1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

الٹ پھیر

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از کاشفی, ‏10 نومبر 2007۔

  1. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    الٹ پھیر
    (سید علی رضا)

    میں نے ایک زوردار انگڑائی لی اور شدید نیند میں ہونے کے باعث اپنی ہی جھونک میں پٹ سے نیچے زمین پر گر پڑا۔ اور اس "پٹ" سے گرنے کے نتیجے میں میری آنکھیں "چوپٹ" کھل گئیں۔ ایک دوسری انگڑائی لے کر میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکا۔۔۔۔۔ تیسری انگڑائی لے کر پھر کوشش کی لیکن پھر ناکامی! بس ٹانگیں کپکپا کر رہ گئیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مجھے کھڑا ہونا ہی نہیں آتا۔

    اچانک مجھے یاد آیا کہ کل رات جب میں نے اندھا دھند دوڑتے ہوئے نیازی کو چپکے سے ٹانگ اڑا کر گرایا تھا تو پھٹے ہوئے ہونٹ سے خون پونچھتے ہوئے اس نے مجھے تالی پیٹ کر بد دعا دی تھی: "اللہ کرے تیری دولتیاں کمزور پڑ جائیں کہ تو زیادہ جھاڑ ہی نہ سکے۔"

    تو کیا یہ نیازی ہی کی بد دعا کا اثر تھا؟ امی نے بتایا بھی تھا کہ جو لوگ تالی پیٹ کے بد دعا دیتے ہیں ان کی بد دعا واقعی لگتی ہے اور نیازی نے تو دوبار تالی پیٹ کے بد دعا کا سینڈوچ پیش کیا تھا۔۔۔۔۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ میں با آواز بلند رونے لگا۔

    روتے روتے میں نے غور کیا کہ میرے رونے کے ساتھ منے میاں کے رونے کی بھی آواز آرہی ہے۔۔۔۔۔ یہ محسوس کرکے میں چپ ہو گیا۔ منے میاں کی آواز بھی بند ہوگئی۔۔۔۔۔ آزمائشی طور پر میں نے دوبارہ پکے راگ گائے تو منے میاں بھی پھر تان ملانے لگے۔

    "خبیث کہیں کا، نقل اتارتا ہے!" میں نے جھنجھلا کر سوچا اور پھر میں اور منے میاں دوبارہ رونے لگے۔ تنگ آ کر میں نے رونا بند کیا اور کمرے سے باہر جانے کی سوچی، کھڑا تو ہوا جا نہیں رہا تھا چنانچہ بچوں کی طرح گھٹنوں کے بل چلتا ہوا کمرے سے باہر آگیا۔

    صبح اٹھنے کے بعد میں سب سے پہلے امی کو سلام کرتا ہوں۔ چنانچہ ان کے کمرے کی طرف بڑھا اور اندر داخل ہوتے ہی بھونچکا رہ گیا۔ امی اندر کھڑی رسی کود رہی تھیں۔ وزن تو امی کا زیادہ ہی تھا لیکن پھر بھی وہ رسی کودنا گوارا نہیں کر سکتی تھیں۔۔۔۔۔ اور اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ انہوں نے بچوں جیسا فراک پہن رکھا تھا۔ میں فوراً گھٹنوں کے بل دوڑا کہ گھر کے دوسرے لوگوں کو اس خبر کی خبر دے سکوں۔ اس وقت سب لوگ گھر کے سٹنگ روم میں بیٹھے گپیں مار رہے ہوتے تھے۔

    اور جب میں اندر داخل ہوا تو شاید میری آنکھیں ڈڈو (مینڈک) کی آنکھوں کی طرح باہر کو ابل پڑیں حیرت سے۔۔۔۔ میں جن لوگوں کو روز دیکھتا تھا، آج وہ عجیب حالت میں تھے!

    یونی ورسٹی میں زیر تعلیم پری پیکر پانچ سالہ بچے کے واکر میں بیٹھی ادھر ادھر لڑھک رہی تھی۔۔۔۔۔ چار برس کے بچے کے والد محترم یعنی ہمارے بھائی جان "نیکر" پہنے بیٹھے اپنے بچے کی طرح انگوٹھا چوس رہے تھے اور ان کا تھوک زمین پر گر رہا تھا۔۔۔۔۔ ان کا بیٹا زیرک کیلکولیٹر سنبھالے حساب کی کتاب کھولے B.Sc پاس فوزیہ کو حساب پڑھا رہا تھا۔۔۔۔۔ سات ماہ کی بھتیجی فضہ اپنے پیروں پہ کھڑی ہو کر ابا جان کے کپڑے استری کر رہی تھی اور ڈیڑھ برس کے منے میاں سگریٹ منہ میں دبائے کش پر کش لگا رہے تھے۔

    اور اباجان۔۔۔۔۔ وہ تو بستر پر دونوں ٹانگیں پھیلائے، بیچ میں دلیے کا پیالہ رکھے دلیا کھا رہے تھے اور اس بری طرح کھا رہے تھے کہ ان کے منہ پر ہر طرف دلیا ہی دلیا لگا تھا۔

    میرے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ہاتھ میں پکڑا چمچ دلیے میں مار مار کر خوب چھپ چھپ کی اور چھینٹیں اڑائیں۔

    "اف!" یہ دیکھ کر فضہ نے سر پیٹا۔ "سارا دلیا ضائع کر دیا ناں! کہا تھا میں کھلا دوں گی مگر بس رٹ لگ گئی کہ خود کھاؤں گا۔۔۔۔۔ خدایا کتنا ضدی بچہ ہے یہ! اور بب بھی اتار دیا!"

    سات ماہ کی بچی کو اتنی حیرانی سے بولتا دیکھ کر اور وہ بھی فوزیہ کی آواز میں، میں کچھ دیر کے لیے گونگا ہو گیا۔ فضہ نے استری چھوڑ کر ابا جان کا منہ صاف کیا اور بب ان کے گلے میں باندھ دیا۔

    "یا خدا یہ کیا الٹی گنگا بہ رہی ہے!" میں نے حیرت سے کہنا چاہا مگر میرے منہ سے "گا گا چی گے قا!" قسم کے الفاظ نکلے اور مجھے ایک اور جھٹکا سا لگا۔ اچانک مجھے سردی سی محسوس ہوئی اور بے اختیار ہو کر جو میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو چیخ اٹھا۔ میں منے میاں کی طرح کی نیپی پہنے ہوئے تھا۔ اب بات سمجھ میں آچکی تھی۔ وہ یہ کہ بڑے، "بچے" اور بچے، "بڑے" ہو چکے ہیں!

    میری چیخ کی آواز سن کر فضہ نے گردن موڑ کر دیکھا اور ایک بار پھر سر پیٹ لیا: "لو! انہیں بھی ابھی اٹھنا تھا! مجال ہے جو کوئی کام کرنے دے! تگنی کا ناچ نچا دیا ہے ان بچوں نے بھی!" اس نے استری پٹخی اور میرے پاس آ کر مجھے گود میں لے لیا۔

    "یہ منہ سے ہاتھ نکالو!" اس نے میری ہتھیلی پر تھپڑ مارا، میں نے شدید حیران ہو کر ہاتھ منہ میں لے لیا تھا۔

    "ساری رال منہ اور ہاتھوں پر لگا لی ہے! گندا بچہ! چلو منہ دھلواؤ چل کے!" وہ مجھے بڑبڑاتی ہوئی صحن میں لے آئی۔ بیسن پر لگے آئینے میں جو میں نے جھانکا تو کھلکھلائے بغیر نہ رہ سکا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر کوئی ایک برس کا بچہ جس کا اپنا قد ڈیڑھ فٹ ہواور وہ اگر کسی لمبے چوڑے نوجوان کو کمر پر لاد کر چلنے لگے تو کیسا لگے گا!

    "ہنسنے کی بات نہیں ہے۔ ابھی مجھے سارے گھر کے کام کرنا ہیں! اگر تم مجھے یونہی تنگ کرتے رہے تو ہو گیا کام!" اس نے تولیے سے میرا منہ بری طرح رگڑا اور پھر اندر لے آئی۔ "ذرا یہاں بیٹھو۔ میں تمہارے کپڑے لے آؤں! اور گرنا مت!" وہ مجھے تخت پر بٹھا کر تاکید کرکے چلی گئی۔ میں اس نئے رنگ ڈھنگ پر بری طرح حیران تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک بار پھر ڈرائنگ روم میں جھانکنے کی کوشش کی لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ میں ذرا اور گے سرکا اور اپنی ہی جھونک میں پٹ سے نیچے گر گیا۔ چوٹ تو لگی لیکن اس وقت بھول بھال کے گھٹنوں گھٹنوں چلتا ڈرائنگ روم جا پہنچا۔

    "آیں" میں نے ہاتھ بڑھا کرسب کو مخاطب کیا۔ ابا جان مجھے دیکھتے ہی میری طرف ہمکنے لگے۔ منے میاں نے سگریٹ پیچھے چھپا لی اور لگے مجھے گھورنے۔ بھائی جان لا تعلق ہو کر انگوٹھا چوستے رہے جیسے انگوٹھے سے اورنج جوس نکل رہا ہو۔

    پری پیکر تیزی سے میری طرف لپکی مگر واکر میں الجھ کر بری طرح گری اور لگی حلق پھاڑنے۔ اس کو روتا دیکھ کر مجھے بھی احساس ہوا کہ ابھی چند لمحوں پہلے میں بھی تخت سے ٹپکا تھا اور مجھے بھی چوٹ لگی تھی۔ بس پھر کیا تھا، میں نے پری پیکر سے بھی بڑا منہ کھولا اور اس کے ساتھ پکا گیت گانے لگا۔ فضہ دوڑی دوڑی آئی: "کیا ہوا، کیوں آسمان سر پر اٹھا رہے ہو دونوں؟"

    "وہ ناں! پری اس کو دیکھ کر بھاگی اور گرگئی اور رونے لگی اور یہ اس کو دیکھ کر رونے لگا!" فوزیہ نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر توتلی زبان میں کہا۔

    "اچھا، بس تم ادھر دھیان دو!" زیرک نے چڑ کر فوزیہ کا دھیان کتاب کی طرف لگایا اور وہ منہ بسورنے لگی۔

    "تم سے کہا تھا، نیچے مت اترنا! چلو یہ کپڑے پہنو!" فضہ میری طرف لپکی اور کھینچ تان کے مجھے کپڑے پہنانے لگی جو کم از کم میرے سائز کے نہ تھے۔ مجھے ان کے ساتھ خاصی زور آزمائی کرنا پڑی لیکن تھک ہار کر پہن ہی لیے۔

    اب جو میں نے غور کیا تو میری حالت مزید مضحکہ خیز ہوگئی تھی۔ منے میاں کی نیکر بری طرح میری ٹانگوں سے چپکی ہوئی تھی، قمیص جو شاید منے میاں کے گڈے کی تھی، صرف سینے تک ہی تھی باقی پورا پیٹ کھلا تھا اور آستین فقط کندھوں تک محدود تھیں۔ مجھے لگا فضہ مجھے جدید ساڑھی پہنا رہی ہے۔ عجیب سرکس کے کپڑے تھے۔ میں نے بھنا کے رونا شروع کر دیا۔ ایک تو اپنی حالت کی وجہ سے اور دوسرے کپڑے بری طرح چبھ رہے تھے۔

    "خاموش! ہر وقت بغیر کپڑوں ہی کے نہیں رہتے!" فضہ نے ڈانٹا۔ لیکن یہ تو منے میاں کی عادت تھی کہ سارا دن وہ صرف نیکر میں گھومتے رہتے۔

    "اچھا اب جلدی کرو! ناشتہ دے رہی ہو یا جاؤں دفتر؟" منے میاں ایک دم چلائے۔

    "دے ے ے ے رہی ہوں! ذرا صبر کریں! دیکھ نہیں رہے کیا کر رہی ہوں؟ کبھی ان مردوں کو خود بچے پالنا پڑجائیں تو پتا چلے!" فضہ بڑبڑاتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی۔

    مجھے خیال آیا کہ امی کا بھی تو حال دیکھنا چاہیے کہ وہ اب کیا کر رہی ہیں۔۔۔۔۔ چنانچہ میں دوبارہ گھٹنوں کے بل سرکتا ہوا امی کے کمرے میں جا پہنچا۔ امی اپنے پلنگ پر بیٹھی گڑیا سے کھیل رہی تھیں، ان کے ہاتھ میں مارکر تھا جس سے وہ گڑیا کے ہاتھوں پر مختلف کیڑے مکوڑے بنا کر اپنی طرف سے مہندی لگا رہی تھیں۔ "اے!" میرا ہاتھ بے اختیار گڑیا کی طرف اٹھا تھا۔

    "اے!" امی نے میری نقل اتاری۔ "آگیا بد تمیز کہیں کا! ہر وقت اس کو ہر چیز چاہیے!" انہوں نے مجھ پر سراسر الزام لگایا کیونکہ یہ بھی منے میاں ہی کی عادت تھی، ہر چیز کو دیکھ کر ان کے منہ سے ایک مختصر "اے" نکلتی اور ہاتھ اس کی جانب اشارہ کرنے لگتا۔

    "میں تمہیں یہ نہیں دوں گی، جس سے شکایت کرنا ہو کر لو!" امی نے اٹل فیصلہ سنایا۔

    "اے اے ے ے ے! اے ے ے!" میں نے غصے ہو کر چلانا شروع کر دیا۔

    "کیا ہو گیا، کیوں غرا رہے ہو؟" فضہ چیختی ہوئی آئی۔ "اے!" میں نے جھٹ ہاتھ سے گڑیا کی طرف اشارہ کیا۔ "گڑیا دے دو اسے! سنائی نہیں دے رہا، کب سے چیخ رہا ہے! ادھر دو گڑیا!" فضہ نے آگے بڑھ کے امی کے ہاتھ سے گڑیا چھینی اور مجھے پکڑا دی۔ میرے کلیجے میں ایک دم ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ امی ٹھنک کر زمین پر پیر پٹخنے لگیں۔

    "اور نحوست پھیلاؤ!" فضہ نے انہیں ڈانٹا اور واپس چلی گئی۔ امی کا پیر پٹخنا تو بند ہوگیا تھا البتہ وہ دانت بھینچ بھینچ کر بڑبڑا رہی تھیں کہ "گڑیا دے! گڑیا دے ے ے ے!" میں جان بوجھ کر وہاں بیٹھا گڑیا سے کھیلتا رہا۔

    "گڑیا دے دے چوہے، میری گڑیا دے دے!" انہوں نے پھر دانت بھینچ کر کہا۔ میں نے گڑیا اٹھا کر دو تین بار زمین میں ٹھونک دی۔

    "موٹے گنجے چوہے، میری گڑیا دے ادھر! مجھے میری گڑیا واپس چاہیے!" وہ منہ بسورنے لگیں۔ میں نے انگلی بڑھا کر گڑیا کی دائیں آنکھ میں گھونپ دی۔ امی تلملا کر رہ گئیں۔ میں نے یہی عمل تین چار بار دہرایا اور جب گڑیا کی آنکھ مکمل طور پر پھوٹ گئی تو کانی گڑیا کو زمین پر پٹخ کر کمرے سے باہر آگیا۔ اچانک مجھے اپنے پیٹ میں ایک خلا سا محسوس ہوا اور تب مجھے خیال آیا کہ جب سے اٹھا ہوں ایک دانہ بھی نہیں کھایا، بھوک کا شدید احساس ایک زوردار چیخ کی شکل میں میرے منہ سے برآمد ہوا اور یوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیسے بہت بڑے صدمے سے دوچار ہوا ہوں۔

    "کا ہوا چندا؟ کوں لو لئے ہو؟" فضہ کو پتا نہیں کیوں مجھ پہ بے انتہا لاڈ آیا اور وہ پیار سے توتلی زبان میں مجھے پچکارنے لگی مگر میں چڑ کر اور زور سے رونے لگا۔ "اے اے اے میلا چندا! کوں چھول مچا لا اے! بھکو لگی ہے؟" میں نے روتے روتے ہاں میں سر ہلا دیا۔ فضہ مجھے پلنگ پر بٹھا کر خود باورچی خانے چلی گئی اور چٹخارے دار کھانوں کا تصور میرے منہ میں بالٹی بھر پانی لے آیا۔۔۔۔۔ لیکن جب وہ کچن سے باہر آئی تو میری چیخ نکل گئی۔ کچھ دیر بعد میں بے کس بیٹھا گندم کا پھیکا دلیا زہر مار کر رہا تھا۔

    ٭٭٭

    یہ سب اب تک میری سمجھ میں پوری طرح نہیں آ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں ایک عجیب و غریب خواب دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اپنے آپ کو کاٹ کر اس خواب کی حقیقت جاننے کا فیصلہ کیا لیکن یہ سوچ کر ڈر گیا کہ اگر میرے دانت بہت نوکیلے ہوئے اور میری رگ یا گوشت میں پیوست ہو گئے تو درد تو ہوگا ہی، خون بھی بہے گا اور ممکن ہے میں آدم خور ہی بن جاؤں یا خون، وہ بھی انسانی خون کا چسکا لگ جائے۔ نہیں! چل کے کسی اور کو کاٹوں تاکہ خون نکلے تو بھی اسی کا نکلے اور اگر وہ چیخا تو بس یہ حقیقت ہے ورنہ نہیں۔

    چنانچہ میں پھر گھٹنوں گھٹنوں اپنے شکار کی تلاش میں نکل پڑا۔ سامنے ہی اباجان بے سدھ پڑے سو رہے تھے اور زوردار خراٹے لینے کے ساتھ عجیب و غریب آوازیں بھی نکال رہے تھے۔ یوں جیسے کوئی گھوڑا چھینک رہا ہو۔ میں نے چپکے سے آگے بڑھ کر پنجوں کے بل اچک کر بڑا سا منہ کھولا جیسے مگرمچھ کھولتا ہے اور بے خوف و خطر ہو کر کھٹ سے ابا جان کا ہاتھ اپنے منہ میں بند کر لیا۔

    "یاہ آ آ آ آ آ آ آ آ !" ابا جان نے ہڑبڑا کر ایک فلک شگاف چیخ ماری اور ہاتھ پکڑ کر رونے لگے جبکہ میں دم بخود بیٹھا رہ گیا کیونکہ ابا جان کی چیخ ثابت کر چکی تھی کہ یہ حقیقت ہے۔

    "فضہ آ آ آ! فضہ باجی ای ی ی ی!" اس نے۔۔۔۔۔ اس نے مجھے۔۔۔۔۔ کاٹا۔۔۔۔۔ کاٹا ہے!" ابا جان بسورتے ہوئے عجیب سے لگ رہے تھے۔

    "کیوں کاٹا ہے بھئی! اور کتنی زور سے کاٹ لیا! کتے ہو گئے ہو کیا؟" فضہ کو پھر غصہ چڑھ گیا۔

    "میں اس کے دانت توڑ دوں گا! اس نے مجھے کاٹا ہے!"

    "تم بہت تیز ہوگئے ہو! بہت پر لگ رہے ہیں! ہائیں!" فضہ نے مجھے ایک تھپڑ رسید کر دیا اور تب مجھے احساس ہوا کہ جب میں بلا جھجک بچوں کو پیٹتا ہوں گا تو انہیں کیسا لگتا ہوگا۔ مجھے سخت غصہ آرہا تھا۔ "چلو سونے! تمہارا علاج ہی یہ ہے کہ تمہیں چوبیس گھنٹے سلایا جائے!" فضہ نے میرے لیے وہی علاج تجویز کیا جو میں منے میاں کے لیے کرتا تھا اور مجھے اٹھا کر میرے کمرے میں لے آئی۔

    "لیٹو چلو سوؤ!" اس نے مجھے بستر پر پھینکا۔

    "آ آ آ! اللہ اللہ! اللہ اللہ! اللہ آ آ اللہ! ہم ہم ہوں ہوں!" وہ مجھے لوری دے کر تھپکنے لگی اور میں آہستہ آہستہ گہری نیند کی آغوش میں کھو گیا۔

    ٭٭٭

    طوطوں کے ٹائیں ٹائیں کرنے پر میری آنکھ کھلی، کچھ دیر بے سدھ پڑا دوبارہ سونے کی کوشش کرتا رہا اور جب یہ یقین ہو گیا کہ اب نیند نہیں آئے گی تو انگڑائی لے کر اٹھ گیا۔

    واش بیسن پہ جب میں برش کر رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ میں خود اپنے پیروں پر چل کر یہاں تک آیا ہوں، میرے کپڑے بھی میرے سائز کے ہیں اور باقی سب بھی۔ "ارے! تو کیا وہ خواب تھا! چلو شکر ہے ورنہ پتا نہیں کیا ہوتا!" میں بڑبڑایا۔ اپنے منہ میں اپنی ہی آواز سن کر بڑی خوشی ہوئی۔ منہ ہاتھ دھو کے جب میں اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا تو میری نظر برآمدے میں تخت پر خواب خرگوش کے مزے لیتے منے میاں پر پڑی اور مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔

    "ارے! یہ میری قمیص یہاں کیا کر رہی ہے!" میں نے بڑبڑا کر قمیص اٹھا لی۔گہرے نیلے رنگ کی وہ قمیص میری پسندیدہ قمیص تھی اور اس وقت گول ہوئی ہوئی منے میاں کے سرہانے پڑی تھی۔ حالانکہ میں اسے رات الماری میں ٹانگ کر سویا تھا۔

    "پتا نہیں یہاں کیسے آگئی؟" میں بڑبڑایا اور قمیص لے کے اپنے کمرے میں چلا کہ اچانک پیچھے سے کسی کے کھانسنے کی آواز آئی۔

    میں نے چونک کر دیکھا۔ منے میاں کو کھانسی کے ہلکے ہلکے ٹھسکے لگ رہے تھے بالکل ایسے جیسے کسی کو سگریٹ نوشی کے بعد لگتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ منے میاں کے ہونٹوں پر ایک دبی دبی سی مسکراہٹ تھی۔ ایک پل کو یوں لگا کہ وہ سو نہیں رہے، سونے کی اداکاری کر رہے ہیں۔ ان کی پراسرار مسکراہٹ بڑی دلکش تھی، یوں جیسے کہہ رہے ہوں، کیوں میاں کیسی رہی۔۔۔۔۔ اب کرو گے مجھ سے وہ سلوک جو چند گھنٹے پہلے تم سے ہوا؟"

    میں سمجھ گیا کہ وہ سب کچھ حقیقت تھی، جس سے میں ابھی ابھی گزرا اور اس وقت تو اس کے حقیقت ہونے میں کوئی شک نہ رہا جب میں نے اباجان کو بیسن پر کھڑے اپنے منہ سے دلیا صاف کرتے دیکھا اور ان کے چہرے پر طاری شرمندگی بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی!
     
  2. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    ارے بھائی ۔ اس فلسفے کی وضاحت بھی فرما دیں کہ یہ سب ہے کیا ؟ :shock:
     
  3. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16

    یہ سب الٹ‌پھیر ہے جناب۔۔۔۔ :wink:
     
  4. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    واہ بھئی ادھر تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا ہے :shock: ناقابل یقین
     
  5. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    حماد بھائی یقین کر لیں ۔۔سچّی مچّی یہ سب الٹ پلٹ ہی ہے۔۔۔۔ اس میں‌میرا کوئی عمل دخل نہیں‌ہے۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں