اِک روز کوئی تو سوچےگا فرزانوں کی اس بستی میں اک شخص تھا پاگل پاگل سا پر باتیں ٹھیک ہی کرتاتھا بارش کی طرح پُرجوش نہ تھا دریا کی طرح خاموش نہ تھا جن کو بلا کا چاہتا تھا ان ہی کے طعنےبھی سنتا تھا دنیا نے اسے کچھ نہ دیا پر اس نے سب کو پیار دیا جاں روتے روتے دے بیٹھا دل ہستے ہستے وار دیا کیوں جیتے جی درگور ہوا تن من کس پر وار دیا تھا دشمن کون بے چارے کا کس رنج نے اس کو مار دیا اک روز کوئی تو سوچے گا اور پہروں بیٹھ کے روئے گا