1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اِسلام + فرقہ = صفر

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از جان شاہ, ‏7 دسمبر 2012۔

  1. جان شاہ
    آف لائن

    جان شاہ ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اگست 2012
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    215
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام کو عمل سے نکال کر علم میں داخل کرنے والے اسلام کے محسن نہیں ہیں۔ اسلام پر کتابیں لکھنا اور کتابوں پر کتابیں لکھنا اور تبصرے کرنا اور تقریریں کرنا اسلام نہیں۔ ایک کافر اسلام پر یا حضور کی حیاتِ طیّبہ پر کتاب لکھ کر تو مومن نہیں ہو سکتا۔ مومن وہ ہے جس کو اعتمادِ شخصیتِ نبی حاصل ہواور جسے وابستگی نبی حاصل ہو۔ مومن وہ نہیں جسے بھائی مدد کو پکارے تو وہ اسے قرآن سنانا شروع کر دے۔ مومن وہ نہیں جو وعدہ پورا نہ کرے اور نماز پوری کرے۔ مومن وہ نہیں جو منبر پر کھڑے ہو کر مسلمانوں میں انتشار پھیلائے۔فرقہ پرست ، حق پرست نہیں ہو سکتا ۔

    اسلام مسلمانوں کی وحدتِ فکرو عمل کا نام ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ہمیشہ اسلام کے قریب رہے گی۔ وحدتِ ملت سے جدا ہونے والا فرقہ اسلام سے جدا ہو جاتا ہے۔

    اسلام مسلمانوں کی وحدتِ فکرو عمل کا نام ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ہمیشہ اسلام کے قریب رہے گی۔ وحدتِ ملت سے جدا ہونے والا فرقہ اسلام سے جدا ہو جاتا ہے۔ شارحینِ اسلام کی طویل اور معکوس وضاحتوں نے فرقے تخلیق کیے ہیں۔ فقہاء، علماءاور فقراءکی نیّت پر شک نہیں۔ ان کا تدبّر درست ، ان کے ارشادات بجا ، لیکن مسلمانوں کی وحدت ، ان کی تعمیر و ترقی کے لیے اسلام کے اتنے فرقے کس حد تک موزوں رہے ، تاریخ شاہد ہے۔ اسلام کے شجر کو اتنے پیوند لگائے جا چکے ہیں کہ اس کااصل رنگ دب کر رہ گیا ہے۔

    اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سب فرقے اپنے اپنے مقام پر صادق ہیں ، تو بھی فرقہ سازی کا عمل خوبصورت عمارت کو اینٹ اینٹ میں تقسیم کر دے گا اور اسلا م کا رُعبِ جمال ، جو باعثِ عروج و کمال تھا ، اضمحلال و زوال کا شکار ہو جائے گا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرقہ وحدتِ ملّت کی طرف سفر کرے اور ایک بار پھر وہی مقام حاصل ہو جائے جو اسلام کا حق ہے اور یہ حق برحق ہے۔بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں کئی لاکھ مساجد ہیںاور کئی لاکھ آئمہ مساجد۔ اس کے باوجود قوم کا عالم یہ ہے کہ معاشرے میں تمام برائیاں موجود ہیں۔ اسلام کا بیان بہت ہو چکا ، اب اسلامی عمل کا وقت ہے۔ اپنے سماج کی تطہیر اور اس کے بعد تطہیرِ نظامِ دنیا منصبِ اسلام ہے۔ آیئے ایک سرسری جائزہ لیں کہ ہمارے ہاں اسلام کے نام پر کیا کیا ہو رہا ہے اور اس کا نتیجہ کیا برآمد ہو رہا ہے۔

    مذہبی فرقے اور ان کے سربراہ ، دوسرے مذہبی فرقوں اور ان کے سربراہوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ مقامِ توحید اور مقامِ رسالت کے تحفّظ کے نام پر ایک گروہ دوسرے گروہ کا مخالف ہے۔ یا رسول اللہ کہنے یا نہ کہنے پر ابھی تک دلائل دیے جا رہے ہیں۔ تبلیغی جماعتوں کے اندازِ فکر پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ تقریباََ ہر فرقے کے پاس دوسرے فرقے کے لیے فتویٰ ¿ کفر موجود ہے۔ مسلمانوں کو اسلام کا ماضی سنا سنا کر ملّتِ اسلامیہ کو قصہ¿ ماضی بنایا جا رہا ہے۔ اسلام میں اتنا اسلام ملا دیا گیا ہے کہ اب نتیجہ صفر ہے۔ ہر فرقہ اسلام کے نام پر علیحدہ ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ اسلام وحدتِ ملت کا نام ہے۔
    اسلام جب اللہ کا دین ہے تو اسے اللہ کی رضا حاصل ہونا چاہیے اور اللہ کی رضا ہی مسلمانوں کی سرفرازی کی ضامن ہے۔ آج کے مسلمانوں کی زبوں حالی اس لیے ہے کہ اسلام میں ملاوٹ ہو گئی ہے۔ آج کے فقہاءمسلمانوں کو ایک اسلام سے وابستہ کر کے انہیں پھر عروج کی منزل دکھائیں۔ ابھی وقت ہے ، فرقوں سے الگ ہو کر وحدتِ ملت کی طرف سفر کیا جائے ، ورنہ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو خدانخواستہ ہر مسجد ، مسجدِ قرطبہ بن کر رہ جائے گی، ماضی کی یادگار ، عظیم یادگار مسجدِ قرطبہ ، حال اور مستقبل سے محروم۔ ہم مسلمان ہیں۔ یہی ہمارا فرقہ ہے۔ یہی ہماری طریقت ہے اور یہی ہماری جمعیت۔ کلمہ¿ طیّب ہی کلمہ¿ توحید ہے۔ اسی بنیاد پر وحدتِ ملت کی عمارت استوار کی جا سکتی ہے۔ مسلمان متحد ہو جائیں تو نصرت اور کامیابی ان کا مقدّر ہو جائے، ورنہ اسلام میں فرقہ سازی اور فرقہ کا عمل ہمیں اسلام سے اتنا دُورلے جائے گا کہ ہم مسلمان کہلانے کے قابل ہی نہ رہیں گے۔
    حضرت واصف علی واصف
     

اس صفحے کو مشتہر کریں