1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اپنے بچوں کی آنکھوں کا خیال رکھیں

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏21 مارچ 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    اپنے بچوں کی آنکھوں کا خیال رکھیں
    فوزیہ عباس


    ذھانت و شرارت سے چمکتی آنکھوں والے، ہنستے، مسکراتے، پیارے پیارے صحت مند بچے سب کو اچھے لگتے ہیں۔ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی اکثریت کسی بھی بڑے مرض کا شکار ہونے کی صورت میں عدم توجہ، وسائل کی کمی، لاعلمی اور شعور و آگاہی کے فقدان کے باعث بروقت و معیاری علاج کی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ خصوصاً بصارت سے محروم بچے کی زندگی کا ایسا المیہ اور عظیم نقصان ہے جس کی تلافی آیندہ زندگی میں ممکن نہیں ہو سکتی۔ بصارت سے محروم بچوں کا مستقبل ہی تاریک نہیں ہوتا بلکہ پوری زندگی اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔
    اپنے بچوں اور ان کی صحت سے متعلق مختلف امور کے حوالے سے ہماری مجرمانہ غفلت کا اس سے بڑا ثبوت اور لمحۂ فکریہ اور کیا ہوگا کہ ہمارے پاس ایسے کوئی سرکاری و غیرسرکاری مصدقہ اعدادوشمار ہی سرے سے موجود نہیں ہیں کہ جن سے پتا چل سکے کہ ہر سال کتنے فیصد بچے پیدائشی طور پر آنکھوں کے امراض و مسائل کا شکار ہوتے ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں بچوں کے آنکھوں کے امراض و مسائل کا تناسب کیا ہیَ یا پیدائشی طور پر بصارت سے محروم بچوں کی شرح کیا ہے؟
    گزشتہ دنوں معروف ماہرِامراضِ چشم ڈاکٹر عامر اسرار سے19 سال تک کی عمر کے بچوں کی آنکھوں کے امراض و مسائل اور ان کے علاج کے حوالے سے ایک طویل معلومات افزا نشست ہوئی، جس کا مقصد والدین و اساتذہ میں شعور و آگاہی پیدا کرنا اور ارباب اختیار و صاحب بصیرت افراد کی اس جانب توجہ مبذول کرانا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے ہونے والی گفتگو کے اہم نکات نذرِقارئین ہیں۔
    —————————————————————————————————————–
    ٭ دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں بچوں کی آنکھوں کے امراض و مسائل کی شرح کا کوئی درست ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ نہ ہی پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہونے والے بچوں سے متعلق کوئی اعدادوشمار ہیں۔٭ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں 3 بڑے امراض نظر کمزور ہونا، بھنگا پن اورا لرجی ہیں۔
    ٭ حاملہ خواتین کو کبھی بھی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے یا اِردگرد کی خواتین سے پوچھ کر دوا استعمال نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بے شمار دوائیں ایسی ہیں جو بچے کے Optic Nerves کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ آنکھوں میں موتیا پیدا کرتی یا بچے کی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔
    ٭ پیدائش کے بعد بچوں سے ڈاکٹر خاص طور پر بچے کی آنکھوں کا معاینہ ضرور کرتے ہیں کیونکہ فرض کریں اگر نومولود کی دونوں آنکھوں میں سفید موتیا موجود ہے تو اگر
    ۱۵ دن یا ایک مہینے کے اندر اس کا علاج نہیں کرایا جاتا تو بچہ ساری زندگی کے لیے بصارت سے محروم ہو سکتا ہے
    ٭ کسی بھی بچے میں سب سے زیادہ جو نظر کی خرابی پیدا ہو سکتی ہے وہ پہلے ماہ میں ہوتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا ٹائم ہے پہلا سال۔ تیسرا مرحلہ ہے عمر کے پہلے ۱۰سال۔ کسی بھی بچے میں اگر آنکھوں /نظر کی کوئی خرابی یا بیماری ابتدائی 10 سالوں کے اندر تشخیص ہو جاتی ہے تو وہ عموماً قابلِ علاج ہوتی ہے۔<
    دونوں آنکھوں میں علحٰدہ علحٰدہ ہونا چاہیے۔ Vision کہتے ہیں اور یہ Vision 66 or Vision 20 ٭ ابتدائی 10 سالوں میں بچے کی نظر 100 فیصد ہونا چاہیے جسے
    ٭ کلربلائنڈنیس موروثی ہونے کی وجہ سے ناقابلِ علاج ہے۔ اس میں کوئی ایک رنگ بھی ہو سکتا اور سارے رنگ بھی ہو سکتے ہیں۔
    ٭ نظر کا ہماری جسمانی صحت کے ساتھ ۹۹ فیصد تعلق ہے۔
    ٭ وہ بچے جو کم یا غیرمتوازن خوراک لیتے ہیں ان کی نظر پر اثر پڑتا ہے۔
    ٭ بینائی تیز کرنے/برقرار رکھنے کے لیے صحت بخش متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے۔
    ٭ آنکھوں کی الرجی میں اگر تیز مرچ مسالے اور کھٹی چیزیں استعمال نہ کریں تو یہ نہیں ہوتی۔
    ٭ گرمیوں میں بچوں میں الرجی اور انفیکشن عام دیکھنے میں آتے ہیں۔
    ٭ وبائی /متعدی امراض میں الرجی اور انفیکشن اہم ہیں۔ ان سے بچنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ اپنے ہاتھ دھوتے رہیں۔ آنکھوں کو بلاوجہ نہ چھوئیں، اپنا تولیہ اور تکیہ الگ رکھیں۔ اس دوران جو ٹشوز استعمال کریں انھیں پوری طرح تلف /ضائع کریں۔
    ٭وہ بچے جو لگاتار آنکھ ملتے رہتے ہیں اس سے ان کی نظر کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایک کنڈیشن ہے جسے ہم کیرٹکونس کہتے ہیں۔ یہ قرینہ کا ٹیڑھا پن ہے جو آگے جا کر بہت سارے مسائل پیدا کرتا ہے۔
    ٭ وہ بچے جن کو چشمہ لگا ہو اور وہ نہ لگاتے ہوں، اُن کی نظر پر بھی اثر پڑتا ہے۔
    ٭ وہ بچے جو اندھیرے میں ٹی وی دیکھتے یا اندھیرے میں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کی نظر بھی متاثر ہوتی ہے۔
    ٭ ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل گیمز آنکھوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
    ٭ وہ بیماریاں جو دماغ اور اعصاب کو متاثر کررہی ہوتی ہیں، اُن کا براہِ راست اثر آنکھوں پر بھی پڑتا ہے۔
    ٭ سورج گرہن کے موقع پر مختلف طریقوں سے سورج کو دیکھنے سے اگر آنکھ کے پردے کے سیل جل جائیں تو آنکھ کے درمیان میں ایک دھبہ نمودار ہو جاتا ہے جو چیزوں کو فوکس کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
    ٭ بچوں میں نظر کمزور ہونے کی بنیادی وجہ والدین یا دونوں میں سے ایک کا چشمہ لگانا ہے۔ آنکھوں کو بے دردی سے ملنا اور اندھیرے میں پڑھنا، ٹی وی دیکھنا وغیرہ اس کے علاوہ چوٹ لگنا، الرجی رہنا اور انفیکشنز بھی نظر کی کمزوری کا باعث ہو سکتے ہیں۔
    ٭ کونٹیکٹ لینز بلاشبہ اچھی چیز ہیں، لیکن ہم چھوٹے بچوں کو ان کے استعمال کی ہدایت نہیں کرتے کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی سے پیدا ہونے والی الرجی اور انفیکشنز بعض اوقات ساری زندگی کے لیے نظر/ آنکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔
    ٭ لینز لگانے سے پہلے ہاتھ اچھی طرح دھونا چاہیے پھر لینز کو سلوشن سے دھوئیں۔ کینٹنر کی صفائی، جس جگہ لینز کو رکھا جائے، اس جگہ کے ٹمپریچر اور صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
    ٭ اگر سلوشن ختم ہوا ہو تو اس ٹائم پر ہرگز لینز استعمال نہ کریں۔ اکثر لوگ عام پانی سے دھو کر لینز لگا لیتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ ایک ذرا سی غلطی آنکھوں کو ساری عمر کے لیے ضائع کر سکتی ہے۔
    ٭ فیشن کے طور پر استعمال کیے جانے والے رنگ برنگے سن گلاسز اور لینز کے معیار کا خیال ضرور رکھیں۔
    ٭ والدین اور اساتذہ میں بچوں کے آنکھوں کے امراض و مسائل سے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے لیکچرز، ورکشاپس/سیمنارز وغیرہ کا انعقاد کیا جائے تو میرے خیال میں 99 فیصد مسائل تو بروقت تشخیص کے باعث ایسے ہی حل ہو جائیں۔
    ٭ آپریشن سے خوفزدہ والدین سے گزارش ہے کہ جب معاملہ بچے کی صحت ، زندگی اور مستقبل کا ہو تو اپنا دل سخت کرنا پڑتا ہے، کیونکہ اس میں ٹائم فریم کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اپنی ہر طرح سے تسلی کرکے بروقت فیصلہ کرنے ہی میں ان کے بچے کی بہتری ہوتی ہے​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں