1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

انسان کے بھید صرف رب جانے !

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    انسان کے بھید صرف رب جانے !

    کسی ملک پر بادشاہ مراد کی حکومت تھی، اس نے ایک رات بڑی تکلیف میں گزاری۔ حیران تھا کہ بادشاہ ہونے کے باوجود اتنی تکلیف کیوں؟۔حفاظتی دستہ کے سالار کو بلایا اور اپنی بے چینی کی خبر دی۔ سپہ سالار نے عوام کی خبر گیری کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ دونوں بھیس بدل کر محل سے نکل پڑے۔ ایک شخص کو سڑک پر پڑا پایا۔ ہلا کر دیکھا تو جسم میں کوئی جنبش نہ تھی، شاید مر چکا تھا۔ بادشاہ نے ارد گرد سے گزرنے والوں کو آوازیں دیں انہیں بلایا آئو دیکھو اسے کیا ہوا ہے۔ لوگوں نے رک کر پوچھا،’’ اے انجان آدمی کیا معاملہ ہے‘‘۔ بادشاہ نے کہا ،’’یہ آدمی مر چکا ہے۔ آپ اسے اٹھاتے کیوں نہیں، اس کے گھر والے کہاں ہیں اور یہ شخص کون ہے؟‘‘ ۔
    لوگوں نے کہا کہ اے انجان آدمی یہ کوئی مردہ نہیں ہے۔ یہ تو گندا شخص ہے مدہوش پڑا ہے۔ تب بادشا ہ نے پوچھا کہ ’’کیا یہ مسلمان نہیں ؟اسے ہر صورت میں گھر پہنچایا جائے ‘‘۔پھر بادشاہ نے اسے گھر پہنچا دیا۔ تب پتہ چلا کہ وہ شخص واقعی مر چکا ہے ۔ تب عورت نے چیخ چیخ کر کہا ’’میں گواہی دیتی ہوں کہ میرا مرنے و الا شوہر نیک آدمی تھا‘‘۔اس کی بیوہ خاوند کی لاش کو دیکھ کر رونے لگی ۔ عورت کی آہ و بکا سن کربادشاہ بڑا متعجب ہوا اور پوچھے بغیر رہ نہ سکا کہ لوگ تو اس کی میت کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھے اور تو کہہ رہی ہے کہ یہ بہت نیک آدمی تھا۔ تب اس کی بیوہ نے کہا ، ’’مجھے لوگوں سے یہی توقع تھی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند روز شراب خانے جاتا ۔ جتنی ہو سکے شراب خرید کر لاتا اور گھر کے صحن کے گھڑے میں بہا دیتا ۔ اور کہتا کہ چلو کچھ تو وسروں کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔اکثر غریبوں کو پیسے دے آتا اور کہتا کہ گھر کے دروازے بند رکھنا اور پھر کہتا آج میں نے گناہ سے کسی کو بچا لیا۔ اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید برا آدمی ہے۔ تب میں اسے کہتی تھی ،یاد رکھ جس دن تو مر گیا لوگوں نے نہ تجھے غسل دینا ہے اور نہ تیری نماز جنازہ پڑھنی ہے اور نہ ہی تجھے دفنانا ہے‘‘۔
    تب وہ خوب مسکراتا اور مجھے کہتا :’’ اے میری بیوی! گھبرا مت، تو دیکھنا کہ میرے جنازے میں بادشاہ اور علماء بھی شریک ہوں گے‘‘۔
    یہ سن کر بادشاہ رو پڑا ، اور کہنے لگا :’’میں ہی سلطان مراد ہوں۔ کل ہم اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے ،چنانچہ اس کا جنازہ بادشاہ وقت، علماء کرام، اولیاء اللہ اور رعایا کی کثیر تعداد نے پڑھا۔ ہم آج بظاہر کچھ دیکھ کر یا محض سن کر فیصلے کر بیٹھتے ہیں لیکن ہم دوسروں کا بھید نہیں جانتے کہ وہ ہم سے کتنے بہتر انسان ہیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں