1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اُردوشاعری میں طنز ومزاح

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از سقراط, ‏15 مئی 2011۔

  1. سقراط
    آف لائن

    سقراط ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2011
    پیغامات:
    109
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    ملک کا جھنڈا:
    طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا جدید دور قیامِ پاکستان سے شروع ہوتا ہے اور اس کا دائرہ اثر ۱۹۸۰ء تک پہنچتا ہے۔ اس دور میں طنزیہ ومزاحیہ شاعری مختلف اخبارات و رسائل اور عام مشاعروں کے ذریعے عوام تک پہنچی۔ کبھی کبھار مشاعروں میں مزاح گو شعرا کو بھی دعوتِ کلام دے دی جاتی تھی تاکہ سنجیدہ مشاعروں کی سنجیدگی کے رنگ کو بدلا جا سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ مزاح گو شعرا نے بھی مل بیٹھنا شروع کر دیا اور ۸۰ء تک آتے آتے مزاحیہ مشاعروں کا باقاعدہ اہتمام شروع ہو گیا۔ اس جدید عہد کو ہم طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا عبوری عہد بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہیں سے اس کو عوام وخواص میں پذیرائی ملنے کی ابتدا ہوتی ہے۔ڈاکٹر انعام الحق جاویدکے طنزیہ ومزاحیہ شاعری کے چار صدیوں پر محیط تذکرے ’’گلہائے تبسم‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد میں کئی شعرا نے طنزومزاح کی راہ اختیار کی لیکن وہ معروف نہ ہو سکے۔ اس باب میں اُن شعرا کا تذکرہ مذکور ہے جنھوں نے اپنی ذات میں ایک دبستان کی حیثیت اختیار کرلی، ہمہ وقت مزاح گو شاعر کہلائے اور چمنستانِ طنزومزاح کو تروتازہ کیا۔ان میں راجہ مہدی علی خان،حاجی لق لق،ظریف جبل پوری،خضر تمیمی، سیّد محمد جعفری، مجید لاہوری، نذیر احمد شیخ اور آزر عسکری خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

    راجہ مہدی علی خان
    حاجی لق لق
    مجید لاہوری
    خضر تمیمی
    سیّد محمد جعفری
    ظریف جبل پوری
    نذیر احمد شیخ
    آزر عسکری


    ۱۔ راجہ مہدی علی خان

    طنزیہ ومزاحیہ شاعری کے اس عہد میں ان کا نام خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سماجی بُرائیوں اور زندگی کے حقائق پر نشتر زنی کی ہے۔ راجہ مہدی علی خان کی نظموں میں طنزومزاح کی کئی جہتیں بیک وقت عمل پذیرہو کر قاری کے ذہن کوجھنجوڑنے لگتی ہیں اور وہ گہری سوچ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اسی حوالے سے لکھتے ہیں:
    ’’۔۔۔راجہ مہدی علی خان کی نظموں میں بعض حقائق کو طشت ازبام کرکے خواب پرستوں کی ذہنی اُڑان کو روکنے کی بھی ایک واضح سعی نظر آتی ہے۔ مثلاً ان کی نظم ’’چور اور خدا‘‘ میں اگر دعا کی جذباتیت کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہے تو’’ کانے کے آنسو‘‘ میں محبت کی جذباتیت کو رسوا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر وہ ان باتوں سے ذرا ہٹ کرٹھوس حقائق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو’’اجی پہلے آپ‘‘ اور ’’ملاقاتی‘‘ جیسی تخلیقات معرضِ وجود میں آنے لگتی ہیںاور طنز کی نشتریت تیز سے تیز تر ہو جاتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں راجہ صاحب کی بہترین نظم ’’ایک چہلم پر ‘‘ہے جس میں انتہائی خوبی اور جرأت سے سماج کی بعض دلچسپ رسوم کے مضحک پہلوئوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔‘‘[۱۸]
    نظم ’’ایک چہلم پر‘‘ملاحظہ کریں جس میں پائی جانے والی طنز کی تیز تر لہروں کا ذکر ڈاکٹر وزیر آغا نے درج بالا اقتباس میں کیا ہے:
    ایک چہلم پر
    رضیہ ذرا گرم چاول تو لانا ! ذکیہ ذرا ٹھنڈا پانی پلانا !
    بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
    منگانا پلائو ذرا اور خالہ ! بڑھانا ذرا قورمے کا پیالہ !
    جدھر دیکھتے ہیں ادھر غم ہی غم ہے کریں اس کا جتنا بھی ماتم وہ کم ہے
    پڑا ہے پلائو میں گھی ڈالڈے کا خدا تو ہی حافظ ہے میرے گلے کا
    دُلہن سے کہو آہ ! اتنا نہ روئے بچاری نہ بے کار میں جان کھوئے
    اری بوٹیاں تین سالن میں تیرے یہ چھچھڑا لکھا تھا مقدر میں میرے
    بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
    دلہن گھر میں چورن اگر ہو تو لانا نہیں تو ذرا کھاری بوتل منگانا
    نہ کر بَین اتنے نہ رو اتنا پیاری ہمارے کلیجے پہ چلتی ہے آری !
    راجہ مہدی علی خان نے طنز کے ساتھ خالص مزاح گوئی کے نمونے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ان میں زیادہ گہرائی میں جائے بغیر مفہوم تک پہنچا جا سکتا ہے اور طنز کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ’’ڈاکوئوں سے انٹرویو‘‘ ایسی ہی ایک نظم ہے جس کے چند اشعاردرج ذیل ہیں:
    ڈاکوئوں سے انٹرویو
    جی اس بندے کو ویسے تو ابودائود کہتے ہیں بہت سے مہرباں لیکن ابو المردود کہتے ہیں
    مرے والد فرید آباد کے مشہور ڈاکو تھے خدا بخشے انھیں ، اپنے زمانے کے ہلاکو تھے
    نہیں تھا چور کوئی شہر میں دادا کے پائے کا چرا کر گھر میں لے آئے تھے کتا وائسرائے کا
    مرے ماموں کے جعلی نوٹ امریکا میں چلتے تھے ہزاروں چور ڈاکو ان کی نگرانی میں پلتے تھے
    مرے پھوپھا چھٹے بدمعاش تھے اپنے زمانے کے خدا بخشے بہت شوقین تھے وہ جیل خانے کے
    خُسر صاحب سخاوت پور کی رانی بھگا لائے مرے ہم زُلف اس کی تین بہنوں کو اُٹھا لائے
    مرے بھائی نے کی تھی فور ٹونٹی چیف جسٹس سے وہ جب بگڑا ، جلا دیں اس کی مونچھیں اپنی ماچس سے
    بڑے وہ لوگ تھے لیکن یہ بندہ بھی نہیں کچھ کم خدا کا فضل ہے مجھ پر نہیں مجھ کو بھی کوئی غم
    میں راجوں اور مہاراجوں کی جیبیں بھی کترتا تھا چرس ، کوکین اور افیون کا دھندا بھی کرتا تھا
    مرے معمولی شاگردوں نے چودہ بینک لوٹے تھے مری کوشش سے باعزت بری ہو کر وہ چھوٹے تھے
    عدالت مانتی تھی میری قانونی دلیلوں کو کرایا میں نے اندر شہر کے پندرہ وکیلوں کو
    جو دن میں نے گزارے، شان و شوکت سے گزارے ہیں
    ذرا کچھ ان دنوں ہی میرے گردش میں ستارے ہیں
    راجہ صاحب کے دو شعری مجموعے’’مضراب‘‘ اور’’اندازِ بیاں اور‘‘ منظر عام پر آئے۔ ان کی مقبول و معروف نطموں میں’’چور کی دعا ، مثنوی قہرالبیان،پنجاب کے دیہات میں اردو، ملاقاتی، ایک چہلم پر، اجی پہلے آپ،کانے کے آنسو‘‘وغیرہ ہیں۔

    ۲۔ حاجی لق لق

    ان کی شاعری میں مزاح کا عنصر غالب ہے۔انھوں نے عشق،محبت،حسن کے ساتھ معاصر سیاسی لیڈروں اور سیاسی رجحانات پر تسلسل کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔ تحریف ان کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا اہم ہتھیار ہے اور معروف شعرا کی غزلیات کی پیروڈیاںان کے مجموعہ کلام’’منقار لق لق‘‘ میں شامل ہیں۔ غزلیات کے چند منتخب اشعار دیکھیے جن سے مزاح پوری طرح عیاں ہے :
    وہ آئیں گھر پہ مرے مجھ کو اعتبار نہیں یہ میرا گھر ہے کسی پیر کا مزا ر نہیں
    ترا مریض ہوں کسی ڈاکٹر کا گھر نہ بتا یہ درد عشق ہے ظالم کوئی بخار نہیں

    حال تیرے ہجر میں کیا دیکھ دلبر ہو گیا روتے روتے میرا اوور کوٹ بھی تر ہو گیا
    رات دن ہوتا ہے میرے دل کے ارمانوں کا خون دل میرا بھی شو مئی قسمت سے سکھر ہو گیا

    اے جاں تری بزم میں کیا کیا نہیں ہوتا گانا نہیں ہوتا ہے کہ مجر ا نہیں ہوتا
    کیوں جمع مرے گرد ہے مخلوق خدا کی میں ہوں، کوئی بندر کا تماشا نہیں ہوتا
    کیا کھانے پہ اس شوخ کو بلوائیے لق لق گر دیگچہ ہوتا ہے تو چمچہ نہیں ہوتا
    ہندوئوں کے سیاسی رہنما گاندھی اپنے ساتھ ایک بکری رکھتے تھے جس کا مضحکہ حاجی لق لق نے ’’گاندھی کی بکری‘‘کے عنوان سے اُڑایا ہے۔اس نظم کے دو بند دیکھیے:
    یہ بکری بھی دیوی ہے نزدیک ہندو
    یہ کرتی ہے میں میں وہ کرتے ہیں تُو تُو
    دو سینگ اس کے ہیں غیرت شاخ آہو
    بڑا مست ہے اس پہ ہندو کا باپو
    بڑھاپے میں اس کا یہی ہے سہارا
    مسلماں کو گاندھی کی بکری نے مارا

    مسلماں سے کہتی ہے بکری کہ آئو
    مسلماں بڑی بی سے کہتا ہے جائو
    یہ کہتی ہے مجھ سے ذرا دل لگائو
    وہ کہتا ہے تیرا پکے گا پلائو
    یہ جھگڑا بڑھا جا رہا ہے ہمارا
    مسلماں کو گاندھی کی بکری نے مارا
    حاجی لق لق کی ایک اہم نظم ’’مقصدِ حیات‘‘ہے جو زندگی کے بیشتر گوشوں کا طنزیہ ومزاحیہ تنقیدی روپ ہے۔ اس نظم میں انسانی نفسیات کے پسِ پردہ محرکات کا بیان شاعر کے عمیق مشاہدات کا گواہ ہے۔مسدس کی ہئیت میں لکھی گئی اس نظم کے چند بند دیکھیے:
    زندگی کیا چیز ہے کس دیس کی سوغات ہے
    آئو ہم بتلائیں کیوں جیتے ہیں، کیا بات ہے
    زندگی اپنی نمائش گاہِ پاکستان ہے
    چار دن بجلی کا لیمپ اور پھر اندھیری رات ہے
    آئے ہیں دنیا میں ہم کچھ کام کرنے کے لیے
    کچھ خدا سے اور کچھ بیوی سے ڈرنے کے لیے

    زندگی کا ایک مقصد لیڈری کرنا بھی ہے
    چندہ کھا کر قوم کی اُلفت کا دم بھرنا بھی ہے
    ملک پر جاں دینا لفظی طور پر مرنا بھی ہے
    اس پہ ’مردہ باد‘کے نعروں سے کچھ ڈرنا بھی ہے
    گرم جلسوں میں رہے ہنگامہ شیخ و شباب
    کان میں آتے رہیں بس نعرہ ہائے انقلاب

    مقصدِ حجام ہے عورت بنانا مرد سے
    مقصد اپنا ہے ڈرانا بُت کو آہِ سر د سے
    کام کُتوں کا سدا آوارہ کوچہ گرد سے
    ڈاکٹر کے ایکسرے سے اور دلِ پُر درد سے
    یہ ایڈیٹر کا ہے مقصد جنگ چھڑ جائے کہیں
    یہ نہیں تو مسلم اور ہندو ہی بھڑ جائے کہیں

    زندگی کے اور مقصد بھی ہیں انساں کے لیے
    کوئی ایواں کے لیے ہے کوئی زنداں کے لیے
    کوئی گلشن کے لیے کوئی بیاباں کے لیے
    اور تعلق ہے تو افکارِ پریشاں کے لیے
    رات دن اس کا قلم مصروفِ ’لق لقیات‘ ہے
    ’’چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے‘‘
    حاجی لق لق کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری اس حوالے سے اہم ہے کہ اردو طنزو مزاح کی تاریخ میں اس کے حوالے سے ان کا نام بھی پکارا جائے گا بصورت دیگر موضوعات کی قلت اور زبان کے عامیانہ پن نے ان کی شاعری کی اہمیت کوکم کر دیا ہے۔البتہ اردو صحافت میں ان کی خدمات کا اعتراف طنزیہ ومزاحیہ کالم نگاری کے طور پر زندہ رہے گا۔

    ۳۔ مجید لاہوری

    ان کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری میں صحافتی رنگ غالب ہے اوراسی لیے شاعری کی زبان سادہ و سلیس ہے۔ سیاست،ثقافت اور معاشرتی مسائل ان کی طنز کا شکار بنتے ہیں جب کہ خالص مزاح کے نقش بھی ان کے مجموعہ کلام’’نمکدان‘‘میں دیکھے جا سکتے ہیں۔طنزیہ ومزاحیہ دونوں طرح کی شعری جہات ایک ہی مثال میں پیش ہیں:
    نہ ہم گورے سے ڈرتے ہیں نہ کالے سے ڈرتے ہیں
    مگر اس دور میں انگریز کے سالے سے ڈرتے ہیں
    یہی ’’کالا فرنگی‘‘ کل بھی تھا ’’آفت کا پرکالا‘‘
    ابھی تک ہم اس آفت کے پرکالے سے ڈرتے ہیں
    خدا جانے وہ کب ڈس لے اسے عادت ہے ڈسنے کی
    ہم اہل دل ہیں، کافر گیسوئوں والے سے ڈرتے ہیں
    غضب یہ ہے متاع دین و ایماں کے محافظ بھی
    متاع دین و ایماں بیچنے والے سے ڈرتے ہیں
    ’’مادر پدر آزادیاں‘‘ میں مجید لاہوری کے لہجے میں کڑواہٹ اور درشتگی صاف محسوس ہوتی ہے۔ خواتین کی آزادی کے نام پراسلام دشمن طاقتوں نے پاکستانی معاشرے میں بے حیائی،عریانی اور فحاشی کا جو بیج بویا ،اس نے نوجوان نسل کو دین سے دور کرنے کے ساتھ اپنی اعلیٰ اقداراور روایات سے بھی بہت دور کرکے مملکتِ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی۔ ایسی ہی ایک ناپاک سازش پر مجیدلاہوری کا قلم خون کے آنسو روتے ہوئے بڑے بے باک طریقے سے ایک سیاہ تصویر دکھاتا ہے:
    ہو گئیں بیباک اور آزاد حوا زادیاں
    ابن آدم نے بسائی ہیں نئی آبادیاں
    شادیوں کی کیا ضرورت ہے جو ہوں دلشادیاں
    بن گئیں زندہ حقیقت خواب کی شہزادیاں
    دید کے قابل ہیں یہ مادر پدر آزادیاں

    کون سا دن ہے نہ ہو اخبار میں جب یہ خبر
    ڈھیر پر کوڑے کے آئی لاش بچے کی نظر
    مار ڈالا جس کو جِنتے ہی، گلے کو گھنٹ کر
    ایک سر قربان کرکے مٹ گیا سب درد سر
    دید کے قابل ہیں یہ مادر پدر آزادیاں

    ۴۔ خضر تمیمی

    ان کی مزاحیہ شاعری تحریف نگاری کے حربے سے بھرپور ہے۔ نظموں میں اپنا مدعا ظریفانہ جزئیات کے ساتھ بیان کرنے میں مشہور تھے اسی لیے ان کی نظمیں خاصی طویل ہیں۔ اس طوالت کے باوجود ان میں موجود مزاح نے نظموں کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ زبان وبیان پرعبور نے ان کی نظموں میں جان ڈالنے کا فریضہ انجام دیا اور داخلی قوافی کے اہتمام ومقفّی الفاظ کے استعمال نے چاشنی کا سامان پیدا کر دیا۔نظم’’ہاتھ کی روانی‘‘ میں اس کی مثال دیکھیے:
    یہ ہے آج ہی رات کی داستاں کہ تھے میہماں میرے اک مہرباں
    دکھائوں میں حضرت کے کھانے کا ڈھنگ لکھوں ان کے لقمے اُڑانے کا رنگ
    پلیٹوں میں ہلچل مچاتا ہوا وہ چمچے سے چمچا لڑاتا ہوا
    پلائو میں سالن ملاتا ہوا وہ جل تھل کا عالم رچاتا ہوا
    وہ بوٹی پہ چڑھ کر لپٹتا ہوا وہ روٹی سے بڑھ کر چمٹتا ہوا
    فقط شوربے سے کھسکتا ہوا مربے سے جا کر پچکتا ہوا
    گیا دال پر دندناتا ہو وہ مرچو ں سے دامن بچاتا ہوا
    وہ چمچے سے چُلو بناتا ہوا وہ آلو کو اُلّو بناتا ہوا
    سویّوں پہ سو جاں سے مرتا ہوا ادھر لاڈ لڈو سے کرتا ہوا
    پسند اک پسندے کو کرتا ہوا تو چٹنی پہ چٹخارے بھرتا ہوا
    سموسے میں خود کو سموتا ہوا ادھر کھوئے کے ہوش کھوتا ہوا
    یہ برفی کا دل برف کرتا ہوا یہ زردے کا منہ زرد کرتا ہوا
    پلائو پہ پل پل کے آتا ہوا وہ ’’پھرنی‘‘ پہ پھر پھر کے آتا ہوا
    نوالے سے کشتی بناتا ہوا وہ حلوے کے گولے اُڑاتا ہوا
    وہ جبڑوں سے بوٹی مسلتا ہوا اُسے بن چبائے نگلتا ہوا
    لبوں پہ زباں کو پھراتا ہوا لپٹتے ہوئے پھیل جاتا ہوا
    بگڑ کر وہ کف منہ پہ لاتا ہوا وہ غازی ہے یوں کھانا کھاتا ہوا
    غرض اس طرح ہیں مرے مہرباں بس اب دیکھ لیں شاعرِ نکتہ داں
    وہ سودا وہ اکبر کا آبِ لو ڈور یہاں خضر کی بے زبانی کا زور
    خضر تمیمی اپنی تحریفات میںمزاح اور خوشی طبعی کے سنگ سنگ گہری حساسیت کا اظہار بڑی شوخی کے ساتھ کرتے ہیں لیکن یہ شوخی و تیزی تمام تحریفات میں اپنا وجود رکھنے سے قاصر رہتی ہے۔ تحریف میں اسی طرز کے مزاح کا ایک نمونہ ان کی نظم ’’جہاں رمضان رہتا تھا‘‘ کی صورت میں ملاحظہ کیجیے:
    یہی کوچہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
    وہ اس کوچے کا نمبر دار تھا آزاد رہتا تھا
    بہت مسرور رہتا تھا بہت دلشاد رہتا تھا
    بسان قیسِ عامر صورتِ فرہاد رہتا تھا
    جو اس کو یاد رکھتا تھا وہ اس کو یاد رکھتا تھا
    اور اس دالان میں اس کا چچا رحمان رہتا تھا
    یہی کوچہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
    اسی چھپر تلے دن رات اس کی چارپائی تھی
    یہی دوچار کپڑے تھے اور اک میلی رضائی تھی
    وہ اس دنیا کا مالک تھا یہی اس کی خدائی تھی
    اور اس کُوچے کے پنواڑی سے اس کی آشنائی تھی
    کبھی وہ اور کبھی یہ اس کے گھر مہمان رہتاتھا
    یہی کوچہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا

    ۵۔ سیّد محمد جعفری

    ان کا زمانہ سیاسی مدوجزر ،معاشی کساد بازاری اور امن وامان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ہندو مسلم فسادات کی اندوہ ناک داستانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھا۔لاالہ الااللہ،یو۔این۔او،کنونشن مسلم لیگ، الیکشن کا ساقی نامہ،وزیروں کی نماز،کلرک، پرانا کوٹ، ابلیس کی فریاد وغیرہ ان کی اہم نظمیں ہیں۔
    قیام پاکستان کے حصول کی سیاسی جدوجہد کے عہد میں سیّد محمد جعفری کی عمر ۴۲ سال تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والی تمنّائوں کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ،کیوں کہ یہی آرزوئیں ان کے سینے میں بھی بار آور تھیں۔ ان خوابوں کا خون ہوتے دیکھ کر سیّد محمد جعفری نے طنزومزاح کا رُخ کیا۔کئی دیگر موضوعات کے ساتھ وطن کی مٹی کی خوشبو ان کے کلام میں جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے۔مسلم لیگ جس کو سیاستدانوں اور فوجی آمروں نے ہمیشہ یرغمال بنائے رکھا، جب یرغمالی کا ایک نیا رُوپ اختیار کرتی ہے تو جعفری ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘کے عنوان سے پھٹ پڑتے ہیں:
    آج کل ہیں حضرتِ ابلیس مسلم لیگ میں
    دے رہے ہیں مشورے بے فیس مسلم لیگ میں
    ہے علی بابا ، الگ چالیس مسلم لیگ میں
    توسنِ چالاک کے سائیس مسلم لیگ میں
    لیگ کے گھوڑے کو پشتک اور دولتی سے ہے کام
    بعد مرگ قائد اعظمؒ ہوا ہے بد کلام

    اپنی اپنی ڈفلیاں ہیں اپنے اپنے راگ ہیں
    چند ان میں نیولے ہیں ، چند ان میں ناگ ہیں
    چند اک ایلسیشن ، چند اک بل ڈاگ ہیں
    جو مویشی لڑ رہے ہیں ان کے منہ میں جھاگ ہیں
    ایسٹ پاکستان ہے اور ویسٹ پاکستان ہے
    قوم زندہ ہے مگر اس کے لبوں پر جان ہے
    سیّد محمد جعفری نے طنزومزاح کو پھکڑ پن سے صاف کر کے ایک منفرد تخلیقی لہجہ عطا کیا اور جدید دور کی طنزیہ شاعری کے صفِ اوّل کے معماروں میں شمار ہوئے۔ ان کی طنزیہ شاعری کے نشتروں پر انور مسعود کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
    ’’۔۔۔سیّد محمد جعفری اپنے وطن کے سیاستدانوں کی نیتوں سے بخوبی واقف تھے، پاکستانی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہوس کیشی، چور بازاری، دفتری کار گزاری اور ریا کاری کو بھی وہ خوب جانتے تھے۔ الیکشن کے ڈراموں کے بھی بڑے باریک بیں ناظر تھے۔ عالمی سیاست کے افق پر مغربی ممالک کی فتنہ پردازیوں کا بھی بھرپور ادراک رکھتے تھے اور ایشیائی ممالک میں برطانیہ اور امریکہ کی شر انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس آزارِ آگہی کو انھوں نے طنزومزاح کا روپ دے کر اس طرح اپنا موضوع بنایا کہ ہمیں اپنے سامنے لا کھڑا کیا اور عالمی استعمار گروں کو بھی آئینہ دکھایا۔۔۔‘‘[۱۹]
    سیّد محمد جعفری تضمین کے ماہر تھے اس ضمن میں انھوں نے غالب واقبال سے بھرپور استفادہ کیا۔ جعفری بنیادی طور پر طناز تھے اس لیے ان کے کلام میں اکثر مقامات پرمزاح کے ساتھ طنز کی نشتریت نمایاں ہے۔ ذیل کی نظموں میں اس کے نمونے دیکھیے:
    لا الہ الا اللہ
    زباں سے کہتا ہوں ہاں لا ا لہ الا اللہ نہیں عمل سے عیاں لا الہ الا اللہ
    الاٹ منٹ ہیں یاروں کی آستینوں میں ’’نہ ہے زمیں نہ مکاں لا الہ الا اللہ‘‘
    مدیر و پیر و وزیر و سفیر و شیخ و کبیر ’’بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ‘‘
    نمازی آئیں نہ آئیں اذان تو دے دوں ’’مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ‘‘
    جو مولوی ہیں وہ کھاتے ہیں رات دن حلوے ’’بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ‘‘
    وزیروں کی نماز
    عیدالاضحی کی نماز اور وہ انبوہ کثیر جبکہ اللہ کے دربار میں تھے پاک وزیر
    وہ مصلوں پہ مسلط تھے بہ حسن تقدیر تھے ریزرو ان کے مصلّے، یہ مساوات کبیر
    آج کل یہ ہے نماز اور کبھی وہ تھی نماز
    ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز‘‘
    پہلی صف میں وہ کھڑے تھے کہ جو تھے بندہ نواز سلسلہ بھی تھا صفوں اور قطاروں کا دراز
    قربِ حکام کے جویا تھے بہم جنگ طراز آ گیا عین لڑائی میں مگر وقت نماز
    ایسی گڑ بڑ ہوئی برپاکہ سبھی ایک ہوئے
    ’’بندہ و صاحب و محتاج وغنی ایک ہوئے‘‘
    نیشنل گارڈز بڑھے معرکہ آرائوں میں جا کے نادانوں میں لڑ تے کبھی دانائوں میں
    ایک شاعر بھی چلے آئے تھے شیدائوں میں جیسے ایک رِند خرابات ہو ملّائوں میں
    آ کے بیٹھے بھی نہ تھے وہ کہ نکالے گئے
    جیب کتری گئی ان کی یہ صلہ لے بھی گئے

    ۶۔ ظریف جبل پوری

    ظریف جبل پوری کی طنزیہ و ظریفانہ شاعری واعظ ومحتسب،سیاست ،عشق ومحبت، صنفِ نازک اور اس کے متعلقات پر مبنی ہے۔’’بہار آئی، عشق کا پہلو،قیس کے انکل،عشق فرمائیے گا اور فلمی عشق‘‘ انھی پہلوئوں کے اظہار پر مشتمل ہیں۔ان کی شاعری میں طنز کے ساتھ مزاح کا تاثر زیادہ ہے جس سے زیرِ لب تبسم ،لب کُشا تبسم کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور طنز کی شدت مزاح کی پھوار سے کچھ کم پڑ جاتی ہے۔ مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
    بہار آئی
    یہ مانا آپ کے اور میرے گلشن میں بہار آئی
    مگر آتے ہوئے ظالم خزاں کو بھی پکار آئی
    بڑی مدت میں آئینِ چمن بندی بنایا ہے
    تمھیں اے باغبانو، اتنے برسوں میں ڈکار آئی
    اگر اٹھ جائے تقریروں سے ، تحریروں سے پابندی
    ظریف اس وقت سمجھو گلشن فن میں بہار آئی
    قیس کے انکل
    ہم حسن کے ہر گھات سے غافل تو نہیں تھے
    بی۔اے تھے، کوئی مولوی فاضل تو نہیں تھے
    میک اپ نے کیا حسن خداداد کا قائل
    ہم حسن خداداد کے قائل تو نہیں تھے
    مہنگائی میںکیوںپھاڑتے دامان و گریباں
    عاشق تھے مگر قیس کے انکل تو نہیں تھے
    عشق فرمائیے گا!
    کر سکے اعلان اُلفت ، اتنی ہمت کس میں ہے؟
    ڈالڈا کھا کھا کے، دل دینے کی طاقت کس میں ہے؟
    عشق صادق کے نشے میں جھوم سکتا ہے کوئی؟
    ان کے بدلے ، ان کا کتا چوم سکتا ہے کوئی؟
    حسن والوں کو غریبی کا تماشاچاہیے
    دل کی دولت کچھ نہیں، ان کو تو پیسہ چاہیے
    نظم’’فلمی عشق‘‘میں اپنے عہد کی فلموں میں ہیرو اور ہیروئین میں اچانک عشق ہونے کی متعدد صورتیں بڑی خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں جن سے پوری فلمی کہانی سامنے آ جاتی ہے۔ عہد حاضر میں بھی فلمی صنعت یہی پرانی کہانیاں دہرا رہی ہے جس کی وجہ سے فلمی میدان ، صحرامیں تبدیل ہو رہا ہے۔ ظریف جبل پوری کی نظم’’فلمی عشق‘‘کی کچھ جھلکیاںدرج ذیل ہیں:
    جہانِ فلم میں الفت کا ہر نخرا نرالا ہے یہ ایسی دال ہے جس دال میں کالا ہی کالا ہے
    اگر بازار میں لڑکی پھسل جائے، محبت ہے سہارا پا کے لڑکے کا سنبھل جائے ، محبت ہے
    کسی لڑکی کو ڈاکو سے چھڑا کر لائو ،محبت ہے کسی کی سائیکل کو سائیکل سے ٹکرائو، محبت ہے
    یہ فلمی عشق نے کیسا نیا پہلو نکالا ہے پولیس کپتان کی لڑکی کا عاشق رِکشے والا ہے
    یہ ظاہر دیکھنے میں صرف موٹر کی اک ٹکر ہے کسی دل پھینک سے لیکن کسی دلبر کی ٹکر ہے
    وہ ہیروئین کو موٹر میں شفا خانے بھی لائے گا اور اس کے دل کے بہلانے کو گانا بھی سنائے گا
    وہ گانا جس میں حال دل کی پوری ترجمانی ہو مگر یہ شرط ہے بھر پور دونوں کی جوانی ہو

    ۷۔ نذیر احمد شیخ

    نذیراحمد شیخ کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری میں طنز کم ہے اور ہر جانب مزاح کا پھیلائو ملتا ہے اس لیے ہم انھیں خالص مزاح گو شعرا کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں۔ انورمسعود،شیخ کی شاعری کے بارے میں اپنی رائے یوں دیتے ہیں:
    ’’نذیر احمد شیخ نے زندگی کی نا ہمواریوں کا بڑا دقیق مشاہدہ کیاہے ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ زندگی تماشائے لبِ بام ہے اور اسے Enjoyکرنا چاہیے۔ اپنی بد حواسیوں اور بوالعجمیوں کے اعتبار سے انسان بڑی خوش حرکات مخلوق ہے اس کی ان حرکات پر ثقہ حضرات کو بہت غصہ آتا ہے لیکن شیخ کو بہت پیار آتا ہے۔ ان کے ہاں تلخی نام کو بھی نہیں ۔ ماحول کی ناگواریوں کو انھوں نے جس طرح خوشگوار بنا کر پیش کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔۔۔‘‘[۲۰]
    سائنس دان ہونے کی وجہ سے ان کی مزاحیہ شاعری میں ’صنعتی شاعری‘کے عنوان سے ایک باب موجود ہے اور انھیں سے طنزیہ ومزاحیہ شاعری میں باقاعدہ طور پرسائنسی شاعری کا ظہور ہوتا ہے۔شیخ نے پیروڈی اورالفاظ کے ہیر پھیر سے بھی مزاح پیدا کیا ہے۔ ان کے ہاں شگفتہ قافیے ملول کر دینے والے مناظر سے بھی مزاح کشید کر لیتے ہیں۔واقعاتی مزاح ان کی مزاحیہ نظموں کو کاغذ پر بھی متحرک بنائے ہوئے ہے۔نذیراحمد شیخ کی سائنسی مزاحیہ شاعری سے ایک مثال ملاحظہ کریں:
    واٹر ہیٹر میوزک شاپ
    جس میں ڈھول بجائے بھاپ
    سن کر رنگا رنگ الاپ
    ڈنکی پمپ لگائیں تھاپ
    تک تک دھنا دھن دھی
    ٹھمکا ناچے پی او پی
    شیخ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اردو میں لمرک کی صنف کے مؤجد ہیں۔اسی لمرک کا ایک جاندارنمونہ’’ارتقائے زبان‘‘کے نام سے دیکھیے:
    بس گئے پنجاب میں روئی کو روں کہنے لگے
    دلبرانِ لکھنؤ اوئی کو اوں کہنے لگے
    آ ج کل رنگِ زباں کچھ اور ہے
    شوخی و حسن بیاں کچھ اور ہے
    آپ کو تم ، تم کو تو اور تو کو توں کہنے لگے
    شیخ نے غزل اور نظم کی اصناف میں مزاح کے جو پھول کھلائے ہیں وہ اپنی منفرد شان رکھتے ہیں۔ ہر وقت نئے نئے تجربات کا شغف رکھنے کی وجہ سے سائنس کے ساتھ مزاح کو بھی تختۂ مشق بناتے تھے ۔ان کے یہ تجربات الفاظ پرہوتے تھے اور ان کی موسیقیت پر بھی۔ نظم ’’آندھی‘‘سے ایسی ہی ایک جھلک دیکھیے جو اپنے ساتھ آنے والے مناظر کی تصویر کشی بھی کرتی ہے:
    کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان ناکہ بندی کرتے کرتے گھر سب ریگستان
    ٹوٹے پھوٹے چھپر آئیں گھٹتے گھٹے سانس پیروں سے چمگادڑ چمٹے سر پر کھڑکیں بانس
    جھاڑو جھاڑن موج منائیں ان کا اپنا راج پیپا بیٹھا ڈھول بجائے، کتھک ناچے چھاج
    درہم برہم سب تصویریں طرفہ تر احوال مرزا غالب الٹے لٹکیں، سجدے میں اقبال
    چھت پر ہم جو بستر ڈھونڈیں عقل ہماری دنگ کھاٹ بچاری اُڑن کھٹولا بستر دور پتنگ
    ایک بگولا سب سے اولیٰ بھوتوں کا سردار لوٹ پلٹ کر پڑھتا جائے دنیا کے اخبار
    سنتے سنتے شور شرابا کانوں کا یہ حال بیگم اپنی شال منگائے نوکر لائے دال
    سڑکوں پر حلوائی بیٹھے مفت لٹائیں تھال کبڑے کبڑے کنجڑے کھیلیں گوبھی سے فٹ بال
    بکھری بکھری داڑھی دیکھی اُڑتی اُڑتی مونچھ جتنا دابیں پنکھ پکھیرو، اتنی اچھلے مونچھ

    ۸۔ آزر عسکری

    آزر عسکری کی نظموں، غزلوں اور قطعات میں طنزومزاح کی مقدارکم زیادہ ہوتی رہتی تھی۔ ہندوستانی معاشرے پر رُخ بدل بدل کر وار کرتے ہیں لیکن ان میں طنز کی کاٹ زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کو خالص مزاح گو شاعر کہنا بے جا نہ ہو گا۔نظم ’’میں تیرا شہر چھوڑ جائوں گا‘‘ کے دو بند ملاحظہ ہوں جن میں طنز کا کوئی وجود نہیں ملتا :
    اس سے پہلے کہ وہ عدو کمبخت
    تیرے گھر جا کے چغلیاں کھائے
    اس سے پہلے کہ دیں رپٹ جا کر
    تیرے میرے شریف ہمسائے
    اس سے پہلے کہ تیری فرمائش
    مجھ سے چوری کا جرم کروائے
    اس سے پہلے کہ اپنا تھانیدار
    مرغ تھانے کا مجھ کو بنوائے
    میں ترا شہر چھوڑ جائوں گا

    تجھ کو آگاہ کیوں نہ کر دوں میں
    اپنے اس انتظام سے پہلے
    مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے
    اپنی مرگِ حرام سے پہلے
    کوئی ایسی ٹرین بتلا دے
    جائے جو ’’تیز گام ‘‘ سے پہلے
    آج کے اس ڈنر کو بھگتا کر
    کل کسی وقت شام سے پہلے
    میں ترا شہر چھوڑ جائوں گا
    دل کی گردن مروڑ جائوں گا
    ہم لوگ ہر اس کام کو جو صحیح طریقے پرانجام نہ پا سکے اسے’خدا کی مرضی‘ کہہ کر قبول کر لیتے ہیں اور اپنی غلطی کو درست کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتے۔ان کی ایک نظم’’خدا کی مرضی‘‘اس تناظر میں کہی گئی ۔اس میںمعاشرتی برائیوں کو بھی طشت از بام کرنے کی کوشش ملتی ہے:
    خدا کی مرضی
    کسی کا گردش میں آ گیا ہے اگر ستارا، خدا کی مرضی
    کسی نے غصے میں آ کے چاقو کسی کو مارا، خدا کی مرضی
    کسی نے چلتے میں جیب کاٹی تو دل پکارا، خدا کی مرضی
    بجائے پنڈی کے گولڑے بس نے جا اتارا، خدا کی مرضی

    کسی کے تلوئوں میں چبھ رہے ہیں نکیلے پتھر تو کیا کریں ہم
    کسی کو بخشی گئی ہے دس ہاتھ لمبی موٹر تو کیا کریں ہم
    کسی کی قسمت میں ٹھوکریں ہیں کوئی منسٹر، تو کیا کریں ہم
    اجارہ داری کسی کو حاصل کوئی بچارا، خدا کی مرضی
    طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا جدید عہد یہاں اختتام کو پہنچتا ہے۔ اس وقت تک ہندوستانی مسلمانوں پر کئی انعامات بھی ہوئے اور ان کی اپنی کج ادائیوں اور ناعاقبت اندیشیوں پر کئی سانحات بھی مقدر بنے۔ سب سے بڑا انعام پاکستان کا قیام تھا اور سب سے بڑا سانحہ اسی پاکستان کی تقسیم۔ اس عرصے میں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما لیااوربانیٔ پاکستان کی وفات بھی ایک عظیم سانحہ تھا۔ ۶۵ ء اور ۷۱ء کی پاک بھارت جنگوں کے بعد ۱۹۸۰ ء تک آتے آتے دونوں ممالک میں سردمہری کے باوجود سکوت کی حالت تھی۔ سانحات کے باوجود زندگی معمول پر آتی گئی اور الیکٹرانک میڈیا کی آمد نے حیاتِ انسانی کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔یہاں سے طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا جدید ترین دور شروع ہوتا ہے۔
     
  2. محمد فیصل
    آف لائن

    محمد فیصل ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مارچ 2012
    پیغامات:
    1,811
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُردوشاعری میں طنز ومزاح

    بہت ہی اچھی طرح سے دیکھ بھال کر مضون لکھا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں