1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اک سلسلۂ بارشِ بے نم عجیب تھا

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏6 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اک سلسلۂ بارشِ بے نم عجیب تھا
    اُس شہر کم نصیب کا موسم عجیب تھا
    میرا ہے یا عدو کا‘خبر نہ تھی
    ہر لشکری کے ہاتھ میں پرچم عجیب تھا
    ہر بار قتل گاہ میں پایا گیا ہے وہ
    ہر بار اُس کاگریہ و ماتم عجیب تھا
    تیغِ ستم کی دھار بہت تیز تھی، مگر
    نوکِ قلم کی کاٹ کا دم خم عجیب تھا
    جنت بدر ہُوا تو مسلسل سفر میں ہے
    ذوقِ برہنہ پائی آدم عجیب تھا
    ترکِ تعلقات کی جلدی بھی تھی اُسے
    پھر جب ملا تو دیدئہ پُرنم عجیب تھا
    گہرا تھا زخم ہی کہ وہ ناسُور بن گیا
    یا اُس نمک سرشت کا مرہم عجیب تھا
    کچھ بات تھی ضرور کہ آج اُس کی بات کا
    ہر لفظ اور لہجۂ مبہم عجیب تھا
    وحشت زدہ سا ایک جزیرہ لگا مجھے
    اب کے گیا تو شہر کا عالم عجیب تھا
    عرفان صدیقی​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں