1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اہل غزہ کا عزم اور نصر ت خداوندی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از طارق اقبال, ‏2 نومبر 2010۔

  1. طارق اقبال
    آف لائن

    طارق اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2010
    پیغامات:
    33
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اہل غزہ کا عزم اور نصر ت خداوندی

    ﴿جناب عبدالغفار عزیز کا یہ مضمون ترجمان القرآن ﴿اکتوبر 2010 ﴾میں شائع ہوا۔﴾​


    غزہ سے آنے والا ایک فلسطینی عجیب جذبے سے سرشار تھا۔ بتار ہا تھا آپ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں ۔ہم ہر کام میں قرآن کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کرتے ہیں ۔گذشتہ تقریبا ً 4 برس سےہم مکمل حصار میں مقید کردیے گٕئے ہیں ۔جینے کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں ۔ہم نے قرآن سے رجوع کیا ، اس نے بتایا۔

    ۔۔۔۔ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ۔ ﴿الطلاق۔۲،۳﴾۔”جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے”۔ہم خود کو اور اپنی نسلوں کوقرآن کریم کے زیر سایہ لے آئے ۔دانہ پانی ،دوا،سازوسامان ،سب ناپید ہونےلگے۔قرآن کریم سے پوچھا توا س نے بتایا ۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ﴿الزمر ۔۵۳﴾ “اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ”۔ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا۔﴿ہود۔ ٦﴾۔”زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو”۔اوریہ کہ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ ﴿النجم﴾۔”اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے”۔

    ہم نے زیرزمین سرنگوں کے ذریعے سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کی سعی شروع کردی ۔میلوں لمبی سرنگوں کا پورا جال بچھ گیا ۔تھوڑی سی کوشش میں اللہ کی اتنی نصرت شامل ہوگئی کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود روزمرہ کی کئی اشیاء ایسی ہیں کہ غزہ میں تقریبا ً آدھی قیمت میں مل رہی ہیں ،جب کہ مصر میں جہاں سے یہ اشیاء لائی جارہی ہیں وہی چیزیں دگنی قیمت میں ملتی ہیں مثلاً چھوٹا گوشت یا تو ملتا ہی نہیں ،ملے تو غزہ میں 30مصری پونڈ ﴿430 روپے ﴾کلوملتا ہے ،جب کہ مصرمیں 60 پونڈ میں ،غزہ میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کیونکہ نایاب ہے تو قیمت بڑھا دو۔غزہ میں ایک خوف خدا اور ہر دم بیدار قیادت آنے سے ہم فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار وہ امن وامان قائم ہوا کہ جس کا ذکر ہم صرف تاریخ میں پڑھتے ہیں ۔

    میں نے سوال کیا لیکن اس 90فٹ گہری زیرزمین فولادی دیوار کا کیا بنا جو ان سرنگوں کو بند کرنے کے لیے مصر اور غزہ کی سرحد پر تعمیر کی گئی ہے ،اور اس کے لیے امریکہ سے ایسی آہنی چادریں بھجوائی گئی تھیں کہ بم بھی جن پر اثر نہ کرسکے ؟یہاں ہم نے پھر قرآن سے استفسار کیا ۔قرآن نے جواب دیا ۔وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴿انفال۔٦۰﴾،”اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو”۔ہم نے ان فولادی دیواروں کو کاٹنے کے لیے جو کچھ بھی انسانی ذہن میں تدبیر آسکتی تھی ،اختیار کی ۔ساتھ ہی ساتھ اس آیت کا ورد اور اللہ سے مدد بھی طلب کرتے رہے ۔یقین کیجیے کہ بموں سے بھی نہ کٹ سکنے والی ان چادروں میں بھی ہم اتنے بڑے بڑے شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگٕئے کہ اب وہاں سےگاڑیاں تک گزر سکتی ہیں ۔یہی نہیں قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ۔ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـ وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ١ۚ﴿البقرہ، ۲١٦﴾،”ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو”۔اس آہنی دیوار سے پہلے ہمارا ایک مسئلہ یہ تھا کہ طویل ہونے کی وجہ سے سرنگیں درمیان سے بیٹھ جایا کرتی تھیں ۔اب ان آہنی اور کنکریٹ کی دیواروں سے انھیں درمیان میں ایک مضبوط سہار ا مل گیا ہے۔

    90روز میں مکمل حفظ قرآن کے معجزے کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگا ،زیادہ بڑی تعداد اب 90 نہیں 60روز میں پورا قرآن حفظ کرنے لگی ہے ۔اب بچوں کے علاوہ بچیوں اور خواتین کے لیے بھی حفظ قرآن کیمپ لگائے جارہے ہیں ۔

    انہی دنوں غزہ کی ایک 59 سالہ داعیہ صُبحیہ علی کا انٹرویو دیکھا تھا ۔وہ کہہ رہی تھیں “ہمارا یقین ہے کہ ہماری نصرت کے تین مطلوبہ ستون ہیں ۔مسجد ،قرآن اور ثابت قدمی۔ہماری خواتین صرف رمضان یا جمعہ ہی کو مساجد نہیں جاتیں بلکہ ہفتے میں تین روز عصر سے عشاء تک مسجدیں آباد رکھتی ہیں ۔صرف نمازوں کی ادائیگی ہی نہیں کرتیں ،ایک مسلسل اور جامع تربیتی پروگرام میں شریک ہوتی ہیں ۔اس دوران دروس بھی ہوتے ہیں ۔مختلف کورسز بھی اورتربیتی ثقافتی اور تفریحی مقابلے بھی ۔ہماری تربیتی سرگرمیوں میں ہر عمر کی بچیاں اور خواتین شریک ہوتی ہیں ،لیکن 10سے 14 سال کی بچیاں ہماری خصوصی توجہ کا مرکز بنتی ہیں”۔
    صبحیہ کا کہنا تھا کہ “میں نے حفظ قرآن کیمپ کی ایک تقریب تقسیم اسناد میں شرکت کی ،16000 حفاظ جمع تھے ،سب کے چہرے قرآنی نور سے دمک رہے تھے ۔غزہ سے آنے والا مسافر بتارہا تھا ۔اس وقت غزہ میں ان نئے حفاظ کی تعداد 90000 سے تجاوز کرچکی ہے ۔اب ہم قرآن اوربندوق ،دونوں سے آراستہ ہورہے ہیں” ۔

    اسی روز عالمی ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کی “غزہ میں نئے راکٹ کا کامیاب تجربہ ،رینج دگنی ہوگئی ۔تل ابیب زد میں آگیا ،امریکا اور اسرائیل کا اظہار تشویش!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں