1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امریکہ کا نیا ’’سپر مین‘‘؟ ۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:


    امریکہ کا نیا ’’سپر مین‘‘؟ ۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

    پوسٹل بیلٹ کی گنتی الاسکا میں10نومبر کو شروع اور واشنگٹن میں 23نومبر کو مکمل ہو گی

    امریکہ میں صدارتی انتخابات کی پولنگ مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔تا دم تحریر اس تاریخی مقابلے میں صدر ٹرمپ حتمی کامیابی حاصل کر سکے ہیں اور نہ ہی جو بائیڈن کی جیت کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن تمام جائزوں کے عین اندازوں کے مطابق ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوارجو بائیڈن کا پلڑا بھاری ہے
    اسی حوالے سے تبصرے شرو ع ہوچکے ہیں کہ ’’مستقبل میں وائٹ ہائوس نیم بلیک ہو گا، نائب صدر سیاہ فام ہوں گی،صدر وائٹ ہوں گئے۔ جبکہ ایوان زیریں ،سینٹ اور انتظامیہ ، سب گوری چٹی ہو گی‘‘ ۔کچھ مبصرین نے تبدیلی کو ڈیمو کریٹک پارٹی کے رنگ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ٹرمپ دور میں وائٹ ہائوس سرخ ہو گیا تھا لیکن مستقبل میں یہ نیلا ہونے والا ہے‘‘۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا رنگ نیلا ہے اسی نسبت سے وائٹ ہائوس کو بھی نیلا قرار دیا جا رہا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ 213اور جو بائیڈن 238 الیکٹورل ووٹ حاصل کرسکے ہیں، تاہم دونوں امیدواروں نے اپنی اپنی جیت کا اعلان کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کی۔امریکی صدر ٹرمپ فلوریڈا، اوہائیو اور ٹیکساس میں میدان مارنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔لیکن جوبا ئیڈ ن بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے بھی وسکانسن، مشی گن اور پنسلوینیا میں جیت کا اعلان کر دیا ہے۔تا دم تحریران تینوں ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوئی۔ان ریاستوں میں جیت کے بعد جو بائیڈن امریکہ میں اقتدار کے قریب تر ہو گئے ہیں۔2016ء میں ایری زونا میں ٹرمپ جیت گئے تھے لیکن اس مرتبہ شاید وہ اس ریاست میں ہار جائیں ۔ نیبراسکا میں بھی مقابلہ سخت ہے،جارجیا میں بڑا کانٹے دار مقابلہ ہوا دونوں فریقین بار بار اپنی اپنی جیت کا اعلان کرتے رہے۔

    کون کہاں جیت رہا ہے؟

    ٹرمپ: مونٹانا، اڈاہو، نارتھ ڈکوٹا،ساوئتھ ڈکوٹا، وائومنگ،یوٹاہ،آئیوا،نیبراسکا، اوکلاہاما ، ٹیکساس، کنساس،انڈیانا، اوہائیو،کینٹکی،سائوتھ کیرولائنا،فلوریڈا،الباما،لوئی زیانا،ارکنساس، مسسپی اور ٹیننسی میں انہیں برتری حاصل ہے۔

    جو بائیڈن:واشنگٹن، اورگن، کیلی فورنیا ، ایری زونا،نیو میکسیکو، کالریڈو، نیو یارک ، منی سوٹا،ورجینیا، ایلی نائی،ورمنٹ،نیو ہمپشائر، میسا چوسسٹس، روڈز آئی لینڈز، نیو جرسی ، کونیکٹیکٹ،وسکانسن ، مشی گن، ڈیلاویئر ، میری لینڈ اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں برتری حاصل ہے ۔

    پنسلوینیا میں پوسٹل بیلٹس کی تعداد 24لاکھ ہے، جن میں سے 16لاکھ ووٹ ڈیمو کریٹس کو ڈالے گئے ہیں اور ری پبلیکن پارٹی کے حصے میں 55.5 لاکھ ووٹ آئے ہیں۔۔ دوپہر تک امریکہ بھر میں ٹرمپ کو 52 فیصد اور بائیڈن کو 48فیصد ووٹ ملے تھے،کئی لاکھ ووٹوں کی گنتی جاری تھی۔

    جوبائیڈن:6.9 کروڑ، 55 لاکھ (50.1فیصد)

    ٹرمپ:67کروڑ (48.3فیصد)

    یہ تعدادبھی اس لئے حتمی نہیں ہے کہ چند گھنٹے پہلے ووٹوں کا فرق محض چند لاکھ تھاجو اب قدرے بڑھ گیا ہے۔

    کانگریس میں ڈیمو کریٹس 181اور سینٹ میں 46 نشستیں حاصل کر چکے ہیں، جبکہ ری پبلیکنز کو کانگریس میں 171اور سینٹ میں 47 نشستیں حاصل ہو چکی ہیں ،حتمی نتائج آنا باقی ہیں۔ امیدوار وں کی اکثریت اپنی اپنی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ کانگریس اور سینٹ کے انتخابات کے پیش نظر کسی کی جیت کا امکان ظاہر کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے کیونکہ دونوں جماعتوں نے اپنی پوزیشن معمولی تبدیلی کے ساتھ برقرار رکھی ہے۔ جبکہ پاپولر ووٹس میں بھی مسلسل تبدیلی ہو رہی ہے ۔

    صدارتی انتخابات پر مزید کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں امریکی جریدے ’’ دی نیو یارکر‘‘ کی ایک رپورٹ بعنوان’’جمہوریت کے خلاف مقدمہ‘‘ کا حوالہ دوں گا،مضمون نگار ہیں کیلب کرین (Caleb Crain)۔ جریدہ لکھتا ہے کہ

    ’’ امریکی انتخابات پرہو نے والی ایک تحقیق سے مجھے افلاطون کی تین ہزار برس قبل کی کہی گئی بات کی صداقت پر یقین آ گیاہے، افلاطون نے موجودہ طرز جمہوریت کو مستردکرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قسم کی جمہوریت سے ملک اور قوم کا مستقبل لاکھوں کروڑوں کم تعلیم یافتہ یا کم سمجھدار افراد کے ہاتھوں میں چلاجاتاہے، ان کے غلط فیصلے ملک میں تباہی لاسکتے ہیں۔ امریکہ کے انتخابات اور یورپی یونین کے ریفرنڈم میں بھی یہی تماشا ہواہے۔ ایک اور مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ آمریت جمہوریت کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہے‘‘۔

    جریدہ ’’دی نیو یارکر‘‘ نے ایک ملک گیر سروے کا حوالہ دیا۔ حیرت انگیز طور پر 33فیصد امریکی تین ریاستی ستونوں سے ناواقف تھے۔ کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ عدالتی نظام بھی ایک ستون ہوتا ہے، تو کوئی ا نتظامیہ کو ریاستی ستون نہیں سمجھتا تھا۔ کوئی مقننہ سے ناواقف تھا۔ اپنی کتاب ’دی ری پبلک ‘میں افلاطون اسی قسم کی جمہوریت کی نفی کرتا ہے جس میں امیر امیر تر ہونے کے راستے تلاش کرتا ہے اور غریب غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ اس قسم کے جمہوری معاشروں میں لوگ جمہوریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر مان کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں، اپنی ساکھ بحال رکھنے کی خاطر یہ نیا لیڈر دوسروں پر الزامات لگا کر اپنی حکومت بچانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ نظام کو بدلنے کی طاقت یا خواہش تو اس میں بھی نہیں ہوتی‘‘۔مصنف کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت امریکہ میں اصل جمہوریت قائم نہیں ہے۔ اب ہم انتخابات کی جانب آتے ہیں۔

     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    پوسٹل بیلٹس

    اس مرتبہ 10کروڑ دس لاکھ پوسٹل بیلٹ ڈالے گئے ہیں ۔ اخبار ’’دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق ’’ریاست واشنگٹن ڈی سی میں پوسٹل بیلٹس کی گنتی 23نومبر تک کی جائے گی جبکہ الاسکا میں پوسٹل بیلٹ کی گنتی پولنگ والے دن شروع ہی نہیں کی گئی، ریاستی قوانین کے مطابق الاسکا میں پوسٹل بیلٹس کی گنتی 10نومبر تک شروع کی جائے گی ۔یعنی ان دو ریاستوں میں اگر ووٹوں کی گتنی ہی نامکمل ہے تو پھر کسی کی جیت کا امکان ظاہر کرنا ناممکن ہے ۔ بعض ریاستوں میں اب تک 94 فیصد ووٹوں کی بنیاد پر کسی کی ہار یا جیت کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

    پنسلوینیا:اس ریاست میں حتمی اعلان ہونا باقی ہے کیونکہ یہاں سپریم کورٹ کے حکم پر پوسٹل بیلٹ کی گنتی پولنگ ختم ہونے کے بعد تین دن تک کی جا سکے گی۔

    مشی گن:مشی گن میں انتخابی کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن اس ریاست کے کئی علاقوں میں پوسٹل بیلٹس کی گنتی پولنگ کے دن شروع ہی نہیں کی گئی تھی۔نتائج کے حتمی اعلان میں یہ ریاست بھی تاخیر کا سبب بن سکتی ہے۔

    دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق ’’تاخیر سے متعلق صدر ٹرمپ کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ’’سنٹر فار الیکشن انوویشن اینڈ ریسرچ‘‘ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیکر کا کہنا ہے کہ ’’نتائج میں تاخیر کو کسی قسم کی دھاندلی کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ حتمی نتائج کے اعلان کے بارے میں اگر ہم پرائمری کے نتائج کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ 17مارچ تک 24 ریاستوں میں پرائمریز کاانعقاد ہو چکا تھا، ان میں سے پانچ ریاستوں میں بھاری تعداد میں پوسٹل بیلٹس بھی ڈالے گئے تھے لیکن وہاں بھی نتائج آنے میں مجموعی طور پر 6.4دن لگ گئے تھے۔یعنی جن راستوں میں بہت زیادہ پوسٹل بیلٹس ڈالے گئے تھے وہاں بھی گنتی ساڑھے چھ دنوں میں مکمل کر لی گئی تھی۔اب بھی کم سے کم اتنا ہی ٹائم لگ سکتا ہے۔کم پوسٹل بیلٹس والی 23 ریا ستو ں میں گنتی مکمل ہونے میں مجموعی طور پر چار دن لگ گئے تھے۔ریاست نیو یارک نے گنتی مکمل ہونے کے چند ہی گھنٹوں میں 94 فیصدووٹوں کی گنتی مکمل کرنے کے بعد نتائج کا اعلان کر دیالیکن باقی ماندہ 6فیصد ووٹوں کی گنتی آج یا کل نہیں بلکہ 10دنوں میں مکمل ہو سکتی ہے۔

    ووٹ بینک کیسے متاثر ہوا؟

    انتخابات میں پہلی مرتبہ ایک دوسرے پر ذاتی تنقید کی گئی، جس سے ووٹ بینک متاثر ہوا۔ ایک وڈیو میں ایک امیدوار کو ’’ایٹمی جانور ‘‘ کے روپ میں پیش کیا گیا جو کوئی لمحہ بھی ضائع کئے بغیر دنیا کو تقسیم کر رہا ہے۔

    شکست کے اسباب

    کیا ہو سکتے ہیں؟

    امریکی کرسی صدارت پر فائز مسٹر ٹرمپ کی چند ریاستوں میں شکست کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلے تو ’’بلیک لائف میٹرز‘‘ نے اپنا رنگ جمایا ۔وہ وسکانسن میں ہار گئے حالانکہ گزشتہ انتخابات میں انہوں نے یہ ریاست ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں آسانی سے جیت لی تھی۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے سیاہ فام ووٹرز کورونا وائرس کاوسکانسن سمیت کچھ ریاستوں میں پانچ گنا زیادہ شکار ہوئے۔مرنے والوں میں بھی سیاہ فام زیادہ ہیں ۔ کچھ شہروں میں سیاہ فام باشندے گوروں کی بہ نسبت دگنی تعداد میں ہلاک ہوئے ۔پولیس مقابلوں میں مرنے والے سیاہ فاموں کی تعداد گوروں کی بہ نسبت 2.5گنا زیادہ ہے۔ایک جیسا جرم کرنے والے گورے کے مقابلے میں سیاہ فام باشند ے کو 20فیصد زیادہ سزا ملتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ منشیات کے سمگلروں ، غیر قانونی امیگرنٹس اور مظاہرین کو گولی تک مارنے کے حق میں ہیں۔ اگرچہ ان سنگین جرائم کی روک تھام لازمی تقاضا ہے لیکن کسی کو بھی اس طرح بغیر مقدمہ چلائے ہلاک کرنے کاسوچنا امریکی معاشرے کے لئے ٹھیک نہیں۔ انسانی حقوق کے علم برداروں نے اس کا اچھا تاثر نہیں لیا تھا۔

    وسائل سے محرومی اور ناکام ریاست

    صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کو ناکام ریاست کی جانب بڑھتا ہوا ملک کہا جانے لگا تھا۔ 23جون 2020ء کو ’’یونیورسٹی آف ملبورن ‘‘ کے پروفیسر جارج رینی (George Rennie) نے لکھا کہ

    ’’کیا امریکہ ناکام ریاست بنتا جا رہا ہے؟ انگریز مضمون کی سرخی تھی،

    ’’Is America a ‘failing state?‘‘۔

    مضمون نگار کا کہنا تھا کہ

    ’’انتخابات میں ایک ایسا رہنما بھی کھڑا ہے جس نے ملک کو کسی بھی دوسرے صدر کے مقابلے میں کہیں زیادہ تقسیم کر دیا ہے۔اب ناکام ریاست کی علامات کا ظہور شروع ہو چکا ہے ۔افریقی ممالک جیسی تمام علامتیں ( لسانی اور طبقاتی جنگ، جمہوری اداروں پر تنقید،صحت عامہ اور معاشی برابری کے سمیت دیگر سوشو اکنامک اشاریوں میں زوال) امریکہ میں بھی ظاہر ہو رہی ہیں۔سوشو اکنامک المیہ جنم لے رہا ہے۔ افریقی ممالک میں پانی اور قابل کاشت رقبوں کے حصول کی لڑائی جاری ہے ،یہ کام امریکہ میں بھی ہو رہاہے۔ زوال روس کے بعد دانشمندی کی سیاست بھی اختتام پذیر ہو گئی۔ امریکہ میں بھی جگہ جگہ مظاہرے اوراحتجاج ہو رہے ہیں۔وائرس کی تباہ کاریاں الگ ہیں ۔ سیاہ فاموں کو پیدائش کے بعدسے ہی لسانی امتیازات کا سامناہے، ترقی ہوئی لیکن تمام دولت ایک فیصد امراء نے سمیٹ لی۔اعلیٰ افسروں کی تنخواہیں 1965میں 20گنا زیادہ تھیں لیکن 2018ء میں 278گنا زیادہ ہو گئیں، 21 فیصد امریکی بچے غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ امریکہ کا نعرہ تھا ’نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں لگ سکتا‘لیکن اب اکثریت کو تو نمائندگی حاصل ہی نہیں ہے۔ اکثریتی ووٹ لینے والے امیدوار ایوان صدر تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں، تازہ ترین مثال ہیلری کلنٹن کی ہے۔بعض رہنما پوری جماعت کو ہائی جیک کر لیتے ہیں ، ڈونلڈ ٹرمپ نے یہی کچھ تو کیا ۔ان کی پارٹی ایک طرف تھی اور ٹرمپ دوسری جانب تھے جس سے پورا صدارتی ڈھانچہ کمزورپڑ گیا‘‘۔

    الیکٹورل کالج گوروں

    کے مفاد میں ہے؟

    2000ء میں ڈیمو کریٹک جماعت نے ری پبلیکن پارٹی سے پانچ لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے لیکن ایوان صدر کے دروازے اس پر بند رہے ۔ چھ سال بعد یہی تاریخ دہرائی گئی اور ری پبلیکن پارٹی کی ہیلری کلنٹن دس لاکھ ووٹ زیادہ لینے کے باوجود صدر نہ بن سکیں ۔الیکٹورل کالج سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کا فیصلہ چند ’’سوئنگ ریاستوں ‘‘کو دے دیا جائے ۔ یعنی جس امیدوار نے بھی یہ چند ریاستیں اپنے ساتھ ملا لیں ، وائٹ ہائوس اسی کا ہوسکتا ہے۔ان چند ریاستوں کا فیصلہ سب پر بھاری ہوتا ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ کئی ریاستوں کے بڑے شہروں میں کئی امیدواروں نے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا، البتہ سوئنگ سٹیٹس میں مہم چلانا سبھی امیدوار اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس سے جنوبی علاقوں کے گوروں کے ووٹوں کا وزن بڑھ جاتا ہے۔یہ شمال اور جنوب کی جنگ ہے۔یوں جنوبی ریاستوں کے گورے دیگر ریاستوں میں کم ووٹ لینے کے باوجود حکومت سازی میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

    سیاست دانوں اور عدالتوں پر تنقید

    ریاست پنسلوینیا میں دائر کردہ ایک درخوا ست پر سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ3 نومبرکو پولنگ کا وقت ختم ہونے تک بک ہونے والے تمام ووٹوں کو شمار کیا جائے ۔ اس فیصلے پر امریکی صدر ٹرمپ سپریم کورٹ پر برسے کہ ’’انتخابات کا فیصلہ 3نومبر کی بعد ہونے والی ووٹوں کی گنتی کے بعد ہوگا ، اگر ہم جیتے تو 3 نومبر کو ہی جیتیں گے ، ورنہ بہت بہت شکریہ سپریم کورٹ‘‘۔فیصلہ کرنے والے بینچ کے چار جج ایک طرف اور چار دوسری طرف تھے، اس لئے ری پبلیکن پارٹی کا سوال یہ ہے کہ جب چار جج حامی اور چار جج مخالف تھے تو فیصلہ کیسے ہو گیا؟ امریکی صدر نے کہا کہ ’’ یہ بری روایت ہے ۔سپریم کورٹ نے بری روایت کی بنیاد رکھ دی ہے۔کیونکہ انتخابات کا فیصلہ 3نومبر کو ہونے والی ووٹنگ پرہی ہونا چاہئے ‘‘۔

    امریکی صدر نتائج کے اعلان اور ووٹوں کی گنتی میں تاخیر کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکی صدر نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ’ ’اس طرح تو مہینوں تک یہی کام ہوتا رہے گا‘‘۔سپریم کورٹ اسی قسم کا فیصلہ نارتھ کیرولائنا کے بارے میں بھی دے چکی ہے۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کیا کہ ’’کئی ہفتوں تک نتائج کا انتظار کرناپڑے گا اور یہی وہ وقت ہے جس میں ڈیموکریٹس ہیرا پھیری کر لیں گے‘‘۔انہوں نے گورنروں پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے کہا، ’’ووٹوں پر دھوکہ مت دو، گورنرودھوکہ مت دو، دھوکہ مت دو۔ہم جیت رہے ہیں‘‘۔
     
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    امیدواروں کو کس منشور

    پر ووٹ پڑے؟

    صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کورونا کے پیدا کردہ بحران سے نکلنے کے لئے 3.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔’’مرکز برائے چائلڈ کیئر‘‘ کے مطابق فلوریڈا میں 56فیصد بچوں کو چالڈ کیئرکی سہولت دستیاب نہیں ہے ۔ کانگریس نے چائلڈ کیئر کے لئے مارچ میں3.5ارب ڈالر کا پیکج منظور کیاتھا لیکن تفصیلات پر اختلاف رائے کی بدولت منصوبے پر عمل نہ ہو سکا۔18فیصد چائلڈ کیئر سنٹرز اور 9 فیصد چائلڈ کیئر ہومز بند پڑے ہیں۔ جو کھلے ہیں ان میں بھی بچوں کی تعداد 86فیصد سے کم رکھی گئی ہے۔مجموعی انرولمنٹ 67فیصد ہے‘‘۔

    جبکہ ڈیمو کریٹس نے بچوں کے تحفظ پر خرچ کرنے والوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ اور ’’یونیورسل سکیم ‘‘جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ آئیوانکا ٹرمپ نے کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ ’’میرے ابو نے 8لاکھ خاندانو ں کے بچوں کو سستا ترین صحت کا نظام مہیا کر کے ان کے دل جیت لئے ہیں‘‘۔ انہوں نے 2017ء میں ملازمتوں کی فراہمی اور چائلڈ کئیر کی سکیموں میں سرمایہ کاری پر ٹیکسوں میں چھوٹ دگنی کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ 2020ء کے بجٹ میں یہ قانون بن گیا تھا ۔جو بائیڈن نے 325ارب ڈالر کا چائلڈ کیئر پروگرام جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔تین اور چار سال کے بچوں کے لئے خصوصی پروگرام کے تحت فی بچہ 8 ہزار ڈالر کی ٹیکسوں میں رعایت ملے گی۔صدر ٹرمپ کے دور میں 28ریاستوں میں بچوں کی صحت کی حفاظت اور تعلیم مہنگی ہو گئی۔

    عوام بندوقوں کے بے تحاشاا ستعمال کے نقصانات کو بھی نہیں بھول سکے۔ان انتخابات میں گن لابی نے بھی کردار ادا کیا۔امریکی مبصر جوناتھن میٹزل (ڈائریکٹر وینڈر بلٹ یونیورسٹی سنٹر فار میڈیسن ،صحت و معاشرہ ) کا بھی یہی خیال ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ’’سکولوں اور دوسرے مقامات پر کھلم کھلا قتل عام سے عوام کادماغ کھول رہا ہے، ان کی برداشت جواب دے چکی ہے۔یا تو لیڈران اس کا حل پیش کریں یا پھر اس کی قیمت خود چکائیں ‘‘۔اسی لئے جو بائیڈن کی جیت کی خبروں کے ساتھ بندوقوں کی فروخت بھی بڑھنے لگی۔ کچھ لوگوں کوپابندیاں لگنے کا اندیشہ تھا اور کچھ امن و امان کی بگڑتی صورتحال سے ڈر رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ جب امریکی صدر نے وائٹ ہائوس کے گرد حصار حفاظتی دیوار تعمیر کر لی ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔ دیوار کی تعمیر پر انہیں ’’بنکر بوائے‘‘ کہا جانے لگا ہے۔امریکہ میں بندوقوں کی فروخت کے مخالف گروپ بھی سرگرم ہو گئے ہیں جن میں ’’دوبارہ کبھی نہیں‘‘ (Never Again) بھی کافی متحرک ہے۔ جو بائیڈن ’’سمارٹ اور خود کار گنوں‘‘ پر مکمل پابندی کے حق میں ہیں ۔ ٹرمپ کچھ چیک اینڈ بیلنس کے حامی ہیں لیکن کوئی دو ٹوک پالیسی سامنے نہیں رکھی۔

    تجارتی معاملات کا جیت پر اثر

    جو بائیڈن عالمی تجارتی معاہدوں میں شمولیت کا آغاز کریں گے جیساکہ ’’Trans-Pacific Partnership‘‘ میں شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں۔اوباما دور میں اس معاہدے پر بحث مکمل ہو گئی تھی لیکن ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد مذاکرات روک دیئے تھے۔ وہ ڈبلیوٹی او سے بھی نالاں ہیں۔ ’’پیو ریسرچ سنٹر‘‘ کے مطابق 65فیصد امریکی جن میں 73فیصد ڈیمو کریٹس بھی شامل ہیں عالمی تجارتی معاہدوں کے حق میں ہیں ان کے خیال میں ان سے امریکی معیشت کے لئے ترقی کے مواقع کھلتے ہیں‘‘۔2020ء کی ابتدا میں ٹرمپ نے چین کے ساتھ نیا معاہدہ کرلیا تھا، لیکن پھر وہ اچانک دونوں معاہدات سے باہر نکل گئے۔امریکیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے ان کے لئے روزگار کے دروازے کھل گئے ہیں اور بے روزگاری تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے اسی لئے ’’آکسفورڈ اکنامکس ‘‘نے ٹرمپ کی پاپولر ووٹنگ میں کامیابی کی پیش گوئی کر دی تھی۔

    سٹوڈنٹ قرضہ پروگرام

    جو بائیڈن نے ’’ٹیوشن فری تعلیمی ڈھانچے‘‘ کے خد و خال پیش کئے تھے۔انہوں نے قرضے معاف کرنے کی سکیم پیش کی تھی۔جس سے 95 فیصد طلباء کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جو بائیڈن 30 ہزار ڈالر سے کم کے تعلیمی قرضے معاف کرنے کے حق میں ہیں۔انہوں نے کم آمدنی والوں کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے ایک پلان بھی پیش کیا ہے۔اوباما نے ’’فری کالج‘‘ کا تصور پیش کیا تھا۔ جو بائیڈن اسے فعال کرنا چاہتے ہیں ۔’’پیو ریسرچ سنٹر‘‘کے مطابق طلباء کے قرضوں کاحجم1.4کھرب سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے برعکس صدر ڈونلڈ ٹرمہ نے اوباما کی ایسی تمام سکیمیں منسوخ کر دی تھیں۔

    امیگرنٹس کے مسائل

    جو بائیڈن غیر قانونی طور پر بھی ا مریکہ آنے والوں کے بچوں کو تعلیم کے لئے کوئی نہ کوئی قانونی راستہ نکالنے کی تجاویز پر عمل پیرا ہیں۔ وہ سرحدوں پر سکریننگ کے عمل میں تبدیلی کے حق میں ہیں۔ٹرمپ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والوں کو جیل بھجوانے کے حق میں ہیں۔2018ء میں جاری کردہ ’’زیرو ٹالرینس پالیسی‘‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔پیو ریسرچ کے مطابق ’’80فیصد لاطینی ووٹرز،38فیصد ری پبلیکنزاور 60فیصد امریکی ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کو بہتر نہیں سمجھتے ۔ان کے نزدیک امیگرنٹس کے بغیر ترقی ناممکن تھی۔ 60فیصد ری پبلیکنزکا خیال ہے کہ امریکہ میں داخلہ کچھ زیادہ ہی آسان بنا دیاگیا ہے، جس سے امریکی تشخص ختم ہو سکتا ہے‘‘۔

    صحت کی سہولتیں

    2.7 کروڑ امریکیوں کو صحت عامہ کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں،عوام اسے ٹرمپ کی کوتاہی گردانتے ہیں۔جو بائیڈن ’’قابل برداشت ہیلتھ کیئر سسٹم‘‘لانا چاہتے ہیں۔اس کے لئے وہ ٹیکسوں میں رعایت دینے کاارادہ کر چکے ہیں۔ ہر شہری کو اپنی تنخواہ کا صرف 8.5فیصد ہیلتھ انشورنس پر خرچ کی ضرورت باقی رہے گی، باقی اخراجات حکومت ادا کرے گی۔مزید49 لاکھ امریکیوں کو ہیلتھ کوریج دینے کی سکیم تیار کی ہے ۔

    ہیلتھ کیئر سکیم کی وجہ سے ہی ڈیموکریٹس نے 2018ء کے مڈ ٹرم انتخابات میں ایوان زیریں میں 40نشستیں حاصل کر لی تھیں۔ 37 فیصد امریکیوں کو سرکاری اور65فیصد کو نجی شعبے کی انشورنس کی سہولت حاصل ہے۔ 8فیصد امریکیوں کو کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں۔ ٹرمپ نے اوباماکی ہیلتھ کیئر سکیم (افورڈیبل ہیلتھ کئیر ایکٹ )کے خلاف اعلان جنگ کیا، اور اسے 2019ء میں منسوخ کر دیا۔2019ء میں ٹرمپ نے نئی سکیم جاری کرنے کی امید دلائی لیکن یہ سکیم جاری نہ ہو سکی۔

    موسمیاتی تبدیلیاں

    انتخابات پرموسمیاتی تبدیلیوں نے بھی اثر ڈالا ہے۔ کیلی فورنیا میں تاریخ کی تیسری بھیانک ترین آگ سے 2.70لاکھ ایکڑ رقبے پر واقع جنگل جل کر راکھ ہو گئے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں جون اور ستمبر سابقہ ادوار کی بہ نسبت گرم ترین مہینے ثابت ہوئے۔جو بائیڈن نے 2050ء تک صفر آلودگی کے لئے کلین انرجی کی تیاری پر دس سال میں 1.7 کھرب ڈالرخرچ کرنے کا پروگرام بنایا ۔اس وقت ’’دی گارڈین ‘‘ کے مطابق 57فیصد امریکی نوجوان آلودگی سے پریشان ہیں۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شور و غوغا چین کا پیدا کردہ ہے۔اسی لئے وہ پیرس معاہدے سے نکل آئے۔اور ملک میں کوئلے سے صنعتیں لگانے کی اجازت دے دی‘‘۔
     
  4. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بچوں کوجینے دو کا نعرہ

    احتجاج برائے زندگی‘‘(March for Life) نامی تنظیم نے ملک بھر میں اسقاط حمل کے خلاف جلوس نکال کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔سال بھر میں 638169بچوں کو دنیا میں آنے سے روک دیا گیاتھاجوبائیڈن کم سے کم اور ناگزیراسقاط حمل کے حق میں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’’بچوں کو جینے کا حق ملنا چاہئے‘‘۔77 فیصد امریکی بھی ان سے متفق ہیں۔55فیصد نے تو یہاں تک کہہ دیاہے کہ سرکاری خرچ پراس عمل کو بند کر دیا جائے۔

    ٹرمپ 2015ء میں ہونے والے معاہدے سے نکل آئے جبکہ جو بائیڈن اس کے حق میں ہیں۔انہوں نے ایران پر مزید پابندیاں لگا دی ہیں۔بے روزگاری 3.5 فیصدسے بڑھ کر 14.7فیصد ہو چکی ہے۔ اکتوبر تک امریکہ میں 23.2ملین افراد بے روزگار ہو گئے تھے ۔ ٹرمپ نے ایک سال میں ایک کروڑملازمتیں دینے کا وعدہ کیا۔جو بائیڈن کم سے کم تنخواہ 15ہزار دالر کرنے کے حق میں ہیں۔

    ووٹ چرانے کے الزامات

    اگرچہ دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے پر ’’ووٹرز فراڈ‘‘ کے الزامات عائد کئے ہیں لیکن ’’دی برینن سنٹر فار جسٹس‘‘ نامی تنظیم نے ووٹنگ فراڈ کے اندیشوں کو مسترد کر دیا ہے۔ ووٹنگ پر گہری نگاہ رکھنے والی اس تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ ’’تمام تر دعوئوں کے برعکس دھاندلی کے امکانات 0.0003فیصد سے 0.0025فیصد تک ہیں یعنی اگر حد ہو گئی تب بھی چند ہزار سے زیادہ جعلی ووٹ پڑنے کا اندیشہ نہیں ہے۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے 10جولائی2020کو ایک ٹوئٹ کیا، ’’کئی انتخابات میں پوسٹل بیلٹس کا فراڈ سامنے آیا ہے، لوگ اس برائی، بے ایمانی اور سستی کو دیکھتے ہی رہ گئے ۔حتمی نتائج کے اعلان میں کئی دن کی تاخیر ہو سکتی ہے۔کیا انتخابات کی رات کوئی بڑا فیصلہ نہیں ہو سکتا؟ 2016میں ایک فیصد ووٹوں کی گنتی برووقت نہیں کی گئی تھی،مضحکہ خیز۔الیکشن چرانے کا فارمولہ ہے اور کچھ نہیں‘‘۔

    صدر ٹرمپ نے 3نومبر کو ٹوئٹ کیا کہ ’’ہم جیت رہے ہیں،لیکن وہ بھی انتخابات چرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دیں گے۔کیونکہ پولنگ بند ہونے کے بعد ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا جا سکتا‘‘۔صدر کے حامیوں نے اپنے ایجنٹوں کو نکالنے کاالزام لگایا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ’پول واچرز‘ کو انتخابی ووٹنگ کے مقامات سے نکال دیا گیا ہے۔اس سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کے انچارج مائیک رومن نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’ الیکشن چرانے کے لئے فلاڈیلفیا میں ہمارے پول واچرز کو نکال دیا گیا ہے۔

    صدارت کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی؟

    امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ ’’اگر نتائج میرے خلاف آئے تومیں اقتدار نہیں چھوڑوں گا‘‘،امریکی مبصرین کے مطابق انتخابی نتائج کوکوئی فریق ماننے سے انکار کر سکتا ہے۔ امریکی اخبارات کے مطابق اس کے اندیشے زیادہ ہیں ، اس صورت میں یہ معاملہ امریکی سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ فلاڈیلفیا میں ووٹوں میں گنتی کے حوالے سے دیئے جانے والے فیصلے کے حق اور مخالفت میں چار چار جج تھے ۔اتنے اہم مقدمے میں سپریم کورٹ میں یہ تقسیم مناسب نہیں۔مبصر بیب رتھ (Babe Ruth) کا کہنا ہے کہ ’’میں ان باتوں سے اتفاق کرتی ہوں کہ صدارتی انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا اور وہی حتمی فیصلہ کرے گی۔امریکی صدر ٹرمپ نے چند ہی ہفتے قبل کچھ حلقوں کے اعتراضات کے باوجود نویں جج کے طور پر ایمی کونی بیرٹ کی تقرری کر دی تھی ۔

    پنسلوینیا کیس

    پنسلوینیا کا کیس دلچسپ مرحلے میں داخل ہوسکتا ہے کیونکہ تین قدامت پرست ججوں نے ووٹوں کی گنتی تین دن تک جاری کرنے کے باوجود یہ کہا ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے بعد بھی اس مقدمے پر غور کر سکتے ہیں، ان ججوں میں سیموئل الیٹو، نیل گورسچ اور کلیرنس تھامس شامل ہیں۔اس سے یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ فلاڈیلفیا کا معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے، جہاں سابقہ فیصلہ بدل بھی سکتاہے۔

    جسٹس تھامس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’پنسلوینیا کی سپریم کورٹ کا فیصلہ بطاہر وفاقی آئین سے متصادم لگتا ہے۔جبکہ دوسرے جج جسٹس ایلٹو نے آبزرویشن دی ہے کہ ’’پنسلوینیا کیس کے فیصلے سے الیکشن کے بعد سنجیدہ مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ری پبلیکن پارٹی کا کہنا تھا کہ جب دونوں جانب چار چار جج ہیں تو پھر فیصلہ کیسے کیا گیا ۔کورٹ نے پنسلوینیا اور نارتھ کیرولائنا میں مداخلت کرنے سے انکار کیا لیکن وسکانسن میں مداخلت کی اور پوسٹل بیلٹ کی وصولی میں چھ دن کی توسیع کرنے سے انکار کر دیا۔وسکانسن کیس میں چیف جسٹس نے خود مداخلت کی اور لکھا کہ’’ وسکانسن میں پوسٹل بیلٹ کی وصولی کا عمل 3 نومبر تک یقینی بنایا جائے اس کے بعد کوئی ووٹ نہ شامل کیا جائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’فلاڈیلفیا میں توسیع کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ وہاں گنتی میں تاخیر کا قانون موجود ہے جبکہ وسکانسن میں اس قسم کا کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔

    یہ بھی کہا جا رہاہے کہ 3نومبر کے بعد مزید نئے مقدمات آسکتے ہیں اور ان کی سماعت میں بھی تیزی کا امکان ہے۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے نارتھ کیرولائنا میں بھی ووٹوں کی گنتی میں تاخیر کی ا جازت دینے کے عمل کو حیران کن قرار دیا ہے۔اب یہ ریاست 12نومبر تک ووٹوں کی گنتی مکمل کر سکتی ہے۔مگر ان تمام ووٹوں کا پولنگ کے دن یاا س سے پہلے پوسٹ ہونا ضروری ہے۔ٹرمپ نے لکھا کہ ’’یہ فیصلہ کریزی ہے، اور ہمارے ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان 9دنوں کے اندر اندر ملک میں کیا ہو گا۔؟انتخابی عمل 3نومبر کو ہی ختم ہونا چاہئے‘‘۔

    سپریم کورٹ کے اہم فیصلے مندرجہ ذیل ہیں

    الباماکیس ،22اکتوبر

    الباما کی انتظامیہ نے ایک حکم جاری کیا جس کی رو سے معذورا فراد کے لئے ووٹنگ میں دقت پیش آنے کا اندیشہ تھا۔فیصد فیڈرل کورٹ کے مطابق یہ امریکہ میں نافذ معذوروں کے ایکٹ سے متصادم ہے۔لہٰذا اسے منسوخ کیا جائے۔سپریم کورٹ نے ریاست کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔

    وسکانسن کیس،26اکتوبر

    سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کے ذریعے گنتی کی تاریخ میں توسیع کی استدعا کی گئی لیکن عدالت نے توسیع کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ریاست کے قانون میں ا س کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔توسیع کا حکم دراصل فیڈرل جج نے ستمبر میں جاری کیا تھا، یہ فیصلہ ری پبلیکن پارٹی کی سوچ کے مطابق تھا۔

    نارتھ کیرولائنا،29اکتوبر

    ڈیمو کریٹس نارتھ کیرلائنا میں بھی اسی نوعیت کا ایک مقدمہ جیت گئے تھے۔آٹھ ججوں میں سے پانچ نے حق میں اور تین نے مخالفت میں فیصلہ دیا تھا۔گنتی کی مدت میں تین کی بجائے نو دن کرنے کا فیصلہ انتظامیہ نے کیا تھا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں