1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

انسان اور بندہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏9 دسمبر 2014۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    بابے نے لمبا سانس لیا اور بولا "کاکا تم چاہتے کیا ہو؟" میں نے عرض کیا "کیا آپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے؟"

    بابے نے خالی خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر بولا "ہاں میں نے جوانی میں سیکھا تھا" میں نے عرض کیا "کیا آپ مجھے یہ نسخہ سکھا سکتے ہیں"

    بابے نے غور سے میری طرف دیکھا اور پوچھا " تم سیکھ کر کیا کرو گے" میں نے عرض کیا " میں دولت مند ہو جاؤں گا"۔

    بابے نے قہقہہ لگایا، وہ ہنستا رہا، دیر تک ہنستا رہا یہاں تک کہ اس کا دم ٹوٹ گیا اور اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا۔ وہ کھانستے کھانستے دہرا ہوا اور تقریباً بے حالی کے عالم میں دیر تک اپنے ہی پاؤں پر گرا رہا، وہ پھر کھانستے کھانستے سیدھا ہوا اور پوچھا "تم دولت مند ہو کر کیا کرو گے"-

    میں نے جواب دیا "میں دنیا بھر کی نعمتیں خریدوں گا"

    اس نے پوچھا "نعمتیں خرید کر کیا کرو گے"۔

    میں نے جواب دیا "میں خوش ہوں گا، مجھے سکون ملے گا"

    اس نے تڑپ کر میری طرف دیکھا اور کہا " گویا تمہیں سونا اور دولت نہیں بلکہ سکون اور خوشی چاہیے"۔ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔

    اس نے مجھے جھنجوڑا اور پوچھا " کیا تم دراصل سکون اور خوشی کی تلاش میں ہو؟"

    میں اس وقت نوجوان تھا اور میں دنیا کے ہر نوجوان کی طرح دولت کو خوشی اور سکون سے زیادہ اہمیت دیتا تھا مگر بابے نے مجھے کنفیوز کر دیا تھا اور میں نے اسی کنفیوژن میں ہاں میں سر ہلا دیا۔

    بابے نے ایک اور لمبا قہقہہ لگایا اور اس قہقہے کا اختتام بھی کھانسی پر ہوا۔ وہ دم سنبھالتے ہوئے بولا "کاکا میں تمہیں سونے کی بجائے انسان کو بندہ بنانے کا طریقہ کیوں نہ سکھا دوں، میں تمہیں دولت مند کی بجائے پرسکون اور خوش رہنے کا گر کیوں نہ سکھا دوں"۔

    میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بولا "انسان کی خواہشیں جب تک اس کے وجود اور اس کی عمر سے لمبی رہتی ہیں، یہ اس وقت تک انسان رہتا ہے۔'تم اپنی خواہشوں کو اپنی عمر اور وجود سے چھوٹا کر لو' تم خوشی بھی پا جاؤ گے اور سکون بھی اورجب خوشی اور سکون پا جاؤ گے تو تم انسان سے بندے بن جاؤ گے"۔

    مجھے بابے کی بات سمجھ نہ آئی۔ بابے نے میرے چہرے پر لکھی تشکیک پڑھ لی۔وہ بولا "تم قرآن مجید میں پڑھو، اللہ تعالیٰ خواہشوں میں لتھڑے لوگوں کو انسان کہتا ہے اور اپنی محبت میں رنگے خواہشوں سے آزاد لوگوں کو بندہ"۔

    بابے نے اس کے بعد کامران کی بارہ دری کی طرف اشارہ کیا اور بولا "اس کو بنانے والا بھی انسان تھا۔ وہ اپنی عمر سے لمبی اور مضبوط عمارت بنانے کے خبط میں مبتلا تھا۔وہ پوری زندگی دولت بھی جمع کرتا رہا مگر اس دولت اور عمارت نے اسے سکون اور خوشی نہ دی"۔

    خوش میں ہوں،'اس دولت مند کی گری پڑی بارہ دری میں برستی بارش میں بے امان بیٹھ کر'۔ میں نے بے صبری سے کہا "اور میں بھی"۔اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا،"نہیں تم نہیں۔ تم جب تک تانبے کو سونا بنانے کا خبط پالتے رہو گے تم اس وقت تک خوشی سے دور بھٹکتے رہو گے۔ تم اس وقت تک سکون سے دور رہو گے"۔

    بابے نے اس کے بعد زمین سے چھوٹی سی ٹہنی توڑی اور فرش پر رگڑ کر بولا،"لو میں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں۔ اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو۔جو مل گیا اس پر شکر کرو، جو چھن گیا اس پر افسوس نہ کرو،جو مانگ لے اس کو دے دو، جو بھول جائے اسے بھول جاؤ، دنیا میں بے سامان آئے تھے، بے سامان واپس جاؤ گے،سامان جمع نہ کرو۔ ہجوم سے پرہیز کرو،تنہائی کو ساتھی بناؤ، مفتی ہو تب بھی فتویٰ جاری نہ کرو، جسے خدا ڈھیل دے رہا ہو اس کا کبھی احتساب نہ کرو۔ بلاضرورت سچ فساد ہوتا ہے، کوئی پوچھے تو سچ بولو، نہ پوچھے تو چپ رہو۔ لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے۔زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر پر نکل جاؤ، تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی۔ دینے میں خوشی ہے، وصول کرنے میں غم۔ دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جاؤگے۔چوروں میں رہو گے تو چور ہو جاؤ گے۔سادھوں میں بیٹھو گے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا۔اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا، وہ ناراض ہو گا تو نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی۔تم جب عزیزوں ، رشتہ داروں ، اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگو تو جان لو کہ اللہ تم سے ناراض ہے اور جب تم اپنے دل میں دشمنوں کے لیے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے اور ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا"۔

    بابے نے ایک لمبی سانس لی۔اس نے میری چھتری کھولی، میرے سر پر رکھی اور فرمایا،"جاؤ تم پر رحمتوں کی یہ چھتری آخری سانس تک رہے گی، بس ایک چیز کا دھیان رکھنا،' کسی کو خود نہ چھوڑنا، دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا، یہ اللہ کی سنت ہے'۔اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا، مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا جو جا رہا ہو اسے جانے دینا مگر جو واپس آ رہا ہو اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا، یہ بھی اللہ کی عادت ہے۔اللہ واپس آنے والوں کے لیے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ تم یہ کرتے رہنا، تمہارے دروازے پر میلا لگا رہے گا"۔

    میں واپس آ گیا اور پھر کبھی کامران کی بارہ دری نہ گیا کیونکہ مجھے انسان سے بندہ بننے کا نسخہ مل چکا تھا۔


    نوٹ:فیس بک سے یہ اقتباس ملا ہے معلوم نہیں کس کتاب سےہے۔
     
    Last edited: ‏9 دسمبر 2014
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ایک ایک بات حق ہے۔
    آج کے دور کا انسان جو ہر طرف سے پریشانیوں اور بے سکونی میں گھرا ہوا ہے۔ اگر ان باتوں پر عمل شروع کر دے تو یہ دنیا واقعی اللہ کے بندوں کی دنیا بن جائے۔
    جہاں تک میں اس خوبصورت مضمون کا لب لباب سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ "دوسروں کے لیے جیو تمہارا جیون بھی خوبصورت ہو جائے گا۔"
    بہت پیارا مضمون واصف حسین بھائی
    بہت دعائیں
     
  3. عطاءالرحمن منگلوری
    آف لائن

    عطاءالرحمن منگلوری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2012
    پیغامات:
    243
    موصول پسندیدگیاں:
    293
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ خیرا
    بہت عمدہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں