امیر مینائی امیر مینائی اردو ادب کے نامور استاد شاعر اور نعت گو تھے ۔ امیر احمد المعروف امیر مینائی لکھنو میں 21 فروری 1828ء کو مولوی کرم محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے ۔ امیر مینائی اپنی متنوع حیثیت کے سبب اپنا ایک ہمہ جہت مقام علم و ادب کی تاریخ میں رکھتے ہیں۔وہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی شاعر بھی ہیں، لغت نویس اور زبان داں بھی ہیں، عالم بھی ہیں، موسیقی کے ماہر بھی ہیں،اور دیگر کئی علوم کے شناور بھی ہیں۔ فہرست 1 غزل سے نعت کا سفر 2 تصانیف 3 نعت گوئی 3.1 چند مشہور کلام 3.2 عربی کلام 4 وفات 5 شراکتیں 6 مزید دیکھیے 7 حواشی و حوالہ جات غزل سے نعت کا سفر امیر مینائی اپنے استاد اسیر کی طرح شاعری میں عامیانہ جذبات تک اتر آئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ محسن کاکوروی نے جب اپنا مشہور قصیدہ سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل امیر مینائی کو دکھایا تو انہیں خود پر بہت افسوس ہوا کہ وہ کیا لکھتے آرہے ہیں ۔ اس کے بعد نعت کی طرف توجہ کی اور ایک نعتیہ دیوان ترتیب دیا ۔ تصانیف متعدد کتابوں کے مصنف تھے ۔ایک نعتیہ دیوان محمد خاتم النبین ہے۔ دو مثنویاں نور تجلی اور ابرکرم ہیں۔ ذکرشاہ انبیا بصورت مسدس مولود شریف ہے۔ صبح ازل آنحضرت کی ولادت اور شام ابد وفات کے بیان میں ہے۔ بہار ہند ایک مختصر نعت ہے۔ سب سے بڑا کارنامہ امیر اللغات ہے اس کی دو جلدیں الف ممدودہ و الف مقصورہ تک تیار ہو کر طبع ہوئی تھیں کہ انتقال ہوگیا۔ تاجِ سخن دبدبہ امیری ، ذکرِ شاہِ انبیا محامد خاتم النبین مزید کتابیں یہ ہیں بہار ہند | گوہر انتخاب | سرمۂ بصیرت | صنم خانہ عشق لاھور،مطبع کریمی، 1353 ھ ،358 ص | جوہر انتخاب | مرأۃ الغیب | مجموعۂ واسوخت | نور تجلی | ابر کرم | مثنوی | لیلتہ القدر | غیرت بہارستان | ہدایت السلطان | ارشاد السلطان نعت گوئی چند مشہور کلام حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے دل میں ہے خیال رخ نیکوئے محمد خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ و سلم آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں اس آفتاب رخ سے اگر ہوں دو چار پھول بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی بازو در عرفاں کا ہے بازوئے محمدﷺ تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسولﷺ جکمراں وہ ہے جو ہے بندہ انﷺ کا دل آپ پر تصدق جاں آپ پر سے صدقے عربی کلام حصل الشفا بخیالہ وفات آپ کی وفات 13 اکتوبر 1900ء کو ہوئی ۔
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے آ گیا اس کا تصور تو پکارا یہ شوق دل میں جم جائے الٰہی یہ خیال اچھا ہے آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے برق اگر گرمئ رفتار میں اچھی ہے امیرؔ گرمی حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے