1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امریکہ‘ عدلیہ‘ فوج اور جمہوریت

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏15 جولائی 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    نیٹو سپلائی بحال ضرور ہوئی لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان تنازعات حل نہیں ہوئے۔ امریکی انتظامیہ‘مقننہ اور میڈیا پاکستان پر پہلے سے زیادہ برہم ہیں اور پاکستانی اس سے پہلے سے بھی زیادہ شاکی اور ناراض۔ دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ کا میچ ہنوز جاری ہے بلکہ ایک دوسرے کو پھانسنے کیلئے وہ مستقبل میں مزید گرم ہوسکتا ہے۔ بڑی توقعات وابستہ کرکے امریکیوں نے پیپلز پارٹی کی زیر سرگردگی موجودہ سیاسی بساط بچھائی تھی ‘ لیکن پاکستانی عوام سے بڑھ کر امریکی اس سے مایوس ہوگئے ہیں۔ امریکی اس نتیجے تک آگئے ہیں کہ موجودہ سیاسی قیادت ان کے لئے درد سر بنے رہنے والے معاملات کو فوج سے اپنے ہاتھ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ پاکستان کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کی۔ پارلیمنٹ اور منتخب ادارے امریکہ کے معاملے میں ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور جمہوریت کی آڑ لے کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پہلے سے بھی زیادہ مزاحمت کررہی ہے ۔

    یوں امریکہ کی دلی خواہش ہوگی کہ فوج کو کسی نہ کسی طریقے سے دوبارہ اقتدار میں لایا جائے تاکہ اسے پارلیمنٹ جیسے سہارے میسر نہ رہے اور وہ مغربی قوتوں کے آگے آسانی سے بلیک میل ہوسکے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ عسکری قیادت لکھنے پڑھنے اور سوچ بچار کرنے والی ہے ۔ اسے ملک کے اندر چار سوپھیلی انارکی اور اقتصادی بدحالی کا ادراک ہے ۔ شاید وہ امریکہ کی مذکورہ خواہش اور چال کو بھی سمجھتی ہے ۔ اس لئے وہ اقتدار پر قبضے اور سیاست میں براہ راست مداخلت سے گریز کررہی ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ فوج مطمئن ہے ۔ فوج میں بے چینی بھی ہے اور اپنی قیادت پر کچھ کرنے کیلئے دباؤ بھی بڑھ رہا ہے ۔شاید اسی لئے تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی گئی ۔ تحریک انصاف کسی حد تک مسلم لیگ (ن) کو سیدھا رکھنے کا موجب تو بن رہی ہے لیکن پوری طرح متبادل نہیں بن سکی ۔ ایک پرجوش سرپرست سے محرومی اور ملک ریاض کے مسائل کی وجہ سے اس کو مال کی سپلائی بھی کم ہوگئی ہے ۔

    دوسری طرف ملکی حالات ابتر سے ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ حکومتی رویے سے مجبور ہوکر عدلیہ نے جارحانہ رویہ اپنایا تو خیال ظاہر کیا جانے لگا کہ شاید عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی دوستی پھر استوار ہوگئی ہے اور اب ثانی الذکر کی شہہ پر اول الذکر حکومت کو چلتا کردے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہی شک ہے کہ اس کے خلاف عدلیہ جو کچھ کررہی ہے ‘ اسٹیبلشمنٹ کے شہ پر کررہی ہے ۔ اسی لئے وہ سازش سازش کا شور مچارہی ہے۔ جواب میں وہ دو رخی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ مسنگ پرسنزاور بلوچستان و فاٹا کے معاملات سے اپنے آپ کو الگ رکھ کر حکومت فوج اور عدلیہ کے مابین تلخی بڑھانا چاہتی ہے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کا سہارا لے کر وہ عدلیہ کے ہاتھ پاوں باندھنا چاہتی ہے ۔اگر عدلیہ نے نئے وزیراعظم کے خلاف بھی فیصلہ دیا تو حکومت پوری قوت کے ساتھ عدلیہ پر حملہ آور ہوگی ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت مطمئن ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ‘ فوج براہ راست مداخلت نہیں کرے گی ۔ اس کے اطمینان کی ایک وجہ تو ملکی حالات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج اور اس کے اداروں کی بے پناہ مصروفیت ہے اور دوسری وجہ امریکہ اور فوج کی کشیدگی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ امریکہ چونکہ فوج سے ناراض ہے ‘ اس لئے وہ اسے اقتدار میں نہیں آنے دے گی۔ لیکن ہماری دانست میں تو امریکہ کا معاملہ الٹ ہے۔

    ایک بات بہ ہر حال طے ہے کہ ملک موجودہ بے یقینی کا زیادہ دیر متحمل نہیں ہوسکتا ۔ حکومت وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں کہ جس سے عدلیہ مطمئن ہو اور عدلیہ بھی ایک خاص حد سے زیادہ پیچھے نہیں ہٹ سکتی ۔ چنانچہ ایک امکان یہ ہے کہ عدلیہ کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے اور وہ کوئی ایسا فیصلہ دے دے کہ جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کو بھی جانا پڑ جائے۔ اگر تو حکومت عدلیہ کے ایسے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے تو بھی ملک ‘ جمہوریت اور عدلیہ کیلئے اس کے نتائج بہتر نہیں ہوں گے۔ کیونکہ اس صورت میں پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں عدلیہ کو مزید متنازعہ بنادیں گی اور سیاسی ماحول مزید تلخ ہوجائے گا ۔ دوسرا امکان یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت عدلیہ کا فیصلہ ماننے سے انکار کردے اور عدلیہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے فوج طلب کرلے ۔ ایسا ہوا تو بھی سسٹم برقرار نہیں رہے گا ۔ فوج عدلیہ طلب کرے یا سول حکومت ‘ جب آتی ہے تو پھر اپنے طریقے سے کام کرتی اور پھر اپنی ہی مرضی سے واپس جاتی ہے۔

    تیسرا امکان یہ ہے کہ ملک کے اندر یہ بدحالی اور اداروں کا یہ تصادم اسی طرح زوروں پررہے جس کے نتیجے میں فوج کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے ۔ یا پھر کوئی ایسا حادثہ ہو ہوجائے کہ جس کی وجہ سے اس کو مداخلت کرنی پڑجائے ۔ یہ خطرہ اس صورت میں مزید بڑھ جاتا ہے کہ جب امریکہ ‘ جو پاکستان کے اندر پولیٹکل مینجمنٹ کا طویل تجربہ رکھتا ہے ‘ بھی ایسا کچھ ہوجانے کی خواہش رکھتا ہو۔ امریکہ ایسے اوقات میں چور کو چوری پر اکسانے اور گھر والے کو بیدار رکھنے کی پالیسی پر بھی عمل کرتا ہے ۔ بارہ اکتوبر 1999ء کے وقت اس نے یہی کام کیا تھا ۔ جنرل مشرف اور نواز شریف کو ایک دوسرے سے ڈراتا بھی رہا اور خبردار بھی کرواتا رہا۔

    اس صورت حال میں جمہوریت اور نظام کے بچاؤ کا واحد راستہ یہ بن جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی ضد چھوڑ دے ۔ وہ نہ صرف قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرلے بلکہ ایسی غیرجانبدار نگران حکومت کے قیام پر بھی تیار ہو جائے کہ جو اپوزیشن کو بھی قابل قبول ہو۔ مختصر الفاظ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک نئی میثاق جمہوریت اور پورے خلوص کے ساتھ اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہی سے نظام اور جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے ۔ ایسا نہ ہوسکا تو خاکم بدہن سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ زرداری صاحب بھی‘ نوازشریف صاحب ‘ عمران خان صاحب عدلیہ ‘ میڈیا کے عقاب اور شاید جرنیل صاحبان بھی۔

    بہ شکریہ روزنامہ جنگ
    سلیم صافی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں