اے روح محمد شيرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر اب تو ہي بتا، تيرا مسلمان کدھر جائے! وہ لذت آشوب نہيں بحر عرب ميں پوشيدہ جو ہے مجھ ميں، وہ طوفان کدھر جائے ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد اس کوہ و بياباں سے حدي خوان کدھر جائے اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد آيات الہي کا نگہبان کدھر جائے ڈاکڑ علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
بتاؤں تجھ کو مسلماں کي زندگي کيا ہے يہ ہے نہايت انديشہ و کمال جنوں طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب يگانہ اور مثال زمانہ گونا گوں! نہ اس ميں عصر رواں کي حيا سے بيزاري نہ اس ميں عہد کہن کے فسانہ و افسوں حقائق ابدي پر اساس ہے اس کي يہ زندگي ہے، نہيں ہے طلسم افلاطوں! عناصر اس کے ہيں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبيعت ، عرب کا سوز دروں ڈاکر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
کافر و مومن کل ساحل دريا پہ کہا مجھ سے خضر نے تو ڈھونڈ رہا ہے سم افرنگ کا ترياق؟ اک نکتہ مرے پاس ہے شمشير کي مانند برندہ و صيقل زدہ و روشن و براق کافر کي يہ پہچان کہ آفاق ميں گم ہے مومن کي يہ پہچان کہ گم اس ميں ہيں آفاق ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
مہدي برحق سب اپنے بنائے ہوئے زنداں ميں ہيں محبوس خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سيار پيران کليسا ہوں کہ شيخان حرم ہوں نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار ہيں اہل سياست کے وہي کہنہ خم و پيچ شاعر اسي افلاس تخيل ميں گرفتار دنيا کو ہے اس مہدي برحق کي ضرورت ہو جس کي نگہ زلزلہ عالم افکار علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
قلندر کی پہچان کہتا ہے زمانے سے يہ درويش جواں مرد جاتا ہے جدھر بندئہ حق، تو بھي ادھر جا! ہنگامے ہيں ميرے تري طاقت سے زيادہ بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا ميں کشتي و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا چڑھتا ہوا دريا ہے اگر تو تو اتر جا توڑا نہيں جادو مري تکبير نے تيرا؟ ہے تجھ ميں مکر جانے کي جرات تو مکر جا! مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ايام کا مرکب نہيں، راکب ہے قلندر
جہاد فتوي ہے شيخ کا يہ زمانہ قلم کا ہے دنيا ميں اب رہي نہيں تلوار کارگر ليکن جناب شيخ کو معلوم کيا نہيں؟ مسجد ميں اب يہ وعظ ہے بے سود و بے اثر تيغ و تفنگ دست مسلماں ميں ہے کہاں ہو بھي، تو دل ہيں موت کي لذت سے بے خبر کافر کي موت سے بھي لرزتا ہو جس کا دل کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کي موت مر تعليم اس کو چاہيے ترک جہاد کي دنيا کو جس کے پنجہ خونيں سے ہو خطر باطل کي فال و فر کي حفاظت کے واسطے يورپ زرہ ميں ڈوب گيا دوش تا کمر ہم پوچھتے ہيں شيخ کليسا نواز سے مشرق ميں جنگ شر ہے تو مغرب ميں بھي ہے شر حق سے اگر غرض ہے تو زيبا ہے کيا يہ بات اسلام کا محاسبہ، يورپ سے درگزر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
دل مردہ نہیں اسے زندگی کر دل مردہ دل نہيں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ کہ يہي ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ ترا بحر پر سکوں ہے، يہ سکوں ہے يا فسوں ہے؟ نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابي کنارہ! تو ضمير آسماں سے ابھي آشنا نہيں ہے نہيں بے قرار کرتا تجھے غمزہ ستارہ ترے نيستاں ميں ڈالا مرے نغمہ سحر نے مري خاک پے سپر ميں جو نہاں تھا اک شرارہ نظر آئے گا اسي کو يہ جہان دوش و فردا جسے آگئي ميسر مري شوخي نظارہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے جہاں ہے تيرے ليے ، تو نہيں جہاں کے ليے يہ عقل و دل ہيں شرر شعلہ محبت کے وہ خار و خس کے ليے ہے ، يہ نيستاں کے ليے مقام پرورش آہ و نالہ ہے يہ چمن نہ سير گل کے ليے ہے نہ آشياں کے ليے رہے گا راوي و نيل و فرات ميں کب تک ترا سفينہ کہ ہے بحر بے کراں کے ليے! نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہيں کسي مرد راہ داں کے ليے نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز يہي ہے رخت سفر مير کارواں کے ليے ذرا سي بات تھي ، انديشہ عجم نے اسے بڑھا ديا ہے فقط زيب داستاں کے ليے مرے گلو ميں ہے اک نغمہ جبرئيل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے ليے
زمرد بھائی جزاک اللہ۔بھت خوب اللہ تعالی سے دعاکہ کہ ہم سب کو اس مظلوم فریضہ جھا کے زندہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے
آزادي افکار جو دوني فطرت سے نہيں لائق پرواز اس مرغک بيچارہ کا انجام ہے افتاد ہر سينہ نشيمن نہيں جبريل اميں کا ہر فکر نہيں طائر فردوس کا صےاد اس قوم ميں ہے شوخي انديشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ آزادي افکار ہے ابليس کي ايجاد
جبريل ہمدم ديرينہ! کيسا ہے جہان رنگ و بو؟ ابليس سوز و ساز و درد و داغ و جستجوے و آرزو جبريل ہر گھڑي افلاک پر رہتي ہے تيري گفتگو کيا نہيں ممکن کہ تيرا چاک دامن ہو رفو؟ ابليس آہ اے جبريل! تو واقف نہيں اس راز سے کر گيا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر ميرا سبو اب يہاں ميري گزر ممکن نہيں ، ممکن نہيں کس قدر خاموش ہے يہ عالم بے کاخ و کو! جس کي نوميدي سے ہو سوز درون کائنات اس کے حق ميں 'تقنطوا' اچھا ہے يا 'لاتقظوا'؟ جبريل کھو ديے انکار سے تو نے مقامات بلند چشم يزداں ميں فرشتوں کي رہي کيا آبرو! ابليس ہے مري جرأت سے مشت خاک ميں ذوق نمو ميرے فتنے جامہء عقل و خرد کا تاروپو ديکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خير و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے ، ميں کہ تو؟ خضر بھي بے دست و پا ، الياس بھي بے دست و پا ميرے طوفاں يم بہ يم ، دريا بہ دريا ، جو بہ جو گر کبھي خلوت ميسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہء آدم کو رنگيں کر گيا کس کا لہو! ميں کھٹکتا ہوں دل يزداں ميں کانٹے کي طرح تو فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو
اذان اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے آدم کو بھي ديکھا ہے کسي نے کبھي بيدار؟ کہنے لگا مريخ ، ادا فہم ہے تقدير ہے نيند ہي اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار زہرہ نے کہا ، اور کوئي بات نہيں کيا؟ اس کرمک شب کور سے کيا ہم کو سروکار! بولا مہ کامل کہ وہ کوکب ہے زميني تم شب کو نمودار ہو ، وہ دن کو نمودار واقف ہو اگر لذت بيداري شب سے اونچي ہے ثريا سے بھي يہ خاک پر اسرار آغوش ميں اس کي وہ تجلي ہے کہ جس ميں کھو جائيں گے افلاک کے سب ثابت و سيار ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئي لبريز وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دل کہسار
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ہم دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے ہم محکوموں کے پاؤں تلے جب دھرتی دھڑ دھڑ ڈھڑکے گی اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی ہم دیکھیں گے جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے ہم دیکھیں گے بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی جو منظر بھی ہے ناطر بھی جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ہم دیکھیں گے فیض