انسان سلمان غازی کو ئی د انا یہ پوچھتا تھا سو ا ل خاکی انساں میں ایسا کیا ہے کما ل نا ئب ا ﷲ کا یہ بن بیٹھا نہیں ملتی کہیں بھی اس کی مثال اس کا عُقدہ نہیں کھلا ا ب تک کیوں کِیا اس کو یوں بُلند اقبال یہ تو مجبور اپنی ذات میں ہے وہ اَحَد و ہ صَمَد وہ عِزّ و جَلال اِس کی تعریف کیا کرے کوئی جب مجازی صِفات ِ حسن و جما ل اُس کی تعریف کیا بیان کروں چا ہئے ایک خزینتہ ُ ا لا ِ مثا ل جمع اضدا د ا ِس کے وصف میں ہیں اور وہ اوصاف میں کمال ِ کمال یوں تو مخلوق ہے مگر پھر بھی کبھی اوصاف میں کہیں ہو و ِصال؟ یہ تغیّر کے ساتھ جیتا ہے شا ن اُس کی کمال ِ استقلال اِس کے دل کو ٹٹولئے تو کبھی نُور ہے ، نُور کا کبھی ابطا ل ا ِک طرف انتہا پہ ہیں حَسَنات اک طرف مُنتہا ئے شرّ و ضلال کبھی ا فلاک تک رسائی ہے کبھی تحتُ ا لثّریٰ میں رو بہ زوال کوئی الﷲکا پیمبر ہے کوئی فرعون سا شنیع خِصال کبھی قا ر و ن کی شہنشا ہی کبھی فا قوں کے ساتھ اکل ِ حلال کبھی انکار میں : اَنَا رَبّیِ اور : اَنَا الحَق کبھی بہ پیش ِ جمال کبھی محنت کشی میں لا ثا نی اور کبھی غرق ِ بحر ِ خواب و خیا ل کبھی عز لت نشیں پہا ڑ و ں میں کبھی مصروفیت میں جنگ و جدال کبھی دانش میں یہ ہے افلاطون ا ور کبھی عقل سے تہی اعمال کبھی نا قوس و د یر کا ہے اسیر کبھی صحراوٴں میں صدائے بلال کبھی ا جر ا م پر کمند ر سا اور کبھی زاویوں میں مست بحال عرض سا ئل سے کی بہ عجزِ کمال کس طرح لا ئیں کو ئی پیما نہ تو لے جائیں تو کس طرح اعمال کیا ہے ا نسا ن کی ہنر مند ی کو ن سا کا م با عث ِ ا فضال جب ز ما نے کو ر و کنا مشکل طبع ِ ا نسا ں کو ر و کنا ہے محا ل جب یہ عا لم نہیں ہے لا فا نی کیو ں تغیر بنے نہ ا س کا کمال یہ ہے خلّا ق کی ہنر مند ی نقص آ جا ئے یہ کہا ں ہے مجا ل ا نتہا وٴ ں کے د ر میا ں انساں دیکھ کر ر ا ہ میں نشیب و طلا ل جب میا نہ ر و ی کو پا ئے گا تب و لی ہے و ہی ، و ہی ا بد ا ل تب و ہی آ د می پیمبر ہے نا ئب اﷲ کا ، جمیع خِصا ل و ر نہ ا س بے ثبا ت د نیا میں مشت ِ خا کی کی ا و ر کیا ہے مثا ل عالم ِ اعتبا ر کا ا ِ نسا ں کس قدرخوارکس قدربدحال جس کا آغاز ایک قطرہٴ ِ آب ایک مشت ِ غبا ر جس کا مأل