1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امريکی قوم سے صدر اوبامہ کا خطاب

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏8 جولائی 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    امریکہ کے کور آف کیڈٹس،ہماری مسلح افواج میں شامل مرد اور عورتیں، اور میرے امریکی ہم وطنو: آج رات میں آپ کو افغانستان میں امریکہ کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ وہاں ہم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی نوعیت کیا ہے، وہاں ہمارے مفادات کا دائرہ کیا ہے، اور اس جنگ کو کامیابی سے اختتام تک پہنچانے کے لیئے میری انتظامیہ کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔ یہاں ویسٹ پوائنٹ میں ، جہاں اتنے سارے مردوں اور عورتوں نے ہماری سلامتی کی حفاظت کے لیئے تیاری کی ہے، اور ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین اقدار کی نمائندگی کا بیڑا اٹھایا ہے، ان معاملات پر اظہارِ خیال کرنا میرے لیئے غیر معمولی اعزاز کی بات ہے۔

    ان اہم معاملات پر بات کرنے کے لیئے ، یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی آخر افغانستان میں جنگ لڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ یہ لڑائی ہمارے کہنے پر شروع نہیں ہوئی۔ 11 ستمبر، 2001 کو، انیس افراد نے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اور انہیں تقریباً 3,000 افراد کو قتل کرنے کے لیئے استعمال کیا۔ انھوں نے ہمارے اہم ترین فوجی اور اقتصادی مراکز پر ضرب لگائی۔ انھوں نے مذہب، نسل یا زندگی میں کسی کے مقام کا لحاظ کیئے بغیر، بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں۔ اگر ان میں سے ایک جہاز پر سوار مسافروں نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا، تو یہ لوگ ہماری جمہوریت کی ایک عظیم علامت کو نشانہ بنا سکتے تھے اور مزید بہت سے لوگوں کو ہلاک کر سکتے تھے۔

    جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ان لوگوں کا تعلق القاعدہ سے تھا ۔۔ یہ انتہا پسندوں کا ایک گروپ ہے جس نے بے گناہ لوگوں کو ذبح کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیئے، دنیا کے ایک عظیم مذہب، اسلام کومسخ کیا ہے اور اس کے تقدس کو پامال کیا ہے ۔القاعدہ کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان میں تھا، جہاں طالبان نے انہیں پناہ دی تھی۔ طالبان ایک بے رحم، ظالمانہ اور انتہا پسند تحریک ہے جس نے ایسے وقت میں جب افغانستان برسوں تک سوویت قبضے اور خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا، اور جب امریکہ اور ہمارے دوستوں کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی تھی، اس ملک پر قبضہ کر لیا۔

    نائن الیون کے چند دِن بعد ہی، کانگریس نے القاعدہ اور ان کو پناہ دینے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دے دی۔ یہ منظوری آج بھی موجود ہے۔ سینیٹ میں 98 ووٹ اس کے حمایت میں آئے اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ایوانِ نمائندگان میں 420 ووٹ حمایت میں اور ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔ تاریخ میں پہلی بار، نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن نے آرٹیکل 5 کو استعمال کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک رکن ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نائن الیون کے حملوں کے جواب میں تمام ضروری اقدامات کی منظوری دی۔ امریکہ، ہماری اتحادی ممالک، اور پوری دنیا ، القاعدہ کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور ہماری مشترکہ سیکورٹی کی حفاظت کے لیئے متحد ہو گئی۔

    اس داخلی اتحاد کے جھنڈے تلے، اور بین الاقوامی طور پر جائز اور قانونی قرار دیے جانے کے بعد، اور طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔ چند مہینوں میں ہی، القاعدہ منتشر ہو گئی اور اس کے بہت سے کارندے ہلاک کر دیے گئے۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا، اور فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایک ایسی جگہ جو کئی عشروں سے خوف کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، اب وہاں امید کی روشنی نظر آنےلگی۔ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں صدر حامد کرزئی کے تحت ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی۔ اورجنگ سے تباہ حال ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے، ایک انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس قائم ہوئی۔

    پھر 2003 کے شروع میں، عراق میں ایک دوسری جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عراق کی جنگ کے بارے میں جو ہنگامہ خیز بحث ہوئی، اس سے سب واقف ہیں اور یہاں اسے دہرانا غیر ضروری ہو گا۔ اتنا کہنا کافی ہو گا کہ اگلے چھہ برسوں تک ہماری فوجوں، ہمارے وسائل، ہماری سفارتکاری، اور ہمارے ملک کی توجہ کا بہت بڑا حصہ، عراق کی جنگ کے لیئے وقف ہو گیا۔۔اور عراق میں مداخلت کے فیصلے کی وجہ سے امریکہ اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے درمیان تعلقات میں خاصہ بڑا رخنہ پیدا ہو گیا۔

    آج، بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد، ہم نے عراق میں پیش رفت کی ایک راہ تلاش کر لی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور اس کے بعد وعدہ کیا تھا، ہم عراق کی جنگ کو ذمہ دارانہ انداز سے اختتام تک پہنچا رہے ہیں۔ ہم اپنی جنگی بریگیڈز کو اگلی گرمیوں تک عراق سے ہٹا لیں گے، اور اپنی تمام فوجوں کو 2011 تک واپس لے آئیں گے۔ ہم یہ سب کچھ اپنے با وردی مردوں اور عورتوں کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے کر سکے ہیں۔ (تالیاں)۔ ان کی جرأت ، ثابت قدمی اور استقامت کی بدولت، ہم نے عراقیوں کو اپنا مستقبل خود بنانے کا موقع دیا ہے، اور ہم عراق کو کامیابی سے اس کے عوام کے حوالے کرنے کے بعد، وہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔

    لیکن اگرچہ ہم نے عراق میں بڑی سختیاں جھیلنے کے بعد شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، افغانستان میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی ہے ۔ 2001 اور 2002 میں فرار ہونے کے بعد سرحد پار پاکستان میں، القاعدہ کی قیادت نے وہاں ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کر لی۔ اگرچہ افغان عوام نے قانونی طور پر ایک جائز حکومت منتخب کی، لیکن کرپشن، منشیات کے کاروبار، پسماندہ معیشت، اور نا کافی سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ، وہ اپنا کام نہیں کر سکی ہے۔

    گذشتہ کئی برسوں کے دوران، طالبان نے القاعدہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے، اور دہ دونوں افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے بتدریج افغانستان کے بعض حصوں پر کنٹرول قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف روز بروز زیادہ دیدہ دلیری سے دہشت گردی کی تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں۔

    اس پورے عرصے کے دوران، افغانستان میں ہماری فوجوں کی سطح، عراق کے مقابلے میں بہت کم رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا، اس وقت افغانستان میں صرف 32,000 امریکی فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں عراق کی جنگ کے عروج کے زمانے میں، وہاں ہمارے فوجیوں کی تعداد 160,000 تھی ۔افغانستان میں طالبان کے ایک بار پھر زور پکڑنے کے بعد کمانڈروں نے ان سے نمٹنے کے لیئے، بار بار مزید وسائل کی درخواست کی۔ لیکن ان کے لیئے کمک نہیں پہنچی۔یہی وجہ ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے تھوڑے دِن بعد ہی، میں نے مزید فوجیوں کی درخواست ، جو کافی عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی تھی، منظور کر لی۔ اپنے اتحادیوں سے مشورے کے بعد، میں نے ا یک حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ افغانستان میں ہماری جنگی کوششوں، اور پاکستان میں انتہا پسندوں کی پناہ گاہوں کے درمیان بنیادی تعلق ہے ۔ میں نے ایک ہدف مقرر کیا جس کی محدود وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ ہمارا مقصد القاعدہ اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کو درہم برہم کرنا، اسے منتشر کرنا، اور شکست دینا ہے۔ میں نے امریکہ کی فوجی اور سویلین کارروائیوں کو بہتر طریقے سے مربوط کرنے کا عہد کیا ۔

    اس کے بعد سے اب تک، ہم نے بعض اہم مقاصد کے حصول میں پیش رفت کی ہے ۔ القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ سطح کے لیڈر ہلاک کر دیے گئے ہیں، اور ہم نے ساری دنیا میں القاعدہ پر دباؤ بڑھا دیا ہے ۔پاکستان میں ، اس ملک کی فوج نے ، برسوں کے بعد ، اتنی بڑی کارروائی کی ہے۔ افغانستان میں ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے، طالبان کی صدارتی انتخاب کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔ اگرچہ دھاندلی کی وجہ سے اس انتخاب کی قانونی حیثیت ماند پڑ گئی، لیکن انتخاب سے جو حکومت بنی ہے ، وہ افغانستان کے قوانین اور آئین کے مطابق ہے ۔

    پھر بھی بہت سے چیلنج باقی ہیں۔ افغانستان کو ہم نے کھویا نہیں ہے، لیکن کئی برسوں سے وہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے ۔ حکومت کا تختہ الٹے جانے کا کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، لیکن طالبان نے زور پکڑ لیا ہے ۔ اگرچہ القاعدہ اتنی بڑی تعداد میں دوبارہ سامنے نہیں آئی ہے جتنی نائن الیون سے پہلے تھی، لیکن سرحد کے ساتھ ساتھ ان کی محفوظ پناہ گاہیں باقی ہیں۔ اور ہماری فورسز کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ موئثر طریقے سے افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دے سکیں اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کر سکیں، اور آبادی کی بہتر طور سے حفاظت کرسکیں۔ افغانستان میں ہمارے نئے کمانڈر، جنرل مک کرسٹل نے بتایا ہے کہ سیکورٹی کی صورت حال ان کی توقع سے زیادہ خراب ہے ۔ حالات کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا۔

    کیڈٹس کی حیثیت سے آپ نے اس خطرناک وقت میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی ہیں۔ آپ میں سے بعض لوگ افغانستان میں لڑ چکے ہیں۔ بعض کی تعیناتی وہاں ہونی ہے ۔ آپ کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، یہ میری ذمہ داری ہے کہ آ پ کو ایک واضح مشن دوں جو آپ کی خدمات کے شایانِ شان ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں ووٹنگ مکمل ہو گئی، تو میں نے اصرار کیا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کا مکمل جائزہ لینا چاہیئے۔ اب میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: میرے سامنے ایسی کوئی تجویز نہیں تھی جس کے تحت 2010 سے پہلے فوجوں کی تعیناتی ہونی تھی۔ چنانچہ جائزے کی اس مدت کے دوران، جنگ کے لیئے مطلوبہ وسائل کی فراہمی میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کی فراہمی سے انکار کیا گیا ہے ۔بلکہ جائزے کے ذریعے مجھے بعض مشکل سوالات پوچھنے کا موقع ملا ہے، اور ہماری نیشنل سیکورٹی ٹیم، اور افغانستان میں ہماری فوجی اور سویلین قیادت اور اہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر تمام متبادل راستوں کی چھان بین کا موقع ملا ہے ۔ اس معاملے میں جتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، اس کی روشنی میں ، امریکی عوام اور ہمارے فوجیوں کو مجھ سے اس سے کم کسی چیز کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔

    اب یہ جائزہ مکمل ہو چکا ہے۔ اور کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، میں نے یہ تعین کیا ہے کہ 30,000 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنا ہمارے قومی مفاد کے لیئے اہم ہے۔18 مہینوں کے بعد، ہماری فوجیں گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی ۔ حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیئے، ہمیں ان وسائل کی ضرورت ہے۔ اس دوران ہم افغانستان کی اپنی صلاحیتوں کی تعمیر کریں گے تا کہ ہماری اپنی فوجیں افغانستان سے ذمہ دارانہ انداز میں نکل آئیں۔

    میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں نے عراق میں جنگ کی مخالفت ٹھیک اسی لیئے کی تھی کیوں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ عراق کی جنگ اور دہشت گردی کے بارے میں برسوں سے جاری بحث نے قومی سلامتی کے بارے میں ہمارے اتحادکو پارہ پارہ کر دیا ہے اور اس کوشش کے لیئے انتہائی جانبدارانہ اور اختلافی ماحول پیدا کر دیا ہے ۔اور ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔

    سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ آپ سے مزید قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔۔ایسی فوج سے جس نے آپ کے گھرانوں سمیت پہلے ہی سب سے زیادہ بوجھ برداشت کیا ہے ۔۔ صدر کی حیثیت سے ، میں نے ہر ایسے امریکی کے گھرانے کے نام جس نے ان جنگوں میں اپنی زندگی کا نذرانہ دیا ہے، تعزیت کے خط پر دستخط کیئے ہیں۔ میں نے جنگوں پر بھیجنے جانے والے افراد کے والدین اور شریکِ زندگی کے خط پڑھے ہیں۔ میں والٹر ریڈ جا کر اپنے زخمی ہونے والے بہادر سپاہیوں سے مِلا ہوں ۔میں نے Dover کا سفر کیا ہے اور میں امریکی پرچم میں لپٹے ہوئے ان 18 امریکیوں کے تابوتوں کی آمد کے وقت موجود تھا جو اپنی آخری آرامگاہ پر جانے کے لیئے واپس آئے تھے۔میں نے اپنی آنکھوں سے جنگ کے ہولناک اثرات دیکھے ہیں۔ اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا ۔

    تو پھر میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں یہ فیصلہ اس لیئے کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ القاعدہ جس متشدد انتہاپسندی پر عمل کرتی ہے، یہ علاقہ اس کا مرکز ہے ۔ ہم پر نائن الیون کا حملہ یہیں سے ہوا تھا، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اس وقت جب میں تقریر کر رہا ہوں، نئے حملوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی خالی خولی خطرہ نہیں ہے، کوئی فرضی دھمکی نہیں ہے۔ صرف گذشتہ چند مہینوں میں ہی، ہم نے اپنی سرحدوں کے اندر ایسے انتہا پسندوں کو پکڑا ہے جنہیں یہاں دہشت گردی کی نئی کارروائیوں کے لیئے ، افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے بھیجا گیا تھا۔ اور یہ خطرہ بڑھتا ہی جائے گا اگر اس علاقے میں حالات کو مزید خراب ہونے دیا جاتا ہے اور القاعدہ دیدہ دلیری سے اپنی کارروائیاں کر سکتی ہے ۔ ہمیں القاعدہ پر دباؤ قائم رکھنا چاہیئے، اور ایسا کرنے کے لیئے، ہمیں علاقے میں اپنے شراکت داروں کے استحکام اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔

    یہ صحیح ہے کہ ہم اکیلے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف امریکہ کی جنگ نہیں ہے ۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک، القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ، لندن، عمان، اور بالی کے خلاف حملوں کا ذریعہ رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتیں خطرے میں ہیں۔ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس پاکستان میں، خطرات اور بھی زیادہ ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہمارے پاس یہ سمجھنے کی وجوہ موجود ہیں کہ وہ انہیں ضرور استعمال کریں گے ۔

    اِن حقائق کی روشنی میں، ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مِل کر کارروائی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا اولین اور بنیادی مقصد اب بھی وہی ہے: افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کو درہم برہم کرنا، منتشر کرنا اور شکست دینا، مستقبل میں امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کو دھمکی دینے کے صلاحیت حاصل کرنے سے روکنا۔

    اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے، ہم افغانستان میں مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گے۔ ہمیں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ سے محروم کرنا چاہیئے ۔ہمیں طالبان کا زور توڑنا چاہیئے، اور انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیئے۔ اور ہمیں افغانستان کی سیکورٹی فورسز اور حکومت کی صلاحیت کو مضبوط بنانا چاہئیے تا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کی ذمہ داری قبول کرنے میں پہل کر سکیں۔

    ہم یہ مقاصد تین طریقوں سے حاصل کریں گے۔ اول یہ کہ ہم ایسی فوجی حکمت عملی پر عمل کریں گے جس سے طالبان کا زور ٹوٹ جائے گا اور اگلے 18مہینوں میں افغانستان کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔

    میں جن 30,000 مزید فوجیوں کا اعلان کر رہا ہوں، وہ 2010 کے پہلے حصے میں تعینات کر دیے جائیں گے۔ یہ رفتار سب سے زیادہ ہے ، تا کہ وہ بغاوت کو نشانہ بنا سکیں اور آبادی کے اہم مراکز کو محفوظ کر سکیں۔ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کی ہماری صلاحیت کو بہتر بنائیں گے اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کریں گے تا کہ اور زیادہ افغان لڑائی میں شامل ہو سکیں۔ اور وہ ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد دیں گے جن میں امریکہ یہ ذمہ داری افغانوں کو منتقل کر دے ۔

    چونکہ یہ بین الاقوامی کوشش ہے، اس لیئے میں نے کہا ہے کہ ہماری ذمہ داری میں ہمارے اتحادی بھی شرکت کریں۔ بعض نے پہلے ہی مزید فوجی فراہم کر دیے ہیں، اور مجھے اعتماد ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید مدد فراہم کی جائے گی۔ ہمارے دوستوں نے افغانستان میں ہمارے ساتھ مِل کر جنگ کی ہے، اپنا خون بہایا ہے اور اپنی جانیں دی ہیں۔ اب ہمیں اس جنگ کو کامیابی سے ختم کرنے کے لیئے اکٹھے ہونا چاہیئے۔ کیوں اب جو داؤں پر لگا ہوا ہے، وہ صرف نیٹو کی ساکھ اور اس کا اعتبار ہی نہیں ہے، بلکہ اب ہمارے اتحادیوں کی سیکورٹی، اور دنیا کی مشترکہ سیکورٹی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔

    لیکن اگر ملا کر دیکھا جائے، تو یہ اضافی امریکی اور بین الاقوامی فوجی یہ ممکن کر دیں گے کہ ہم زیادہ تیزی سے ذمہ داری افغان فورسز کو منتقل کر دیں، اور 2011 میں جولائی کے مہینے سے اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر دیں۔ جیسا کہ ہم نے عراق میں کیا ہے، ہم تبدیلی کا یہ عمل ذمہ داری کے ساتھ شروع کریں گے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھیں گے۔ ہم افغانستان کی سیکورٹی فورسز کو مشورہ اور مدد دینے کا عمل جاری رکھیں گے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ طویل مدت میں کامیاب ہو سکیں۔لیکن افغان حکومت پر واضح ہو جائے گا ۔۔اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ افغانستان کے لوگوں کو پتہ چل جائےگا ، کہ بالآخر اپنے ملک کی ذمہ داری خود انہیں کو اٹھانی ہو گی۔
    ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں