دیا گیا ایک واقعہ جو معلوم نہیں کبھی وقوع پذیر ہوا بھی تھا یا نہیں۔اور اتنا بے بنیاد پروپگینڈا اسلام کے خلاف کیا گیا کہ اسلام پسند تجزیہ نگا ر تو اپنی جگہ سیکولر قسم کے تجزیہ نگار بھی یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ یہ معاملہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازشوں میں سے ایک سازش ہے۔
    اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں یہ قانون ہے کہ پردہ کرنا جرم ہے یہاں تک کہ کئی ممالک میں تو اسکارف لینے پر بھی پابندی ہے ۔لیکن کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ کسی این جی او نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا ہو؟ لیکن اگر دنیا کا کوئی بھی ملک اس بات پر پابندی لگا دے کہ آج کے بعد کوئی عورت گھر سے بے پردہ باہر نہیں نکلے گی تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہا جائے گااور ایک عظیم الشان مظاہرہ کیا جائے گا تاکہ انسان کو اس کی مرضی کے مطابق لباس اختیار کرنے کی اجازت دی جائے۔ اگر پردے کیلئے پابندی ہو تو یہ بربریت ہے اور پردے کے خلاف پابندی ہو تو اس قانون کہیں گے یا آزادی نسواں۔ کشمیر ، فلسطین ،افغانستان اور دنیا جہاں میں مسلمان عورتوں کی لٹتی ہوئی عصمتوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں مگر اگر ایک داڑھی والا شخص اپنی بیٹی کو تھپڑ بھی مار دے تو یہ ایک سانحہ عظیم ہوجاتا ہے کیوں؟ کیوں کہ وہ شخص مسلمان ہے ۔جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ اصل ہدف تو صرف اسلام ہے اور صرف اسلام۔درحقیقت یہ این جی اوز اسلام دشمن عناصر کی ایک بہت پرانی فوج ہے جو کبھی کسی روپ میں تو کبھی کسی نام سے نفاذ اسلام کی راہ میں کوئی نیا محاذ لئے نمودار ہوجاتی ہیں۔اور ابھی اسلام کے نفاذ کی تحریکوں کو اس جیسے انگنت محاذوں کا سامنا کرنا ہے کیو ں کہ یہ تواس فوج سے جنگ کی شروعات ہے۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    این جی اوز کے بارے آپ کی شئیرنگ بلا شبہ خوب ھے، خواتین کی آزادی کا بھی مطلب ہمیشہ ہی غلط کیا جاتا ھے

    ایک بات سکارف کے بارے کہوں گی اس پہ پابندی کا مسلہ کوئی اتنا گھمبیر نہیں ھے اسے مسلہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ یہاں ایسی خواتین بھی نظر آتی ھیں جن کے پا سکارف تو ہوتا ھے مگر سر پہ نہیں‌ہوتا مگر ان کا لباس ایسا ہوتا ھے کہ کوئی بد گناہ ان کی طرف نہیں اٹھتی اس کے برعکس سر یا بالوں کو سکارف میں چھپائے کچھ خواتین ایسے لباس میں بھی نظر آتی ھیں کہ نظریں شرم سے جھک جاتی ھیں ،
    ہم لوگ بھی اپنے مذہب کا تماشا بنا لیتے ھیں ایک پرائمری سکول کی ٹیچر جو دوسری یا تیسری کلاس کو پڑھا رہی ھے وہ عدالت میں‌جا کے کیس کرتی ھے کہ اسے کلاس میں سکارف نہیں لینے دیا جاتا ، مجھے بتائیں پاکستان کے کس سکول میں ٹیچرز سروں پہ ڈوپٹے لے کے پڑھاتی ھیں
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم وقاص قائم بھائی ۔ جزاک اللہ

    بہت حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے آپ نے۔
    ان جی اوز ہر ملک میں ہی موجود ہیں۔ لیکن آپ نے یقیناً اسلامی ممالک میں این جی اوز کے حوالے سے جو حقائق منکشف کیے ہیں ۔وہ برحق ہیں۔ اکثریت این جی اوز کا حال عصرِ حاضر کے میر جعفر اور میر صادق جیسا ہی ہے۔ الاّ ماشاءاللہ ۔


    اللہ کریم ہمارے حال پر کرم فرمائے۔ آمین
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بہت شکریہ وقاص بھائی

    بہت اچھی تحریر ہے۔ یہ این جی اوز مغرب کی آلہ کار ہیں۔

    ان این جی اوز کا کردار جہاں مسلمان عورتوں کو بے راہروی، بے پردگی کا شکار کرنا ہے وہاں مسلمانوں کی نسل کشی کرنا بھی ہے۔ یہ فقرہ شاید آپ کے لئے حیران کن ہو لیکن ان این جی اوز کا سب سے اہم مقصد ہی یہ ہے۔
     
  6. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    سمجھ نہیں آیا کہ آپ نے اسکارف کی حمایت میں لکھا ہے یا مخالفت میں۔ جذبات تو خوب ہیں مگر الفاظ بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرا خیال ہے خوشی جی کہنا چاہ رہی ہیں کہ سکارف چاہے سر پر ہو یا نہ ہو ۔۔
    لیکن انسان کے لباس اور سوچ میں شرم و حیا اور پاکیزگی ہونا ضروری ہے۔

    اور یہ کہ اس مسئلہ کو کوئی بہت بڑا مسئلہ یا ایشو نہیں بنانا چاہیے۔


    (جو مجھے سمجھ آیا وہ میں نے لکھ دیا۔ ممکن ہے غلط ہو ۔ غلط ہونے کی صورت میں معذرت )
     
  8. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    نعیم بھائی آپ کی بات درست ہے کہ انسان کے لباس اور سوچ میں پاگیزگی ہونا ضروری ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پردہ وردہ کچھ نہیں ہوتا آنکھوں میں شرم ہونی چاہئے۔ ہم مغربی تقلید میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ ہم پر وہ مثال‌صادق آتی ہے کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔

    ایک بار ابن ام مکتوم :rda: کو حضور :saw: نے گھر بلایا۔ حضرت فاطمہ :rda: باہر کھڑی تھی۔ آپ :saw: نے فرما کہ فاطمہ پردہ میں جاؤ۔ ابن مکتوم آرہا ہے۔حضرت فاطمہ :rda: نے فرمایا کہ وہ نابینا ہے۔ آپ :saw: نے فرمایا کہ وہ نابینا ہے آپ تو نابینا نہیں۔ اندر پردہ میں ہوجاؤ۔
     
  9. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جی میرا یہی مطلب تھا شکریہ نعیم جی


    مگر میں کہنا یہ چاہ رہی تھی کہ سکارف تبھی مناسب لگتا ھے جب آپ کا سارا لباس مناسب ہو اور آپ کی ستر پوشی کر رہا ہو ورنہ دوسری صورت میں سکارف ایک مذاق بن جاتا ھے اور یہ لوگ اس کا تمسخر ہی اڑاتے ھیں

    میری اس بات سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خواتین کو سر ڈھانپنا نہیں چاہیئے، سر ڈھانپنا ضروری ھے ، مگر جب ہمارا سارا لباس ہی با پردگی میں آتا ہو تب آپ کا ڈھانپا ہوا سر دوسروں کو متاثر کرتا ھے

    میں ان بحثوں میں‌اسی لئے نہیں پڑتی کہ کئی بار لوگ اس بات کو سمجھ نہیں پاتے جو ہم کہنا چاہ رھے ہوتے ھیں لفظوں کو توڑ موڑ کے مطلب اخذ کر لیا جاتا ھے
    اور میں نے نظروں کے پردے کی بات نہیں کی ، کہ نظر کا پردہ خواتین سے زیادہ مردوں پہ لاگو ہوتا ھے

    میں اس سکارف کے خلاف ہوں جو سر کے بال تو ڈھانتا ھے مگر باقی لباس با حیا نہیں‌ہوتا
    اور ایسی مثالیں نہ صرف مغربی ممالک میں بلکہ پاکستان میں بھی نظر آئیں گی آپ کو


    بس اس سے زیادہ نہیں کہوں گی
     
  10. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جی میرا یہی مطلب تھا شکریہ نعیم جی


    مگر میں کہنا یہ چاہ رہی تھی کہ سکارف تبھی مناسب لگتا ھے جب آپ کا سارا لباس مناسب ہو اور آپ کی ستر پوشی کر رہا ہو ورنہ دوسری صورت میں سکارف ایک مذاق بن جاتا ھے اور یہ لوگ اس کا تمسخر ہی اڑاتے ھیں

    میری اس بات سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خواتین کو سر ڈھانپنا نہیں چاہیئے، سر ڈھانپنا ضروری ھے ، مگر جب ہمارا سارا لباس ہی با پردگی میں آتا ہو تب آپ کا ڈھانپا ہوا سر دوسروں کو متاثر کرتا ھے

    میں ان بحثوں میں‌اسی لئے نہیں پڑتی کہ کئی بار لوگ اس بات کو سمجھ نہیں پاتے جو ہم کہنا چاہ رھے ہوتے ھیں لفظوں کو توڑ موڑ کے مطلب اخذ کر لیا جاتا ھے
    اور میں نے نظروں کے پردے کی بات نہیں کی ، کہ نظر کا پردہ خواتین سے زیادہ مردوں پہ لاگو ہوتا ھے

    میں اس سکارف کے خلاف ہوں جو سر کے بال تو ڈھانتا ھے مگر باقی لباس با حیا نہیں‌ہوتا
    اور ایسی مثالیں نہ صرف مغربی ممالک میں بلکہ پاکستان میں بھی نظر آئیں گی آپ کو


    بس اس سے زیادہ نہیں کہوں گی[/quote:1xaff3fs]
    خوشی جی کی خوش الحانی دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی جتنی خوشی کبھی میسر نہ ہوئی۔
    بہر حال پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ کوئی لڑکی بھی اچھی باتیں کر سکتی ہے۔
     
  11. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    آپ تمام حضرات کی پسندیدگی کا شکریہ
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مبارک ہو وقاص بھائی ۔ خواتین کے بارے میں آپکی ایک بہت بڑی غلط فہمی دور ہوگئی ۔
     
  13. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    مبارک ہو وقاص بھائی ۔ خواتین کے بارے میں آپکی ایک بہت بڑی غلط فہمی دور ہوگئی ۔[/quote:vult7ndb]

    کسی خوش فہمی میں بھی نہیں‌رہنا چاہئے :hasna: :hasna: :hasna:
     
  14. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کو اتنی خوشی کیوں‌ہوئی ؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں