آنسو کا ہر قطرہ دنیا کی ہر چیز سے مہنگا ہے لیکن کوئی اس کی قیمت اس وقت تک نہیں جان سکتا جب تک وہ آنسو اس کی اپنی آنکھ سے نہ نکلے!
میرے آنسو ہمیشہ مجھے بے نقاب کردیتے ہیں اگر کوئی مجھے اپنا دکھڑا سنائے اور مجھے یقین ہو کہ صحیح ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میری دونوں آنکھوں سے آنسو نہ بہے ہوں۔ جب بھی میں خوش الحان قاری کی قرآت سنتا ہوں تو بھی آنسووں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس کے علاوہ اہل بیت میں کسی ایک کے بارے میں ذکر ہوتا ہے تو بھی آنسووں کی لڑی جاری ہوجاتی ہے آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ میں نے حضرت یوسف علیہ السلام پر بننے والی فلم دیکھی تو پورے ساڑھے تین ڈبے ٹشو لگے اسی طرح حضرت مریم پہ بننے والی فلم پہ بھی یہی حال رہا۔ دراصل میرے آنسو میرے قریبی دوست ہیں اور ان کی وجہ سے مجھے بہت سکون ملتا ہے جو لوگ مجھ سے ذیادتی کریں تو مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں رہتا مگر یہ سوچ کرکہ یہ لوگ ظلم کے مرتکب ہورہے ہیں اور اللہ تعالی کی پکڑ ہوگی اس وجہ سے بھی آنسو نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوشی کی وجہ سے شکرانے کے طور پر میرے آنسو امڈ آتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ اللہ تعالی کا خاص کرم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحمد للہ
یہ تو آپ اپنے مزاج کی بات کررہے ہیں اور آپ کا مزاج بہت اچھا ہے اب تک اتنا اندازہ تو ہوگیا ہے مجھے بھی آپ کے کمنٹس پڑھ پڑھ کر۔ مگر بھائی میرا سوال اور تھا اس پر غور کریں جس کی وجہ سے ہمارے آنسو بہے کیا ہمیں معاف کردینا چاہیئے؟
ارے ضرور معاف کردینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی بہت مہربان ہیں۔ جب ہم دوسروں کو معاف کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنے ظرف اور ضمیر و نفس کی تعمیر و تربیت کررہے ہوتے ہیں اگر ہم دوسروں کو بار بار معاف کرتے رہیں تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم کبھی بھی دوسروں کے ظلم و ستم اور جبر و استبداد سے مغلوب نہیں ہوں گے بلکہ ہمار صبر ہمیں نیا حوصلہ عطاء کرے گا اور ہم اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔۔۔۔ بے شک اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے والے بہت خوش قسمت ہوتے ہیں۔
معاف کرنا دراصل یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے احساسات کو مجروح کرے یا آپ کو کوئی مالی یا جسمانی نقصان پہنچائے تو اس کی برائی کا شکار فرد اسے رضاکارانہ طور پر بدلہ نہ لے اور اسے بھول کر اسے چھوڑ دے. درحقیقت معاف کرنا صفت خداوندی ہے اور الله کو یہ عمل بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿۔۔۔فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ۔۔۔الاية﴾ ﴿ سورة الشورى -٤٠ ﴾ ترجمہ: پھر بھی جوکوئی معاف کردے اور اصلاح سے کام لے تو اس کا ثواب اللہ نے اپنے ذمّے لیا ہے۔ (آسان ترجمۂ قرآن؍ مفتی محمد تقی عثمانی۔ج؍۳ :ص؍۱۴۷۹)یعنی: جو معاف کردے اور اصلاح کا راستہ اختیار کرے، اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ جس میں یہ ہدایت کردی کہ معاف کردینا افضل ہے۔(معارف القرآن:ج؍۷۔ص؍۷۰۷)اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن جہاں معاف کردینا اصلاح کا موجب ہوسکتا ہے وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کردینا زیادہ بہتر ہے۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نفس پر جبر کرکے دیتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمّہ ہے، کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔ (تفھیم القرآن۔ج؍۴:ص؍۵۱۱) ایک شخص مرنے کے بعد خود کو جنت میں پاتا ہے اورحیران ہو کر رب العزت کے حضور سوال پوچھتا ہےیا اللہ پاک ! مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے ایسی کوئی قابل ذکر نیکی کی ہو جسکی وجہ سے مجھےاتنا بہترین انعام سے نوازا گیا۔اللہ پاک فرماتے ہیں۔۔۔۔۔ واقعی تو نے ایسا بڑا کام نہیں کیا سوائے اس کے،کہ تو سونے سے پہلے سب کو معاف کرکے سویا کرتا تھا. تجھے کیا لگتا ہے ؟؟؟تو مجھ سے زیادہ سخی ہے۔۔۔؟؟؟جا۔۔۔!! میں نے بھی تجھے معاف کیا۔۔۔۔سبحان تیری قدرت۔۔۔۔۔ معافی بدلہ لینے سے زیادہ افضل ہے اللہ تعالی ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین